مولانا اسمٰعیل ذبیح
جنگ گروپ آف نیوز پیپرز کے بانی، میر صحافت، میر خلیل الرحمٰن بھی اس ہر اول دستے میں شامل تھے جس نے ذرائع ابلاغ کے توسط سے ہندوستان کی آزادی کی فیصلہ کن جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ برطانوی حکم رانوں اور ہندوئوں کے سلوک نے میر خلیل الرحمٰن کو ہمیشہ مضطرب رکھا تھا۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کے محاذ پر مورچہ سنبھالنے کا عزم کیا اور دہلی کے گرم سیاسی ماحول میں ایک پیسے کے اخبار سے اپنی کام یابی کی بنیاد رکھی اور روزنامہ ’’جنگ‘‘ اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے نصف صدی تک لوگوں کی ترجمانی کی۔ ان کے خیال کو حرفوں کی قوت بخشی اور وقت کی نبض تھام کر وہ نسخے تجویز کیے جنہوں نے ملک و ملت کی بقاء و استحکام میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اگر صحافت کو مملکت کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے تو میر صاحب نے اپنی شبانہ روز محنت اور لگن سے اپنے آپ کو پاکستان میں نیوز پیپر میڈیا کا پہلا ستون ثاثت کیا۔
ان کی ترقی کے راز میں ان کا صبر و تحمل بہت نمایاں رہا۔ بلاشبہ میر صاحب صحافت کی دنیا میں ایک ’’لیجنڈ‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں اور لیجنڈ کبھی ’’مرحوم‘‘ نہیں ہوتے ، وہ زندگی بھر بہت ہی مشکل کاموں کی محبت میں گرفتار اور مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ میر صاحب 25جنوری 1992ء کو
خالق حقیقی سے جاملے۔ آج ان کی برسی کے موقع پرتحریک پاکستان کے نامور مجاہد، صحافی مولانا اسمٰعیل ذبیح مرحوم اور شورش ملک کی کچھ یادیں، کچھ باتیں نذر قارئین۔
پاکستان کی ایک صحافتی امپائر ’’ روزنامہ جنگ‘‘ کے اشاعتی گروپ کے مالک میر خلیل الرحمٰن سے 1946-47ء میں میری پہلی ملاقات دہلی میں ہوئی جب میں کانپور سے روزنامہ ’’قومی اخبار‘‘ شائع کرتا تھا اور میر صاحب کا روزنامہ ’’جنگ‘‘ دہلی سے شائع ہوتا تھا۔ اس وقت چونکہ کاغذ اور طباعت کی بے حد ارزانی تھی اس لئے ایک پیسہ قیمت کے روزانہ اخبارات بھی شائع ہوجایا کرتے تھے۔ میر صاحب نے اسی ایک پیسے کے اخبار سے اپنی کامیابی کی بنیاد رکھی۔ 1946-47ء کے یہ دونوں سال دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد برصغیر کے سیاسی انقلابات میں اہم ترین تھے۔
میر صاحب نے جنگ عظیم کے بھرپور دنوں میں ’’جنگ‘‘ کی اشاعت کی۔ اگرچہ وہ دور 1940ء کی ’’قرارداد پاکستان لاہور‘‘ کے بعد کا ہے لیکن 1940ء سے 1947ء تک کے سات برس زوال عہد مغلیہ کے بعد سے اب تک کی تمام صدیوں میں اس لئے بھاری اور اہم تھے کہ دنیا کی سب سے بڑی مسلم حکومت کے حاصل ہونے اور قائم ہونے کا زمانہ انہی سات برسوں پر مشتمل ہے اور مسلمانان ہند متحد ہوکر فولادی چٹان انہی برسوں میں بنے تھے۔
جس میں صدیوں میں پیدا ہونے والا مسلمانان ہند کا سپہ سالار آزادی اور مدبر قائداعظم محمد علی جناحؒ کی شکل میں ان کو نصیب ہوا۔ اور پھر قائداعظم نے اس مسلم لیگ کو جو 1906ء میں ڈھاکہ میں قائم ہوئی تھی 1937ء سے 1947ء کے دس برسوں میں دنیا کی عظیم تر ایسی سیاسی جماعت بنادیا جس نے ایک طرف اس صدی کے سب سے نامور انگریز سیاست دانوں اور دوسری طرف ہزاروں سال کی تاریخ میں برصغیر کی سیاست کی مالک بن جانے کی تنہا دعویدار ہندوئوں کی طاقتور تنظیم کانگریس سے کامیاب مقابلہ کیا۔ اس وقت اس سیاسی دنگل کے دو مرکز تھے ایک حکومت برطانیہ کا دارالحکومت لندن اور دوسرا حکومت ہند کا دارالحکومت دہلی۔
چونکہ حصول پاکستان کی لڑائی جدید اسلحہ جات کے بجائے سیاسی فراست اور برتر قائدانہ صلاحیتوں کے جدید جمہوری اسلحہ سے لڑی جارہی تھی اس لئے دہلی کو جنگ حصول پاکستان میں مرکزی حیثیت حاصل تھی اور یہی دہلی تمام مسلم اکثریتی اور اقلیتی صوبوں کی سرگرم مسلم سیاست کا مرکز تھا اور اسی دہلی میں قائداعظم محمد علی جناحؒ اور قائد ملت لیاقت علی خانؒ برصغیر کے مسلم اکابرین کے ساتھ مشورہ کرکے حکومت برطانیہ کی طرف سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت اور تقسیم اختیار کا کامیاب حل پیش کرنے کیلئے کمشنوں پر کمیشن اور مشنوں پر مشن آرہے تھے اور برطانوی حکومت کے دانائوں کے مقابلے میں ہندو فراست اور سیاست کے سب سے بڑے شاطروں مسٹر گاندھی ،پنڈت جواہر لال نہرو اور ان کی آل انڈیا کانگریس کے لیڈر مسلمانوں کے مطالبہ پاکستان کو ناکام بنانے کیلئے اپنی بازی گری کے کرتب دکھلاتے تھے اور ان سب کے مقابلے میں بساط سیاست پر شہ چال چلنے والا اس صدی کے دانائے اعظم قائداعظم محمد علی جناحؒ حصول پاکستان کی منزل تیزی سے طے کررہےتھے۔
جناب میر خلیل الرحمٰن نے دہلی کے اسی مرکزی سیاسی ماحول میں اپنی صحافت کا آغاز کیا اور اپنے شب و روز کی محنت سے دہلی کے ’’جنگ‘‘ اخبار کو پاکستان کی سب سے بڑی صحافتی ’’امپائر‘‘ بنا ڈالا۔
میں نے دہلی میں یہ دیکھا کہ انگریزی اور اردو میں طاقتور ہندو صحافت مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کو ناکام بنانے میں انتہائی سرگرم ہے۔ کانگریس اور جمعیت علمائے ہند کے زیر اثر کچھ بڑے اردو روزنامے بھی مطالبہ پاکستان کو ناکام بنانے کےلئے اپنی صحافتی توانائیوں کو صرف کررہے ہیں۔ ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ نے ان کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک طرف دہلی سے روزنامہ ’’ڈان‘‘ اور ہفتہ وار ’’منشور‘‘ کا اجراء کیا تو دوسری طرف مسلمانوں کی عوامی صحافت میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ ’’انجام‘‘ ’’الامان‘‘ اور ’’وحدت‘‘ اپنے وسائل کی کمی کے باوجود پاکستان دشمن صحافت کا بھرپور مقابلہ کررہے تھے۔
اس زمانے میں میر خلیل الرحمٰن ایک سیماب صفت نوجوان تھے۔ مسلم لیگ کی پالیسی کو کامیاب بنانے کیلئے ایک سپاہی اور رضاکار کے طور پر اپنے آپ کو وقف کردیا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ روزنامہ ’’جنگ‘‘ کا دفتر فتح پوری مسجد کے پیچھے لال کنواں کے بازار میں ٹرام پٹری کے ساتھ زینت محل کے قریب تھا اور اس کے کچھ فاصلے پر حکیم سعید صاحب کے والد محترم کا نیا نیا ہمدرد دواخانہ تھا۔ میں اس وقت جب اپنے اخباری کام یا مسلم لیگ کے سلسلے میں دہلی جاتا تو میر صاحب سے ملنے ان کے دفتر ضرور جاتا جہاں جناب رئیس امروہوی مرحوم اور ان کے برادر خورد سید محمد تقی صاحب سے میری ملاقات ہوجاتی تھی اور ہم سب مل کر ہندوستان کی سیاست، تحریک پاکستان اور مسلم صحافت پر تبادلہ خیالات کرتے تھے۔
ہماری یہ باہم ملاقاتیں اس وقت اپنی انتہا کو پہنچ گئیں جب مجھ کو ’’آل انڈیا نیوز پیپرز ایڈیٹرز‘‘ کی کمیٹی سے ایک خاص اجلاس میں فرقہ پرست ہونے کی بناء پر خارج کردیا گیا اور میں نے اس اجلاس میں یہ چیلنج کیا کہ تمہارے تعصب نے مسلم صحافیوں کو اپنی متحدہ تنظیم قائم کرنے پر مجبور کردیا ہے اور انشاء اللہ یہ تنظیم بہت جلد قائم ہوجائے گی۔ 1947ء کے آغاز میں اس تنظیم ’’یعنی آل انڈیا مسلم نیوز پیپرز ایڈیٹرز کانفرنس‘‘ قائم کرنے کےلئے پہلا بنیادی مشورہ ،میرے، رئیس امروہوی مرحوم، جناب سید محمد تقی اور میر خلیل الرحمٰن کے درمیان دفتر ’’جنگ‘‘ کے بالا خانے پر ہوا۔
اس کے بعد میں نے مسلم لیگ کے ترجمان ہفتہ وار ’’منشور‘‘ کے فاضل ایڈیٹر محترم حسن ریاض مرحوم اور روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے ایڈیٹر جناب الطاف حسین مرحوم کے دفتر واقع دریا گنج دہلی جاکر اس مجوزہ کانفرنس کی تفصیلات طے کیں اور پھر میں اس کانفرس کے انعقاد کےلئے ’’نوائے وقت‘‘ کے بانی اور ایڈیٹر جناب حمید نظامی مرحوم سے مشورہ کرنے لاہور بھی گیا جب برصغیر کی تاریخ میں مسلم صحافیان ہند کی پہلی متحدہ تنظیم تھی عربک کالج دہلی میں 9مئی سے 11مئی 1947ء تک بے مثال کامیابی سے منعقد ہوئی جس کا افتتاح متحدہ ہند کے وزیر مالیات نوابزادہ لیاقت علی خان نے فرمایا اور جس کے استقبالیہ میں جو امپریل ہوٹل دہلی میں مسلم صحافیان ہند کی طرف سے دیا گیا تھا قائداعظم نے بطور خاص شرکت فرمائی اور اس کانفرنس کے قیام پر بھرپور مبارک باد دی۔
’’آل انڈیا مسلم نیوز پیپرز ایڈیٹرز‘‘ کے تاسیسی اجلاس کی تفصیلی روداد میں یہ تحریر ہے کہ ’’روزنامہ جنگ دہلی‘‘ کی طرف سے میر خلیل الرحمٰن اور سید محمد تقی نے اس میں شرکت فرمائی۔ سید محمد تقی نے روزنامہ ’’جنگ‘‘ کی طرف سے ایک تجویز بھی پیش کی اور یہ دونوں حضرات اس گروپ فوٹو میں شامل ہیں جو اس کانفرنس کے شرکاء کا بنایا گیا تھا۔ اس طرح میر خلیل الرحمٰن کو بجا طور پر یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اس ’’آل انڈیا مسلم نیوز پیپرز ایڈیٹرز کانفرنس‘‘ کے بانیوں میں سے ایک ہیں جو پاکستان بننے کے بعد ’’آل انڈیا مسلم نیوز پیپرز ایڈیٹرز کانفرنس‘‘ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
میر صاحب سے میری طویل تاریخی ملاقات کا یہ سلسلہ صرف دہلی تک محدود نہیں ہے، بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی جاری رہا۔ دہلی کے ایک پیسہ کا روزنامہ ’’جنگ‘‘ آج جس انتہا پر ہے وہ یہ ہے کہ یہ پاکستان کے چار صحافتی امپائر میں سب سے بڑا ہے اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ میر خلیل الرحمٰن صحافت کو کامیابی سے نئے نئے افق تک پہنچانے میں ایک مسلمہ ماہر شخصیت ہیں اور ان کی صحافتی ساکھ نہ صرف پاکستان کے گوشے گوشے میں بلکہ عالم اسلام اور دور دراز مغربی اور امریکن ممالک تک پھیلی ہوئی ہے۔
میر صاحب کی بے مثال صحافتی کامیابی کے کچھ راز ضرور ہوں گے اور جہاں تک میں سمجھا ہوں وہ راز اور اصول یہ ہیں کہ پروردگار نے ان کو وقت پر صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت عطاء کی وہ مشکلات کو حوصلے اور ہمت سے مسلسل برداشت کرتے رہے،اسی لئے وہ خداوند کریم کے اس انعام کے مستحق قرار پائے کہ جو محنت کرتا ہے وہ صلہ پاتا ہے۔
میر خلیل الرحمٰن صاحب کو خدا نے ایسے وسائل سے بھی مالا مال کیا جو بین الاقوامی صحافت کے معیار کے اردو اور انگریزی میں روزانہ اور ہفتہ وار اخبارات شائع کرنے کیلئے لازمی ہیں۔
پاکستان کی یونیورسٹیوں میں صحافت کی تعلیم دینے کےلئے کئی شعبے ہیں لیکن اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ ’’جنگ‘‘ اور اس کے اشاعتی ادارے سے شائع ہونے والے تمام اخبارات نے پاکستان کو کئی نامور صحافی، کالم نگار، مختلف موضوعات پر مقالہ نویس، شاعر ،مزاحیہ نگار اور فن صحافت کے مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے نامور صحافی سب سے زیادہ تعداد میں فراہم کئے۔
میر صاحب کو اردو اور انگریزی میں اخبارات کو کامیاب بنانے کا جو فن آتا وہ انہوں نے کسی شخص یا ادارے سے نہیں سیکھا، یہ ان کی غیر معمولی ذہانت تجربہ اور استقامت ہے کہ وہ اپنے اخبارات کو عوامی مقبولیت کی انتہا تک پہنچاتے۔ عوام کے ذوق مطالعہ کو پرکھتے اور پھر جدید قدیم صحافت پرانی اقدار اور نئی نسل کے تقاضوں کو سمو کر اپنے اخبارات کو تازہ بہ تازہ رکھتے۔
میر صاحب نے خبروں یک تیز تر فراہمی کے ساتھ اس کو پاکستان اور بیرون ممالک سے جدید ذرائع خبر رساں سے حاصل کرکے سادہ اور رنگین تصاویر کا مجموعہ بھی بنادیا ۔ دینی اور قومی موضوعات پر انہوں نے اپنے اخبارات کے ہر سال خاص ایڈیشن شائع کرکے پاکستان کی صحافت میں خصوصی امتیاز حاصل کیا ۔
انہوں نے ملک اور بیرون ملک کی اشتہاری کمپنیوں اور مصنوعات فروخت کنندگان کو جس طرح اپنے اخبارات کیلئے لازمی ضرورت قرار دیا وہ بھی ان کی کاروباری مہارت کا کمال ہے کیونکہ میر صاحب کو صحافت کے ہر شعبے پر کامل دسترس حاصل تھی۔