• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی سے بچاو کے لئے 1۔76 بلین ڈالر سالانہ خرچ کئے جاتے ہیں۔ سارا الزام صرف اور صرف ان اشیاء کی پیداوار کو قرار دیا جاتا ہے جو کسی نہ کسی طرح انسانی ضروریات، آسائشات، یا تعیشات کو پورا کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جو روزگار کی فراہمی کا بھی اہم ذریعہ ہوتی ہیں۔ لیکن افسوس arms, ammunition, bombs and all types of explosives کبھی بھی اس فہرست میں شامل نہیں کئے گئے۔ ان کی پیداوار اور استعمال سے ماحولیاتی تبدیلیاں کتنی خوفناک ہوتی ہیں اس کا احساس ہونے کے باوجود ادراک نہیں کیا جاتا۔ نوروے Norway میں فارن آفس کی وزارت کے تحت "Action on Armed Voilence" ادارے نے ایک ریسرچ کی جو 2020 میں شائع ہوئی۔ جس کا عنوان ہے " Environmental Consequences of Explosive Weapon Use" اس تحقیق کے مطابق Explosive Weapon کے استعمال سے ماحول کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک سے نو سال اعدادوشمار اکٹھا کر کے یہ تحقیق شائع کی گئی ہے ۔ جس کے تحت ان نو سالوں میں تخریبی کارروائیوں کی بدولت تقریبا 338,000 casualtiese ہوئیں جن میں سے 74 فیصد شہری یعنی 251،000 بے گناہ افراد یا تو زخمی ہوئے یا مارے گئے۔ صرف ان ہولناک ہتھیاروں کے استعمال کی بدولت۔ یہ صرف ایک دفعہ کے Explosive Weapon کے استعمال کے ہیں اس سے کہیں زیادہ نقصانات اس کے بعد کے ہیں جو نہ صرف انسانی زندگی بلکہ ماحولیات کے لئے بھی ناقابل تلافی ہیں۔

ہر پیداواری عمل سے پہلے Environmental Protection Agency چیک کرتی ہے کہ دوران پیدائش اور اس بعد اس کے استعمال سے انسانی زندگی اور ماحولیات جس میں flora and fauna بھی شامل ہیں کوئی منفی اثرات تو مرتب نہیں ہوتے۔

لیکن کیا وجہ ہے اتنے مہلک ہتھیاروں کو کی بلا روک ٹوک پیداوار اور استعمال جاری ہے۔ بلکہ بڑے پیمانے پہ تجارت اور اسمگلنگ بھی جاری ہے۔ لیکن کوئی انسانی حقوق کی تنظیم، سول سوسائٹی ان امور پر لب کشائی نہیں کرتی۔ Action on Armed Voilence (AOAV کی تحقیق کے مطابق یہ ہتھیار جن زمینوں اور ہریالی پر گرتے ہیں وہاں شجرکاری ممکن نہیں رہتی، مختلف قسم کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ جن کی بدولت بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوتی۔ جس کو forced migration یعنی رضا نہیں مجبوری۔ یہ مجبوری انسانی رویوں، جذبات اور احساسات پر بڑے منفی اثرات مرتب کرتی ہے جس کی تلافی آسان نہیں۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود کوئلہ سے بجلی بنانا "ماحولیاتی آلودگی " کا سبب ہو لہٰذا بغیر بجلی کے رہیں لیکن کوئلہ استعمال نہ کریں لیکن تابکاری والے ہتھیار ملک کو گروی رکھ کر خریدیں کیوں کہ یہ ملکی حفاظت کے لئے بہت ضروری ہیں۔ کیا ملک انسانوں کے بغیر ہوتے ہیں؟ کیا مشکلات میں گھری ہوئی عوام کی کوئی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ اس کو بھی بنیادی ضروریات زندگی اور آسائشات مل سکیں؟ اسی گولیاں اور دوسرے ہتھیاروں کا استعمال انتہائی خطرناک ہے ۔ جن سے فضائی، پانی کی آلودگی ہوتی ہے۔ Florida کی Environmental Protection Agency کے مطابق گولیاں چلائی firing range جانے والی جگہ پہ اتنی ماحولیاتی آلودگی ہوتی ہے کہ وہاں یعنی ان زمینوں پہ کام کرنے افراد جلد زندگی کی بازی کھو دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف عجیب و غریب بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ سب انسانی حقوق کی پامالیوں میں شمار نہیں ہوتا؟ مختلف پھول، پودوں، درختوں، چرند پرند کی کمیابی کے پیچھے بھی انہیں ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال ہے۔ وہ ممالک جہاں کرائم ریٹ صفر ہے وہ بھی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہیں۔ نیوزی لینڈ کی مسجد میں ہونے والا کراہیت سے بھرپور اور دلسوز واقعہ اس کی مثال ہے۔ لوگ شوقیہ ہتھیار خرید کر رکھیں گے تو استعمال کرنے کو دل بھی چاہے گا ۔ امریکہ کے تعلیمی اداروں آئے دن گولیاں چلانے کے واقعات اسی کا پیش خیمہ ہیں۔ آخر انسانی ضروریات سے بڑھ کر تابکاری ہتھیار انسانی ضروریات کب سے بن گئے؟ صرف دنیا پہ حکمرانی اسلحہ کی بنیاد پر ہی کی جاسکتی یا اور بھی بہت سے انسان دوست اور ماحولیاتی دوست بھی ہیں۔ جنھیں سمجھنا اور اپنانا ہوگا۔

آخر کب "بڑوں ملکوں کے مالی وسائل میں اضافہ کا ایندھن جھوٹے اور ٹیکنالوجی کی کمی والے ملک بنتے رہیں گے۔ کسی کو تو آواز اٹھانی ہو گی۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین