• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت سے تجارت ہمیشہ ایک حساس موضوع رہا ہے لیکن اگر جذبات سے نکل کر قومی مفاد کو مدنظر رکھا جائے تو بھارت سے تجارت ملکی معیشت کیلئے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ اگر دنیا میں ہم تجارت کے کامیاب ماڈلز کا جائزہ لیں تو ہمیں علاقائی تجارت یعنی ریجنل ٹریڈ سب سے کامیاب ماڈل نظر آتا ہے۔ نافٹا ،جو امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو کا ریجنل بلاک ہے، میں باہمی تجارت 68فیصد ہے۔ یورپی یونین ،جو یورپ کے 27ممالک کا بلاک ہے، کی باہمی تجارت 53فیصد ہے۔ آسیان ممالک کی باہمی تجارت 26فیصد ہے جبکہ ہمارے جنوبی ایشیائی ممالک کے ریجنل بلاک سارک کی باہمی تجارت صرف 5 فیصد ہے۔ پاکستان اور بھارت کی تقسیم کے بعد 1948-49ء میں بھارت اور پاکستان کی باہمی تجارت 70فیصد تھی جس میں 63 فیصد بھارت سے پاکستان ایکسپورٹ شامل تھی لیکن 1965ء کی جنگ کے بعد پاک بھارت تجارت پر پابندیاں عائد کردی گئیں تاہم 1974ء میں شملہ معاہدے کے بعد یہ پابندیاں ہٹادی گئیں۔ بھارت نے پاکستان کو 1995-96ء میں انتہائی پسندیدہ ملک کا درجہ دیا لیکن نان ٹیرف رکاوٹوں کے باعث باہمی تجارت کو فروغ نہ دیا جاسکا۔ دسمبر 1995ء میں سارک ممالک، جن میں بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں، نے جنوبی ایشیائی ترجیحی تجارتی معاہدے (SAPTA) پر دستخط کئے جسکے تحت سارک ممالک کے مابین سینکڑوں مصنوعات کی ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی اجازت دی گئی لیکن جنوبی ایشیاکے دو بڑے ممبر ممالک پاکستان اور بھارت میں کشیدہ سفارتی اور سیاسی تعلقات کی وجہ سے ایشیائی ریجنل بلاک دیگر ریجنل بلاکس کی طرح باہمی تجارت کو فروغ نہ دے سکا۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وزیراعظم کے مشیر برائے ٹیکسٹائل کی حیثیت سے میں نے اس وقت کے وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کے ساتھ دہلی میں بھارتی وزیر تجارت آنند شرما سے ملاقات کی جس کے نتیجے میں بھارت نے پاکستان کو یورپی یونین کی جانب سے ڈیوٹی فری جی ایس پی پلس درجہ دینے پر WTO میں اپنے اعتراضات واپس لے لئے اور باہمی تجارت بڑھانے کیلئے نان ٹیرف رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے متعلقہ وزارتوں سے ہماری میٹنگز بھی ہوئیں۔ نومبر 2011ء میں پاکستان نے بھارت کو انتہائی پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا جس کیلئے بھارتی وزیر تجارت آنند شرما اسلام آباد اور کراچی آئے لیکن حکومت پاکستان نے اپنا فیصلہ بدل دیا جس پر بھارتی وزیر تجارت نے مجھ سے ناراضی کا اظہار کیا۔ 2018ء میں بھارت اور پاکستان کی باہمی تجارت تقریباً 2.3 ارب ڈالر تھی جو 2019ء میں کم ہوکر 2ارب ڈالر رہ گئی جس میں بھارت سے پاکستان ایکسپورٹ 1.6ارب ڈالر اور پاکستان سے بھارت ایکسپورٹ 0.4 ارب ڈالر شامل ہے لیکن اگست 2019ء میں تجارتی پابندیوں کے بعد 2020-21ء میں دونوں ممالک کی باہمی تجارت صرف 243 ملین ڈالر رہ گئی جس میں بھارت سے دبئی کے راستے تجارت کے غیر سرکاری اعداد و شمار شامل نہیں۔ بھارت سے امپورٹ کی جانے والی اشیاء میں کاٹن، ڈائز، کیمیکلز، پلاسٹک، آئرن اینڈ اسٹیل، فارماسیوٹیکل خام مال، جپسم، آئل سیڈز، ٹماٹر، پیاز اور مشینری شامل ہیں جبکہ بھارت، پاکستان سے چونے کا پتھر، نمک، گندھک، فیبرک (لان)، سیمنٹ، کھجوریں، چھوارے اور خشک میوہ جات امپورٹ کرتا ہے۔5اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے پر پاکستان نے بھارت سے واہگہ بارڈر سمیت تمام تجارت معطل کردی جس سے بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں 4گنا زیادہ نقصان ہوا۔ بھارت سے امپورٹ کی گئی کاٹن واہگہ بارڈر کے ذریعے انتہائی کم وقت میں پاکستان پہنچ جاتی ہے جبکہ امریکہ، برازیل، وسط ایشیاء اور دیگر ممالک سے کاٹن امپورٹ کرنے میں طویل وقت اور اخراجات آتے ہیں۔ گزشتہ سال پاکستان میں کاٹن کی پیداوار 13ملین بیلز سے کم ہوکر 8ملین بیلز رہ گئی جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل ملوں کو 3ملین بیلز سے زیادہ کاٹن امپورٹ کرنا پڑی جس سے ہماری پیداواری لاگت میں اضافہ اور مسابقتی سکت میں کمی آئی۔ بھارت سے تجارت معطل ہونے کی وجہ سے ہم اپنے پڑوسی ممالک سے تقریباً 550ملین ڈالر کی سستی کاٹن نہیں منگواسکے۔ یہی صورتحال فارماسیوٹیکل خام مال اور کیمیکلز کا ہے جو ہم 400ملین ڈالرز کی بھار ت سے امپورٹ کرتے تھے ، بھارت سے تجارت معطل ہونے کی وجہ سے اب ہمیں پاکستان کی فارماسیوٹیکل انڈسٹری کیلئے یہ خام مال چین سے امپورٹ کرنا پڑرہاہے۔ مہنگے فارماسیوٹیکل خام مال کی امپورٹ سے دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے جس کا اندازہ پاکستان میں ادویات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے لگایا جاسکتا ہے۔ ادویات کی مقامی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کیلئے پاکستان نے مئی 2020ء میں بھارت سے ادویات کے خام مال کی امپورٹ پر پابندی اٹھادی اور اپریل 2021ء میں بھارت سے کاٹن اور چینی کی امپورٹ پر بھی پابندیاں اٹھالی گئیں جو میرے نزدیک قومی مفاد میں درست فیصلے ہیں اور بزنس کمیونٹی ان کی تائید کرتی ہے۔ بزنس مینوں اور سرمایہ کاروں کے معاشی اور کمرشل مفادات جب یکجا ہوتے ہیں تو وہ مسائل کے حل کیلئے اپنی حکومتوں پر دبائو ڈال سکتے ہیں جیسا کہ چین میں امریکی سرمایہ کاروں نے چین پر امریکی پابندیوں کے خلاف کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ٹیبل پر بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے جو مسائل حل ہوسکتے ہیں، وہ 20سا لہ جنگ سے بھی حاصل نہیں ہوسکتےجسکی مثال افغانستان ہے۔ آنیوالے وقت میں درپیش چیلنجز کو دیکھتے ہوئے میری وزیراعظم عمران خان ،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور تمام اپوزیشن جماعتوں کے لیڈرز سے درخواست ہے کہ وہ قومی مفاد میں پاک بھارت تجارت پر عائد پابندیاں ختم کرائیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں دیگر ریجنل بلاکس کی طرح اپنے علاقائی پوٹینشل سے فائدہ اٹھاکر غربت اور بیروزگاری میں کمی لاسکیں۔

تازہ ترین