براعظم افریقہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا براعظم ہے جس کا رقبہ بتیس کروڑ اڑتیس لاکھ مربع کلو میٹر ہے اور مجموعی آبادی ایک ارب اٹھائیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ مجموعی آمدنی سات ٹریلین ڈالر کے قریب ہے جبکہ اوسط سالانہ فی کس آمدنی 1870ڈالر ہے۔
آج دنیا کے بیش تر ممالک جو غربت پسماندگی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں وہ ماضی میں دنیا کے خوشحال اور آسودہ حال ممالک میں شمار ہوتے تھے۔ ان ملکوں میں قدرتی وسائل کی کمی نہ تھی۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں یورپی طاقتوں مثلاً برطانیہ، ہالینڈ، فرانس، پرتگال اور اسپین نے ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے مختلف ممالک پر کہیں بزور قوت اور کہیں بذریعہ تجارت قبضہ جمایا اور ان ممالک کی کمزوریوں سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان ممالک کو اپنی کالونیاں بنالیا۔ یورپی ممالک نے اپنی نوآبادیات کے قدرتی وسائل سے استفادہ کرنے کے لئے ان ممالک میں تفرقہ بازی اور دیگر فروحی مسائل پیدا کئے۔
منصوبہ بندی کے ذریعے ان ایشیائی افریقہ لاطینی امریکی ممالک کی اس وقت کی صنعت و حرمت، معاشی ڈھانچے اور سماجی اقدار کو بری طرح سبوتاژ کیا۔ کینیا سے لے کر جنوبی افریقہ تک جہاں جہاں یورپی طاقتیں قابض رہیں ان ممالک کے معاشرے قبائلی، مذہبی، علاقائی اور سماجی تنازعات میں الجھے رہے۔ اس کے علاوہ یورپی حکمرانوں نے ان ممالک میں اپنے طبقے کو بھی جنم دیا جو ملک سے زیادہ غیرملکی آقائوں کا حلقہ بگوش بن کر اپنے ہی عوام کے ساتھ سازشیں کرتا رہا۔
اگر غریب ممالک کی فہرست بنائیں تو پچاس فی صد سے زائد ممالک غربت اور پسماندگی کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد اب جدید نوآبادیاتی نظام کا چلن عام ہے۔ یہ نظام ماضی سے قدرے مختلف ہے۔ جس کا تماشا ہر روز و شب ہوتا ہے۔ گزرے تین چار عشروں میں عالمی معیشت میں آنے والے مد و جزر نے ترقی پذیر ملکوں کی معیشت کو مزید ہلکان کردیا ہے۔ تیل کی قیمت میں اتار چڑھاؤ عالمی معیشت کو شدید زیربار کردیتے ہیں۔
2021کے آواخر میں اقوامِ متحدہ ، علمی ادارۂ صحت کی رپوٹیں اور کچھ سروےرپورٹیں منظرِ عام پر آئیں، جن میں دنیا کے غریب پسماندہ ممالک کے بارے میں بتایا گیا ۔ ان ممالک کی فہرست طویل ہے۔ذیل میں چند غریب اور نادار ممالک کے بارے میں 2021 میں شائع ہونے والی چند رپوٹوں سے چیدہ چیدہ اقتباس ملاحظہ کریں ۔
صومالیہ فی کس آمدنی سالانہ 760ڈالر، برونڈی فی کس آمدنی سالانہ 770ڈالر، وسطی افریقہ سالانہ فی کس آمدنی 750ڈالر سالانہ، مالوی فی کس سالانہ آمدنی 990ڈالر، ری پبلک آف کانگو فی کس سالانہ آمدنی 1120ڈالر، نائجیر سالانہ فی کس آمدنی 1270ڈالر، مڈغاسکر سالانہ فی کس آمدنی 1630ڈالر، لائبریا سالانہ فی کس آمدنی 1560ڈالر، موزنبیق سالانہ فی کس آمدنی 1780ڈالر ہے۔چاڈ سالانہ فی کس آمدنی 1790ڈالر، اومیٹیریا 1830 ڈالر فی کس آمدنی، یمن 1945ڈالر فی کس سالانہ آمدنی، افغانستان 2400 سالانہ فی کس آمدنی، یوگنڈا 2580سالانہ فی کس آمدنی، ان ممالک کے علاوہ مزید ممالک کی طویل فہرست ہے سب کی معاشی، سیاسی اور معاشرتی صورت حال یکساں ہیں۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کی ایک حالیہ رپورٹ جو عالمی سطح پر غربت میں اضافے کے حوالے سے شائع کی گئی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ کئی ملین افراد دو ڈالر سے کم آمدنی پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں، مگر آبادی پر کنٹرول نہیں ہے جب تک آبادی پر کنٹرول نہیں ہوگا غربت کم نہیں ہوسکتی بڑھتی رہے گی۔ ایک غیرسرکاری تنظیم کے سروے کے مطابق سب سے زیادہ غربت و پسماندگی افریقہ میں ہے۔
سروے رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ آبادی میں اضافہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جنوبی امریکا میں ایمیزون کے جنگلات کی جس انداز سے کٹائی ہورہی ہے یہ تباہ کن صورت حال ہے۔ اس براعظم میں آبادی میں اضافہ کی رفتار بدستور جاری ہے ایسے میں جنگلات کی کٹائی کرکے اس لکڑی سے مکانات بنائے جارہے ہیں، زمین صاف کرکے آبادی بسائی جارہی ہے۔ برازیل اور اطراف کے ممالک نے بار بارقوانین وضع کئے، پابندیاں عائد کیں مگر سب بے کار ہوگئی ہیں جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
حالانکہ اقوام متحدہ ایمیزون کے جنگلات کی اہمیت بار بار اجاگر کرتے ہوئے ان کی حفاظت کی تاکید کرتی رہی مگر نتیجہ صفر ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ شجرکاری پر زور دیا جارہا ہے۔ یورپی قوتوں نے دنیا میں خصوصاً براعظم افریقہ میں رنگ و نسل کا زہر بری طرح پھیلایا ہے لیکن اس زہر کے اثرات کو مٹانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکیں۔
واضح رہے کہ ماضی بعید میں دنیا کا سب سے امیر ترین شخص افریقی تھا۔ امیروں کی تعداد بھی افریقہ میں زیادہ تھی مگر نوآبادیاتی نظام اور اس کی لوٹ کھسوٹ نے کل کے امیر ترین ممالک اور شخصیات کو کنگال بنادیا۔ پھر ان مظلوم ممالک کو کرپٹ نااہل قیادت تحفے میں دے دی جو کمی رہ گئی تھی یہ کرپٹ رہنما پوری کررہے ہیں۔
عوامی جمہوریہ مڈغاسکر
مڈغاسکر دنیا کا چوتھا بڑا جزیرہ ہے۔ بحرہند میں افریقہ کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع یہ جزیرہ حسین ترین ہے۔ انواع و اقسام کے پھول پودے پرندے اور حسین مناظرکسی مصور کا شاہکار لگتے ہیں۔ ماضی قریب میں اس جزیرہ کا نام مالا گاسی تھا۔ فرانس کے قبضہ کے دوران یہاں کی بود و باش، رہن سہن اور معاشرت میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ماہی گیری سب سے اہم پیشہ ہے۔ اقوام متحدہ نے اس جزیرہ کو دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ اس جزیرہ پر مسلمان، عیسائی، یہودی اور بھارتی آباد ہیں۔
مڈغاسکر کی تجارتی کمیونٹی میں آغا خان، بوہرہ اور کچھ سکھ شامل ہیں۔ سو برس قبل نوآبادکار یورپین نے کاریگر، کاشت کار ہندوستان سے لاکر بعض افریقی ممالک میں بسائے تھے۔ اب ان کی کئی نسلیں یہاں پیدا ہوچکی ہیں مگر افریقی باشندے بھارتیوں یا ہندوستانیوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ اب بھی بیس، تیس فی صد تجارت بھارتیوں کے ہاتھ میں ہے۔
برونڈی
برونڈی دنیا کا سب سے غریب اور پسماندہ ملک شمار کیا جاتا ہے اس کی آبادی پچھتر لاکھ کے قریب ہے اور اوسط سالانہ آمدنی تین سو بیس ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ تعلیم، صحت عامہ کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ قدرتی وسائل بھی کم ہیں۔ ماضی میں اس ملک کے پاس جو کچھ تھا وہ قدرتی وسائل تھے۔وہ یورپی نو آباد کار لوٹ کر لے گئے۔
یہاں تک کے اس ملک کے قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف لڑا دیا، قبائلی تنازعات پیدا کرنے کے علاوہ انہوں نے نسلی اور مذہبی تعصبات کو بھی ہوا دی۔ اس طرح نہ صرف برونڈی کی بلکہ نواباد کاروں نے افریقہ کے دیگر ممالک کے معاشروں کو بھی برباد کیا۔ ان کی ثقافت ،سماجیت سب کو متاثر کیا۔ سروے رپورٹ کے مطابق 2021میں برونڈی کی غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
موزمبیق
افریقہ کے مشرقی ساحلوں پر واقع موزمبیق کی آبادی پانچ کروڑ کے قریب ہے۔ آبادی کا دبائو زیادہ ہے۔ غربت کی وجہ سے معاشرتی برائیوں کا چلن عام ہے۔ بیروزگاری ،خوراک کی کمی ،اورصحت عامہ کی سہولتوں میں کمی کی وجہ سے عوام میں مایوسی بیزاری بڑھ رہی ہے۔ اس ملک کا بھی وہی مسئلہ ہے کہ آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وسائل ناپید ہوتے جا رہے ہیں، سیاسی اور معاشی ڈھانچے بد انتظامی اور بدعنوانی کا شکار ہیں۔
جمہوریہ نائیجر
جمہوریہ نائیجر کا شمار بھی غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ آبادی تین کروڑ سے زائد ہے۔ فی کس سالانہ آمدنی 1510ڈالر ہے۔ نائیجر میں خواندگی کی شرح کم ترہے اور صحت عامہ کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بیروزگاری اس ملک میں عام ہے اور آبادی میں اضافہ کی رفتار مستحکم ہے اس میں کوئی نہیں ہے۔ حالانکہ نائیجر سمیت دیگر افریقی ممالک میں یونیسیف کی جانب سے آبادی میں کنٹرول اور حفظان صحت کے مختلف منصوبوں پر کام کیا جاتا رہا ہے۔ مگر کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔ تاہم یونیسیف کام کر رہی ہے۔2021 میں بہت تیزی سے کام ہوا۔ 2022میں حالت میں بہتری آئے گی۔
وفاقی جمہوریہ ایتھوپیا
ایتھوپیا جو ماضی میں حبشہ کہلاتا تھا، افریقہ کا بہت بڑا ملک ہے، اس کا رقبہ گیارہ لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔آبادی بارہ کروڑ کے قریب ہے۔مجموعی آمدنی 280بلین ڈالر ، جبکہ سالانہ فی کس 990ڈالر ہے۔ براعظم افریقہ کا یہ ملک تاریخی اعتبار سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایتھوپیا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس ملک نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ جس کی وجہ سے تبلیغ کو بہت زیادہ تقویت حاصل ہوئی اور اسلام کی روشنی دنیا میں اجاگر ہوئی۔ تاریخ میں شاہ سلمان اور ملکہ شیبا کا تذکرہ ہے۔
ان کا بھی اس ملک سے تعلق تھا۔ ماضی بعید میں ایتھوپیا یا حبشہ کو جادوگروں کا ملک بھی کہا جاتا تھا۔ آج افریقی یونین کا صدر دفتر عدیس بابا ہی میں ہے۔ تمام معاہدہ اور سیاسی مذاکرات ایتھوپیا میں طے ہوتے ہیں۔ ستر کی دہائی میں شاہ ہیل سلاسی نے بہت سی سیاسی اور معاشی اصلاحات کی تھیں اور سابقہ سوویت یونین سے گہرے تعلقات قائم کئے تھے۔ ایتھوپیا میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، تعلیمی اوسط 54 فیصد سے زائد ہے۔
جمہوریہ چاڈ
جمہوریہ چاڈ کا رقبہ تیرہ لاکھ مربع کلومیٹر سے کچھ کم ہے، آبادی ایک کروڑ ستر لاکھ سے زائد ہے۔ آمدنی تیس بلین ڈالر ہے اوسط سالانہ فی کس آمدنی نو سو ڈالر ہے۔ فرانس نے 1920 میں اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ ساٹھ کے عشرے سے چاڈ کو آزادی ملی۔ بعد ازاں پرانے قبائلی تنازعات اُبھر آئے ۔ ملک میں خانہ جنگی شروع ہوئی۔ افریقہ کی رسوائے زمانہ دہشت گرد تنظیم نے چاڈ کو نشانہ بنایا ہوا ہے۔ اب عوام اور فوج بوکو حرام کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہاں مسلمان اڑتیس فیصد عیسائی تیس فیصد اور باقی لا مذہب ہیں۔ تعلیم کا اوسط پست ہے۔
جمہوریہ وسطی افریقہ
وسطی افریقہ کی مجموعی آبادی نوے لاکھ کے قریب ہے۔ دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں عیسائی آبادی اکثریت میں ہے، مسلمان دس فیصد کے قریب ہیں۔ ملک میں قبائلی تنازعات کا سلسلہ پرانا چلا آرہا ہے۔ عیسائی آبادی کیتھولک اور پرو ٹسٹنٹ میں بنی ہوئی ہے ان کے مابین بھی کچھ مسائل ہیں،ملک عدم استحکام کا شکار ہے، معاشی بدحالی عام ہے۔
لائبیریا
لائبیریا ہر چند کت چھوٹا ملک ہے، اس کا رقبہ ایک لاکھ مربع کلومیٹر سے کچھ زائد ہے، اور آبادی باون لاکھ افراد پر مشتمل ہے، مگر یہ چھوٹا ملک اس حوالے سے مشہور ہے کہ دنیا کے ہر ملک پر لائبیریا کا پرچم دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لائبیریا نے انٹرنیشنل اوشیانک فیڈریشن سے تجارتی بحری جہازوں کو اپنے ملک میں رجسٹر کرنے اور انہیں لائبیریا کا پرچم استعمال کرنے کی اجازت دینے کی منظوری حاصل کر رکھی ہے۔
دنیا کی اوسط درجے کی تمام شپنگ کمپنیاں لائبیریا کا پرچم استعمال کر کے ٹیکس میں رعایت حاصل کرتی ہیں۔ افریقہ کے مغربی ساحل پر واقع اس ملک کی ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں بیس زبانیں بولی جاتی ہیں،البتہ انگریزی مارکیٹ کی عام بول چال ہے۔ لائبیریا ٹمبر پام آئل کی بڑی ایکسپورٹ کرتا ہے۔سرمایہ کاروں کی اس جانب توجہ بڑھتی جا رہی ہے جس سے امید ہے جلد خوشحالی بھی آ جائے گی۔
یمن
یمن تاریخی طور پر بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس ملک کا رقبہ پانچ لاکھ مربع کلومیٹر اور آبادی تین کروڑ سے زائد ہے۔ مجموعی آمدنی چھتر بلین ڈالر ہے جبکہ اوسط سالانہ آمدنی930ڈالر ہے۔ تعلیم کا اوسط کم ہے ، شہروں میں تعلیم کا اوسط زیادہ ہے۔ عدن مشہور بندر گاہ اور اہم تجارتی مرکز بھی ہے۔ یمن کی زیادہ سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے اور ان دونوں پڑوسی عرب ممالک کے تعلقات قدیم اور مستحکم ہیں۔ مگر گزشتہ نو برس سے مسلک کی لڑائی جا رہی ہے۔ حوثی باغی اور سنی مسلک کے مسلمانوں کے مابین تنازعہ کھڑا ہوا ہے۔ اس لاحاصل لڑائی میں دونوں جانب کا نقصان ہو رہا ہے اور عوام خوراک کی کمی اور علاج معالجہ کی سہولتوں کی عدم موجودگی سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
مالدیپ
مالدیپ بحرہند میں سری لنکا کے قریب واقع ہے اس کا رقبہ صرف300 مربع کلومیٹر ہے۔ آبادی پانچ لاکھ اٹھاون ہزار ہے۔ مجموعی آمدن 9بلین ڈالر اور اوسط سالانہ آمدنی بارہ ہزار ڈالر ہے۔ عالمی بینک نے مالدیپ کو اوسط آمدنی ملک کادرجہ دیا ہے۔ مگر غربت بہت ہے۔ 1153میں مالدیپ کے راجہ نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام سلطان محمدعادل رکھا۔ ماضی بعید میں قبل اسلام مالدیپ قومی یونیورسٹی معیاری اور اعلیٰ تعلیم دے رہی ہے۔ عرب تاجروں کے آمد ورفت نے اس چھوٹے ملک میں عرب کلچر کو عام کیا جس کا اثر آج بھی قائم ۔مالدیپ سارک معاہدہ کا رکن ہے اور جنوبی ایشیائی ممالک سے اچھے تعلقات رکھتا ہے۔
افعانستان
افغانستان رقبہ کے لحاظ سے بڑا ملک ہے اس کا رقبہ65لاکھ مربع کلومیٹر کے قریب ہے۔ آبادی سوا تین کروڑ کے قریب ہے۔ جبکہ سالانہ فی کس آمدنی 1600 ڈالر کے لگ بھگ ہے۔افغانستان جنوبی ایشیا کا سب سے پسماندہ ملک رہا ہے، خواندگی کی شرح بھی خاصی کم ہے۔ افغانستان کی تاریخ جنگ وجدل ،قبائلی تنازعات ،نسلی لسانی اور مذہبی تعصبات سے بھری پڑی ہے، افغانی عوام محنتی جفا کش ،جنگجو اور اسلام کے بڑی شیدائی ہیں۔
افغانستان کو وسطی ایشیا اور جنوبی مشرقی ایشیا کا دروازہ یا راہدری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ لینڈ لاک علاقہ ہے۔ تجارت زیادہ تر پاکستان کے علاقہ سے ہوتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہت قدیم ہیں مگر 1979کے موثر انقلاب کے بعد وہاں صورتحال بہت تبدیل ہو گئی۔
انقلاب ناکام ہو گیا، اس پس منظر میں افغان جہادی میدان میں ان کے بعد افغان طالبان حکومت میں ہیں۔ ان کا بھی نعرہ ملک میں شریعت نافذ کرنا ہے۔ طالبان حکومت میں آتے ہی مغربی ممالک نے اس ملک کی امداد اور ملک میں اس کے اثاثوں پر پابندی لگوا دی ہے۔ اس وقت برادر ملک پاکستان صرف انکے حق میں بات کر رہا ہے۔ ملک میں خوراک کے ذخیرے ختم ہو چکے ہیں۔
نئی حکومت کا خزانہ خالی ہے ،تنخواہوں کیلئے رقم نہیں، اناج خریدنے کی رقم نہیں، ملک کی نصف سے زائد آبادی بھوک اور قحط کے گرداب میں پھنس چکی ہے، وہاں صورتحال ابتر سے ابتر ہو چکی ہے ،خوراک اور پیسہ کی شدید قلت کے سبب ڈر ہے کہ ملک پھر خانہ جنگی کی دلدل میں نہ پھنس جائے مغربی ممالک کو فی الحال انسانی بنیادوں پر اس مصیبت زدہ قحط زدہ ملک کی امداد کرنا چاہیے۔