• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

PSL7 کے نشریاتی حقوق، بولی کے عمل میں پی سی بی پر بے ضابطگیوں کا الزام

PSL7 کے نشریاتی حقوق،بولی کے عمل میں پی سی بی پر بے ضابطگیوں کا الزام


اسلام آباد (فخر درانی) ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل ) 7 کے نشریاتی حقوق کے اجراء کیلئے منعقد کئے گئے بولی کے عمل میں پاکستان کرکٹ بورڈ پر کئی بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا ہے۔ 

16؍ جنوری کو ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے پی سی بی کے چیف ایگزیکٹو افسر کو ایک خط لکھا، جس کی نقل دی نیوز کے پاس دستیاب ہے۔

 خط میں کم ازکم 6؍ بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ بولی کے عمل میں پی پی آر اے قواعد کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ 

ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے یہ نشاندہی کئے جانے کے باوجود پی سی بی نے سرکاری ٹی وی اور اے آر وائی کے مشترکہ گروپ کو نشریاتی حقوق جاری کر دیئے۔

 ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے خط کے مطابق، بولی دینے والوں کیلئے ضروری تھا کہ وہ تکنیکی سفارشات کے ہمراہ ایک کروڑ روپے کا پے آرڈر منسلک کریں، اے آر وائی نے پے آرڈر جمع نہیں کرایا لیکن اس کے باوجود اس کی سفارشات منظور کر لی گئیں۔ 

بڈ کنڈیشن کے سیکشن 3.3 اور سب سیکشن ایچ کے تحت بولی دینے والوں کیلئے ضروری تھا کہ وہ تکنیکی پروپوزل بڈ سیکورٹی اس انداز سے جمع کرائیں: نشریاتی حقوق کیلئے درخواست دینے والے ہر بولی دہندہ کیلئے ضروری تھا کہ وہ ایک کروڑ روپے کی سیکورٹی جمع کرائے۔ 

پاکستان سے باہر کے بولی دہندگان کیلئے ضروری تھا کہ وہ سیکورٹی کی مد میں امریکی ڈالرز کی صورت میں مساوی رقم جمع کرائیں اور اس کیلئے شرح مبادلہ اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر موجود نرخ کے مطابق ہونا چاہئے اور یہ ادائیگی ڈیڈلائن سے تین دن قبل ہونا چاہئے۔ 

یہ رقم نامزد کردہ اکائونٹ میں جمع ہوگی جس کا ثبوت تکنیکی پروپوزل کے ہمراہ جمع کرانا ہوگا، اس کیلئے بینکر کی جانب سے نامزد کردہ بینک اکائونٹ میں رقم کی منتقلی کی تصدیق بھی پیش کرنا ہوگی۔

 پاکستان میں موجود بولی دہندگان پاکستانی روپے میں سیکورٹی کی رقم پے آرڈر کی صورت میں تکنیکی سفارشات کے ہمراہ جمع کرا سکتے ہیں۔

 ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے خط کے مطابق، کیس ڈاکیومنٹس میں یہ بات شامل ہے کہ ایک کروڑ روپے کی ڈپازٹ سلپ بینک الفلاح سائیٹ برانچ کراچی میں پی سی بی کے اکائونٹ میں جمع کرانا ہیں اور اس کی کلیئرنگ 23 دسمبر 2021 تک دکھانی ہے۔

 یہ طریقہ کار غیر ملکی بولی دہندگان کیلئے منظور کیا گیا تھا۔ تکنیکی بولی میں بینکر کنفرمیشن نہیں تھی (جیسا کہ بڈ کنڈیشن کے سیکشن 3.3 اور ذیلی سیکشن ایچ دوم میں لکھا ہے)، اسے لاہور میں 23 دسمبر کی صبح ساڑھے دس بجے جمع کرایا گیا۔ 

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی سی بی میں بولی جمع کرائے جانے کے وقت دس ملین روپے کی بینکر کنفرمیشن تکنیکی تجاویز میں شامل نہیں تھی۔ ٹی آئی پی کے خط میں لکھا ہے کہ رول نمبر 35 کے مطابق مطلوبہ جائزہ رپورٹ پی پی آر اے کی ویب سائٹ پر موجود نہیں۔

 رول 35 کے مطابق پی سی بی کو جائزہ رپورٹ جاری کرنا تھی۔ ایک تکنیکی ایولیوشن رپورٹ اور ایک فائنل ایولیوشن رپورٹ۔ یہ پی پی آر اے رول نمبر 35 کی خلاف ورزی ہے۔

 اے آر وائی کے کیس میں ایس ایچ سی میں جائزہ رپورٹ جمع کرائی گئی ہے۔ اس جائزہ رپورٹ میں پروکیورنگ ایجنسی کا نام اے آر وائی کمیونیکیشنز (پرائیوٹ) لمیٹڈ اور پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن لمٹیڈ بتایا گیا ہے۔ 

اور پی سی بی نہیں۔ کس نے دستخط کیے یہ معلوم نہیں، کیونکہ صرف پی سی بی کی مہر لگی ہے، اور کچھ دستخط ہیں۔ 

ایسا لگتا ہے ہے کہ یہ جعلی ایولیوشن رپورٹ ہے جسے ایس ایچ سی میں پی سی بی کی طرف سے جمع کرایا گیا ہے۔

 پی سی بی اور اے آر وائی کے درمیان کنسورشیم ایگریمنٹ، جو ایس ایچ سی میں جمع کرایا گیا ہے، وہ ایک کھلی دستاویز ہے، کیونکہ اس میں عمل کی تاریخ درج نہیں۔

 کنسورشیم ایگریمنٹ پر تاریخ درج نہیں لہٰذا یہ قانون کے مطابق نہیں۔ خط کے مطابق، سرکاری ٹی وی اور اے آر وائی کمیونیکیشنز لمیٹڈ کو کنٹریکٹ دینے کے بعد پی سی بی نے 16؍ جنوری 2022ء تک پی پی آر اے ویب سائٹ پر کنٹریکٹ ایگریمنٹ اور ایولیوشن رپورٹ نہیں رکھی۔ یہ پی پی آر اے رول نمبر 47 کی خلاف ورزی ہے۔

 پی سی بی کی بولی کی دستاویز میں انٹی گریٹی پیکٹ اور اے آر وائی کمیونیکیشنز (پرائیوٹ) لمیٹڈ اور پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن لمیٹڈ میں وہ انٹی گریٹی پیکٹ شامل نہیں جو عدالت میں جمع کرایا گیا ہے۔

 یہ پی پی آر اے رول نمبر 7 کی خلاف ورزی ہے۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے اپنے خط میں بتایا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہئے کہ وہ مذکورہ بالا 6 معاملات کا جائزہ لے جو اے آر وائی کمیونیکیشن کی جانب سے ایس ایچ سی میں جمع کرائی گئی ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ مستد ہیں یا نہیں اور ساتھ ہی پی پی آر اے رولز پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔

اہم خبریں سے مزید