• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آپ کو لگتا ہے کہ الیکٹرک کاریں ایک نیا تصور ہے، تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک، الیکٹریکل وہیکل (EV) میں دلچسپی بنیادی طور پر شائقین کے ایک مخصوص گروپ کی طرف سے تھی۔ ایندھن سے چلنے والی کار اور ٹرک عام طور پر 'گاڑیوں کی روایتی اقسام سمجھی جاتی ہیں لیکن امریکی محکمہ توانائی کے مطابق، الیکٹرک گاڑیاں بھی تقریباً اسی دوران ہی تیار کی جا رہی تھیں۔ 

اگرچہ کارل بینز (جرمنی) کو 1880ء کی دہائی کے وسط میں پٹرول سے چلنے والی پہلی گاڑی ایجاد کرنے کا سہرا دیا جاتا ہے، لیکن درحقیقت پہلی خام الیکٹرک گاڑی ، جوکہ ایک الیکٹرک کیریج تھی، 1832ء کے آس پاس اسکاٹ لینڈ میں ایجاد ہوئی تھی۔ آنے والی دہائیوں میں الیکٹرک گاڑیوں کی دیگر ابتدائی شکلیں سامنے آئیں۔

امریکی محکمہ توانائی کے مطابق، 50سال کے اندر پہلی ’کامیاب الیکٹرک کار‘ آئیووا میں تیار کرلی گئی تھی، حالانکہ وہ اس وقت بھی جدید دور کی الیکٹرک وہیکل ٹیکنالوجی سے بہت دور تھی۔ 1900ء تک الیکٹرک کاریں اپنے عروج پر پہنچ چکی تھیں اور سڑک پر چلنے والی تمام گاڑیوں میں ان کا تقریباً ایک تہائی حصہ تھا۔ 

ان کی فروخت کا سلسلہ آئندہ ایک دہائی تک جاری رہا۔ لیکن ٹیکنالوجیکل ترقی اور بجلی سے چلنے والی گاڑیوں سے ہٹ کر سفر کرنے کی امریکی خواہش نے پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کی مقبولیت کو الیکٹرک گاڑیوں سے آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا، یہ ایک ایسا فیصلہ ثابت ہوا، جو آئندہ کئی دہائیوں تک ترجیح بنا رہا۔ ذیل میں الیکٹرک گاڑیوں کی اقسام بیان کی جارہی ہیں۔

ہائبرڈ الیکٹرک وہیکلز (HEVs)

ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیاں، ایندھن پر چلنے والا اندرونی انجن اور گاڑی کی بیٹریاں دونوں استعمال کرتی ہیں، جو برقی موٹروں کو قوت فراہم کرتی ہیں۔ ڈرائیور گاڑی کا گیس ٹینک بھر سکتے ہیں جب کہ ’ری جنریٹو بریکنگ سسٹم‘ سے فائدہ اُٹھا تے ہوئے توانائی کو ذخیرہ بھی کرسکتے ہیں، جو بصورتِ دیگر گاڑی کو بریک لگانے سے ضائع ہوجاتی ہے۔ HEV کی بیٹری کو دیگر قسم کی برقی گاڑیوں کی طرح پلگ سے چارج نہیں کیا جا سکتا۔

ایک HEV میں، الیکٹرک موٹر کی طرف سے فراہم کردہ اضافی توانائی ناصرف چھوٹے کمبشن انجن کو چلاسکتی ہے بلکہ بیٹری معاون بوجھ کو بھی توانائی دے سکتی ہے اور گاڑی کے بند ہونے پر انجن کی سستی کو کم کر سکتی ہے۔ یہ تمام خصوصیات، کارکردگی کی قربانی دیے بغیر ایندھن کی بچت کا باعث بنتی ہیں۔ البتہ، جن گاڑیوں میں پلگ نہیں ہوتا، انھیں الیکٹرک وہیکل نہیں مانتے اور انھیں ایک اور مختلف کیٹیگری میں رکھتے ہیں۔

پلگ-اِن ہائبرڈ الیکٹرک وہیکلز (PHEVs)

نان-پلگ-اِن وہیکلز کی طرح، پلگ-اِن وہیکلز بھی دونوں، ایندھن پر چلنے والا روایتی انجن اور بیٹری استعمال کرتی ہیں۔ دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ اپنی بیٹری کو ’ری جنریٹیو بریکنگ‘‘ کے علاوہ الیکٹرک گرڈ سے بھی چارج کرسکتی ہیں۔

بیٹری الیکٹرک وہیکلز (BEVs)

PHEVs کی طرح، بیٹری الیکٹرک وہیکلز (BEVs)، جنھیں آل- الیکٹرک گاڑیاں بھی کہا جاتا ہے، ایک پلگ کے ساتھ گرڈ سے جڑنے اور ہمارے گھروں اور کاروبار میں چلنے والی اسی بجلی سے چارج ہونے کے قابل ہیں۔ یہ ری جنریٹیو بریکنگ کے ذریعے اپنی بیٹریوں کو ’ٹاپ-اَپ‘ کرسکتی ہیں۔

تاہم BEVs میں کمبشن انجن نہیں ہوتا، جس کا مطلب ہے کہ ایسی گاڑیاں پٹرول پر نہیں چل سکتیں اور چلاتے وقت ان سے کسی آلودہ اور زہریلی گیس کا اخراج نہیں ہوتا۔

الیکٹرک گاڑیاں اور ماحولیات 

اگرچہ الیکٹرک گاڑیوں کے کچھ ممکنہ ڈرائیور اس بات کی زیادہ پروا نہیں کرتے کہ آیا ان کی گاڑی ماحول کے لیے بہتر ہے یا بدتر، بہت سے لوگ سب سے پہلے ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی بحران کے خاتمے کے تناظر میں ہی ان گاڑیوں کے بارے میں سُنتے ہیں۔ الیکٹرک گاڑیوں کے کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ الیکٹرک گاڑی کے چارج کے ’گرین‘ ہونے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ متعلقہ گرڈ میں بجلی کتنی صاف (کِلین) ہے۔ تاہم، کسی بھی گرڈ میں بجلی چاہے گیس سے پیدا ہورہی ہو یا کوئلے سے، ا س گرڈ سے چارج ہونے والی الیکٹرک گاڑی سے ہونے والا اخراج یقیناً بہت کم نقصان دہ ہوتا ہے۔

ناقدین اور یہاں تک کہ الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے حامی بعض دھاتوں، جیسے لیتھیم اور کوبالٹ کی طلب اور حصول کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں کی تیاری کے لیے لازمی ہیں۔ ان دھاتوں کے حصول کے لیے کان کنی متنازعہ ہے، کیونکہ اس سے ماحولیاتی نقصان اور انسانی وسائل کا استحصال ہورہا ہے۔

الیکٹرک گاڑیوں کا مستقبل

جیسے جیسے ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا بھر میں تشویش بڑھ رہی ہے، اسی طرح الیکٹرک گاڑیوں پر جانے کی خواہش میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔2020ء کے آخر تک، دنیا بھر میں تقریباً 11 ملین الیکٹرک گاڑیاں مختلف حکومتوں کے پاس رجسٹر ہوچکی تھیں۔ الیکٹرک گاڑیوں کی یہ تعداد خاص طور پر اس وقت بہت کم معلوم ہوتی ہے جب ہم یہ دیکھیں کہ 2010ء میں ہی کرہِ ارض پر روایتی گاڑیوں کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کرچکی تھی۔ 

توقع ہے کہ رواں دہائی کے آخر تک، روڈ ٹرانسپورٹیشن میں الیکٹرک کاروں، بسوں، ٹرکوں، وین کا حصہ سات فی صد تک پہنچ جائے گا، بشرطیکہ دنیا بھر کی حکومتیں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کی موجودہ سہولت کار پالیسیاں جاری رکھیں۔ مثال کے طور پر، امریکی صدر جو بائیڈن نے اگست 2021ء میں ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس کا مقصد یہ ہے کہ 2030ء تک امریکا میں فروخت ہونے والی تمام نئی گاڑیاں ’صفر اخراج‘ ماڈلز کی ہونی چاہئیں۔ البتہ، کچھ اندازوں کے مطابق، 2035ء تک بھی امریکا میں تیار ہونے والی ہر نئی گاڑی ’الیکٹرک‘ نہیں ہوسکتی۔