وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی لندن میں ہونے والی ’’اہم ملاقاتوں‘‘ کے بارے میں کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ ملاقاتوں سے پیدا ہونے والے ’’سیاسی اثرات‘‘ کی فضا سے حکومت کے ایوانوں میں تشویش کی لہر محسوس کی جارہی ہے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ سابق وفاقی وزیر خزانہ لندن میں ’’پرنسپل کوآرڈی نیٹر‘‘ کے طور پر اپنی ڈیوٹی نبھا رہے ہیں۔
بین الاقوامی اداروں کے کئی کلیدی عہدے داروں کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے ’’حالات حاضرہ‘‘ کے تناظر میں اپنی گزارشات سے سابق وزیراعظم کو آگاہ کیا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر مملکت اور ان کے کزن مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ’’عوامی وفود‘‘ سے بھی ملاقاتیں کروانے میں پیش پیش ہیں۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ سیاسی خدشات کے پیش نظر سابق وزیراعظم کو براہ راست ’’ٹارگٹ‘‘ کرنے کا ’’خصوصی ٹاسک‘‘ جہلم اور راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے دو وفاقی وزراء کو دے دیاگیا ہے؟
وفاقی وزیر کی گرمی سردی
وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ’’گیس کے بحران‘‘ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالہ سے ایک وفاقی وزیر کے ناروا رویے سے ’’دلبرداشتہ‘‘ حکومتی عہدیداروں کے بارے میں کئی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے نوجوان وفاقی وزیر کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کئی بڑے صنعت کار حکومت سے ’’ناراضگی‘‘ کا اظہار کر رہے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے وفاقی مشیر تجارت سے اعلیٰ سطحی اجلاس میں مذکورہ وفاقی وزیر کی ’’گرمی سردی‘‘ نےبھی کاروباری شعبے کو اضطراب میں مبتلا کردیا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ پنجاب کے ایک صوبائی وزیر نے نجی محفل میں لوہے کے نرخ میں اضافہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اسی وفاقی وزیر کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے؟
پولیس افسر کی کاروباری سرگرمیاں
صوبائی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ڈی آئی جی عہدہ کے ایک پولیس افسر کی کاروبار کی آڑ میں ’’بھاری رقوم‘‘ حاصل کرنے کے بارے میں کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ ڈی آئی جی حال ہی میں ’’روٹیشن پالیسی‘‘ کے تحت بلوچستان تبدیل کئے گئے ہیں۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اس اعلیٰ پولیس افسر نے ابتدا میں ’’گراسری سٹوروں‘‘ کے کاروبار میں لوگوں سے خطیر رقوم منافع کا لالچ دےکر حاصل کی تھیں۔
اکبری منڈی اور دیگر مارکیٹوں سے ادھار پر ’’اشیائے ضروریات‘‘ کو بڑے پیمانے پر لیا اور ان کو وہ چیک دیئے جو کیش نہ ہوسکے۔ ایک سابق آئی جی نے بھی ڈیڑھ کروڑ کی سرمایہ کاری کی لیکن بڑی مشکل سے ان کو رقم واپس ملی۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ایک دینی مدرسے کے چندہ کی کروڑ سے زائد کی رقم بھی منافع دینے کا جھانسہ دے کر اس ’’مدرسے کے مہتمم‘‘ سے لی گئی ہے۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس معاملہ کی تحقیقات کے لئے ایک ’’خفیہ ادارے‘‘ کو ذمہ داری سونپی گئی ہے؟