سندھ میں برطانوی سامراج کو اس کے نصف النہار میں چیلنج کرنے والے پیر صبغت اللہ شاہ ثانی کو ان کے حر عقیدت مندوں نے سورہیہ بادشاہ کا خطاب دیا جو ان پر سجتا اور پھبتاہے کہ وہ زندہ رہے تو کلکتہ سے راس کماری تک قابض برٹش ایمپائر ان سے خوف زدہ اور لرزاں تھی اور جب پھانسی دے دی تو ڈر رہے تھے کہ مردہ پیر، زندہ سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گا۔ اس لئے 20مارچ 1943کو حیدر آ باد کی سینٹرل جیل میں پھانسی دینے کے بعد کسی نامعلوم مقام پر سپرد خاک کر دیا کہ ان کی آخری آرام گاہ کی حریت پسند مریدوں کو پتہ چل گیا تو آزادی کا شعلہ ہمیشہ بھڑکتا ہی رہے گا۔
دنیا کی معلومہ تاریخ میں چنگیز خان ،سکندر اعظم ،قلو پطرہ ،جنرل بخت خان،بیگم حضرت محل اور سبھاش چندر بوس سمیت درجنوں نام ملتے ہیں۔ جن کے مقابر کا پتہ نہیں لیکن پیر صاحب کے مدفن کو تو مزید پراسرار اس لئے بھی رکھا گیا کہ ان کی تربت کہیں مرجع خلائق نہ بن جائے۔ سندھ کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لیفٹنٹ جنرل مول سورتھ نے تسلیم کیا ہے کہ پیر صاحب کی خواہش تھی کہ وہ پیر گوٹھ میں اپنے اجداد کے ساتھ مدفون ہوں لیکن سندھ کے گورنر اور وائسرائے ہند کی خفیہ خط و کتابت میں خلیج فارس میں واقع ریاست قلات کے جزیرے اسٹولا، مدھیہ پردیش کے ایک گمنام مقام، جیوانی اور عدن میں جو اس وقت برطانوی قلمرو کا حصہ تھا سپردخاک کرنے کی تجاویز دی گئی تھیں۔
مقصد صرف ایک تھا کہ حرمریدوں کو اس مقام کا پتہ نہ ہوا اور ایک طویل عرصے تک قبر کو خفیہ رکھا جائے۔ ڈاکٹر ٹی ایچ سورلے نے تحریر کیا ہے کہ پیر صاحب کو پھانسی دینے سے گیارہ ماہ قبل کراچی کے کمانڈر نے 17اپریل 42 ء کو اعلان کیا تھا کہ جزیدہ چرن ہوائی فوج کی بمباری کی حدود میں ہے اسی طرح بمبئی کرانیکل نے 18اپریل 1942 ء کو تحریر کیا کہ سرکاری طور پر متنبہ کیا گیا ہے کہ جو بھی بحری جہاز ، کشتی یا لانچ اس جزیرہ کے ایک میل قریب سے گزرے گی اسے نقصان پہنچ سکتا ہے اور حکومت اس کی ذمہ دارنہ ہو گی۔
لیفٹننٹ جنرل مول سورتھ نے تحریر کیا ہے کہ پھانسی کے بعد پیر صاحب کی نعش رات کے سناٹے میں خفیہ طریقے سے رائل انڈین نیوی کے جنگی جہاز میں دریائے سندھ کے اختتامی علاقے ڈیلٹا کی سمت بھیجی گئی۔ وہاں سے میت کو مکران کے ساحل سے دور اسٹولا نامی جزیرے پر ایک گہری قبر کھود کر اسلامی طریقے سے دفن کیا گیا اور بعد میں ہر نشان مٹا دیا گیا جس سے ظاہر ہو کہ یہ کوئی قبر ہے۔ مول سورتھ نے اپنی یادداشت میں یہ بھی لکھا کہ اس جزیدے پر پانی کا نام و نشان نہ تھا لیکن حشرات الارض، بالخصوص سانپ زیادہ تھے۔
ایک اطلاع حیدر آباد جیل میں کھو دی گئی قبر کی بھی تھی ،افواہ پھیلائی گئی تھی کہ قبر میں چونے کی دو بڑی تہوں کے درمیان میت کو رکھ کر دفن کیا گیا ہے اور قبر کی نشانی معدوم کر دی گئی ہے۔ 19مارچ 43 ء کے ایک ٹیلی گرام میں جو وائس رائے لارڈ لنلتھگو نے سیکریٹری اسٹیٹ فارانڈیا (لندن) کو بھیجا تھا اور برٹش لائبریری کے انڈیا پیپرز میں موجود ہے، بتایا گیا ہے کہ پیر صاحب کی رحم کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے انہیں پھانسی کے بعد اسٹولا میں دفنایا جائے۔ اس کی خبر صرف ہمیں ہو گی اور جب ضرورت پڑی ہم اس قبر کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ سابق آئی جی سندھ مرحوم آفتاب نبی کی تصنیف" سورہیہ بادشاہ اور کورٹ مارشل "میں بہت سے حقائق اور معلومات اس موضوع پر مرقوم ہیں۔
اسٹولا، عدن، حیدر آباد جیل یا کوئی اور مقام؟ سوال یہ ہے کہ پھانسی کے 78برس بعد بھی ہم اس حریت پسند کی آخری آرام گاہ سے کیوں لاعلم ہیں۔ مرحوم پیر سکندر علی شاہ، المعروف شاہ مردان شاہ ثانی، بادشاہ گر تھے۔ وہ علی الاعلان وابستگی کا اظہار کرتے تھے۔
انہوں نے بھی خاموشی برتی، لیکن اس موضوع پر ہمارے محقق دوست نثار شیخ کہتے ہیں کہ پیر صاحب مرحوم کو اپنے شہید والد کی آخری آرام گاہ کا پتہ تھا۔ سانگھڑ کے شہید صبغت اللہ شاہ ثانی کالج کے پرنسپل معروف محقق پروفیسر نواز کنبھر تو احباب کے ساتھ جزیرہ اسٹولا کا دورہ بھی کر آئے اور ان کی رائے میں مقامی لوگوں سے ایسی کسی تدفین کی تصدیق نہیں ہوئی۔
حیدر آباد جیل میں تدفین یانعش عدن لے جائے جانے کی تصدیق نہیں ہوتی۔سندھ کے اس وقت کے گورنر سرڈو نے یہ بھی تجویز کیا تھا کہ تدفین سندھ سے باہر کسی ایسے مقام پر ہو جہاں پیر صاحب کے مریدین قیام نہ کرتے ہوں۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ وائس رائے ہند لارڈ لنلتھگو کے ایک خط میں جو گورنر سندھ سرڈوکو لکھاگیا تھا ،سورہیہ بادشاہ کوکراچی میں دفن نہ کرنے کا بھی ذکرہے۔
کراچی میں کئی برس سے شہید سورہیہ بادشاہ کی یاد تازہ کرنے والے پروفیسر غلام عباس قادری بھی متعجب ہیں کہ جب تدفین کے لئے عدن، مدھیہ پردیش، جیوانی ، اسٹولا یا ساحل سمندر اور حیدر آباد جیل زیر غور تھی توکراچی سے توجہ کیوں ہٹائی گئی ؟۔سینئر صحافی شمس کیریو کہتے ہیں کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا تاکہ کسی ایک سمت ذہن نہ جا سکے۔ کراچی کے سینئیرصحافی سائیں بچل لغاری بھی اسی موقف کے حامل ہیں کہ کنفیوژن پھیلا کر پیر صاحب شہید کی آخری آرام گاہ کو پراسرار رکھا گیا۔
چی گویرا کی باقیادت ان کی 9۔اکتوبر 67ء کو سفاکانہ سزائے موت کے 30برس بعد ویلے گراندے ایئر پورٹ سے دریافت ہوئیں تو انہیں کیوبالا یا گیا اور سانتا کلارا میں جہاں چی گویرانے 1959میں انقلاب کی آخری لڑائی لڑی تھی سپرد خاک کیا گیا۔ کئی عشرے قبل سندھ کے کسی کالم نگار نے مضمون میںلکھا تھا:"ہمارے چی گویرا کی آخری آرام گاہ کا پتاچلائوـ" تو تھوڑی بہت ہل جل ہوئی پھر خموشی چھا گئی۔ چند عشروںقبل تک تو خودحر جماعت اپنے شہید پیر کا دن نہیں منایا کرتی تھی۔
اب یہ مطالبہ شدت پکڑتا جا رہا ہے تو کڈنی ہل کا نام بھی سامنے آیا ہے جہاں موجود پیر بسم اللہ شاہ کے مزار کو کہا جاتا ہے کہ یہ سورہیہ بادشاہ کی آخری آرام گاہ ہے۔ 1943ء میں یہ کنٹونمنٹ ایریا تھا کراچی سے الگ تھلگ۔تقویت اس خیال کو اس سے ملتی ہے کہ یہاں بجلی کا کنکشن مرحوم پیر سکندر شاہ المعروف شاہ مردان شاہ ثانی کے چھوٹے بھائی پیر نادر شاہ مرحوم کے نام پر ہے۔ وہ وہاں باقاعدگی سے جایا کرتے تھے۔ اب بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ مزار پر جاری تعمیرات کے کام کی نگرانی پیر فیملی کی جانب سے ہوتی ہے اور مزار پر متعین کچھ خادمین بھی حر جماعت سے متعلق ہیں۔
مزار کے داہنی سمت پہاڑسے نیچے جھانکیں تو محمد علی ہائوسنگ سوسائٹی کا وہ حصہ نظر آتا ہے جہاں کنگری ہائوس واقع ہے۔ ممکن ہے کہ شہید سورہیہ بادشاہ کا مدفن یہ بھی نہ ہو۔لیکن کیا یہ ضروری نہیں کہ ہم پاکستان کا نام تجویز کرنے والے چوہدری علی کی میت برطانیہ کے قبرستان سے لا کر مینار پاکستان پر سپرد خاک کریں اور سورہیہ بادشاہ کی آخری آرام گاہ تلاش کر کے 20مارچ کو قومی دن قرار دیں اوران کا تذکرہ شامل نصاب کریں تاکہ نئی نسل کو پتہ چل سکے کہ یہ آزاد مملکت ہمیں طشتری میں رکھ کر کسی نے پیش نہیں کی تھی لاکھوں سروں کی فصل اتری تو آزادی کا وہ سورج طلوع ہوا تھا جس کی کرنیں آج بھی مشام جاں میں عطر گھولتی ہیں۔