• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں امن وامان کی صورتِ حال بہت خراب ہو چکی ہے ۔ خاص طور پر ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتوں اور دیگر اسٹریٹ کرائمز میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو ا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس مقابلوں میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کراچی انتشار اور انارکی کا شکار ہے ۔ اچانک ایسی صورتِ حال کیوں پیدا ہوئی؟ اس کے اسباب جاننے اور ان کا تدارک کرنے کی فوری ضرورت ہے۔

تھوڑے تھوڑے وقفے سے ٹی وی اسکرینز پر اسٹریٹ کرائمز اور پولیس مقابلوں کی خبریں آ رہی ہوتی ہیں ۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا ، جب ڈاکووں سے مزاحمت پر شہری زخمی یا جاں بحق نہ ہوتے ہوں ۔ صرف جنوری کے مہینے میں ڈاکوئوں سے مزاحمت کرنے پر 5 افراد جاں بحق ہو گئےجب کہ روزانہ تین سے چار لوگ زخمی بھی ہوتے ہیں جن میں شدید زخمی بھی شامل ہیں ، جو یا تو زندگی بھر کےلئے معذور ہو جاتے ہیں یا بعد ازاں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں ۔

لوٹ مار کی کئی وارداتوں میں لوگ روزانہ کروڑوں روپے کی اشیاء یا نقد رقوم سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ بے شمار ایسی وارداتیں ہوتی ہیں ، جو پولیس اور میڈیا میں رپورٹ بھی نہیں ہوتیں ۔ کاریں ، موٹر سائیکلیں اور موبائل فونز چھیننے کی سب سے زیادہ وارداتیں بھی کراچی میں ہوتی ہیں ۔ ان میں بھی اضافہ ہو چکا ہے ۔

کراچی شہر کی زیادہ تر کچی اور گنجان آبادیوں پر ڈرگ مافیا کا کنٹرول ہے، اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے مبینہ پولیس مقابلوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ شہر میں اوسطاً روزانہ پانچ سے چھ پولیس مقابلے ہو رہے ہیں ، جن میں بعض اوقات بے گناہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں یا زخمی ہوتے ہیں ۔ ان مقابلوں میں راہ گیر بھی زد میں آجاتے ہیں ۔ غرض کراچی میں ہر طرف خوف کی فضاہے ۔

ایک طرف لوگوں کو جرائم پیشہ افراد کا اور دوسری طرف پولیس مقابلوں کا خوف ہے ۔ کراچی کے شہری شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔ امن وا مان کی صورتِ حال قابو میں آنے کی بجائے مزید خراب ہوتی جا رہی ہے اور سماجی انتشار کی طرف بڑھ رہی ہے۔

طویل عرصے تک دہشت گردی کے عذاب میں رہنے والا عروس البلاد کراچی اب اسٹریٹ کرائمز اور منشیات کے عذاب میں مبتلا ہے ۔ یہ شہر پاکستان کا ’’ اکنامک ہیڈ کوارٹر ‘‘ ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ تین کروڑ سے زیادہ لوگوں کا مسکن ہے ۔ پاکستان کی آبادی کا ساتواں حصہ اس شہر میں رہتا ہے۔

کراچی کی بدامنی سے نہ صرف ملکی معیشت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ اس بدامنی سے کچھ قوتیں اپنے بعض سیاسی اور دیگر اہداف بھی حاصل کرتی ہیں ۔ ویسے تو دنیا کے بڑے شہروں میں اسٹریٹ کرائمز ہوتےہی ہیں لیکن اس وقت جس طرح کراچی میں ہو رہے ہیں ، یہ معمول سے بہت زیادہ ہیں ۔ اسے ’’ کرائم ویو ‘‘ یعنی جرائم کی لہر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔

اس کے وہ اسباب نہیں ہیں ، جو بیان کئے جاتے ہیں ۔ ایک سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ، غربت اور بے روزگاری نے یہ صورت حال پیدا کی ہے ۔ لوگ بھوک اور تنگدستی کی وجہ سے وارداتیں کرتے ہیں ۔ یہ سبب اگردرست تصور کر لیا جائے تو پھر پورے ملک میں اسی شرح سے جرائم میں اضافہ ہونا چاہئے ۔ کچھ لوگ اس سبب سے جرائم کی دنیا میں ضرور داخل ہوتے ہوں گے لیکن جرائم کی منظم وارداتوں کا سبب کچھ اور ہے ۔ وہ سبب تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ بات بھی تشویش ناک ہے کہ ان جرائم میں پولس اہلکاروں کے ملوث ہونے کے بھی انکشافات ہوئے ہیں ۔

پولیس رپورٹس کے مطابق اب جرائم میں کئی منظم گروہ ( گینگز ) ملوث ہیں ۔ ان گروہوں کی یقیناً کوئی نہ کوئی پشت پناہی کرتا ہو گا ۔ پولیسنگ کے عام طریقوں سے صورت حال کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ۔

پولیس مقابلوں میں اضافے کے باوجود حالات بہتر نہیں ہو رہے ۔ ان پولیس مقابلوں کا بے گناہ لوگ شکار ہو رہے ہیں ۔ اس کرائم ویو کے سماجی کے ساتھ ساتھ سیاسی اسباب بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ بدامنی کے ذریعے جس طرح کراچی کی سیاست کو کنٹرول کیاجاتا ہے، اس طرح ملک کے کسی حصے میں نہیں ہوتا ۔

کراچی کی سوشل اور پولیٹکل کیمسٹری بالکل الگ ہے اور اسے کسی نے درست انداز میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی مخصوص سوچ کی کسوٹی پر کراچی کے معاملات کو پرکھا ہے جبکہ یہ بات بھی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ ریاستی اور حکومتی اداروں نے بھی کراچی کی صورت حال کو اپنے اپنے مخصوص مفادات کے تحت سنبھالنے کی کوشش کی ہے یا حالات کو اپنے اہداف کے لئے استعمال کیا ہے ۔

کراچی کے معاملات کو معروضی طور پر سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ ہر سیاسی جماعت اور ادارہ مخصوص گروہوں کی سوچ کو بنیاد بنا کر مسائل کا حل پیش کرتا ہے ۔ کسی نے کراچی میں رہنے والے تمام گروہوں کی اجتماعی سوچ اور ان کے اجتماعی مسائل تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی اور یہی کراچی کا اصل مسئلہ ہے۔

جرائم میں اضافے کی حالیہ لہر کے سماجی سے زیادہ سیاسی اسباب ہو سکتے ہیں ۔ ان جرائم سے نمٹنے کےلئے پولیسنگ کے ایک بہتر نظام کی ضرورت ہے ، جو کراچی کے معروضی حالات سے میل کھاتا ہو ۔ دہشت گردی کے دوران ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز کی کراچی کے امن و امان کے معاملات میں مداخلت بڑھی ۔

اس کی وجہ سے پولیسنگ کا نظام نہ صرف کمزور ہوا بلکہ امن و امان کو مکمل طور پر کنٹرول کرنے کا پولیس کا فیصلہ کن کردار بھی متاثر ہوا ۔ اس کے بعد شہر کی پولیس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں ہوئیں ، جس نے پولیس کی شہر کے حالات سے متعلق اپروچ کو بھی تبدیل کر دیا ۔ کراچی میں پولیس کی ازسرِ نو تنظیم کی ضرورت ہے ۔

پولیس میں شہر کے تمام گروہوں کی میرٹ کی بنیاد پر نمائندگی ہو ۔ پولیس کو اختیارات اور فیصلوں کے حوالے سے دہشت گردی سے پہلے والی پوزیشن پر واپس لانا ہو گا ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پولیس کے احتساب اور نگرانی کا بھی سخت نظام لانا ہو گا کیونکہ پولیس کو حاصل بے پناہ اختیارات کا جتنا ناجائز استعمال پولیس میں ہوتا ہے ، کہیں اور نہیں ہوتا ۔

کراچی کو کبھی دہشت گردی اور کبھی جرائم کی لہر سے انتشار کا شکار کرنے اور پھر اس صورتحال کو اپنے مخصوص مفادات کیلئے استعمال کرنے والوں کے عزائم صرف اس صورت میں ناکام بنا ئے جا سکتے ہیں ، جب کراچی کے معروضی حالات سے میل کھاتا ہوا پولیسنگ سسٹم نافذ ہوگا۔

تازہ ترین