• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے امورِ احتساب و داخلہ، مرزا شہزاد اکبر کی جانب سے گزشتہ روز اپنے عہدےسے مستعفی ہونے کا اعلان سامنے آنے کے بعد سے ملک کے مختلف حلقے طرح طرح کے سوالات اٹھا رہے ہیں، بحث مباحثے کررہے ہیں اور مستقبل کے بارے میں کوئی رائے قایم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگرچہ شہزاد اکبر نے اعلان کیاہے کہ وہ جماعت سے منسلک رہیں گے،لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ اور روایات پر نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ عام طورسے ایسے حالات سے گزرنے کے بعد راہیں جدا کرلی جاتی ہیں ۔تاہم بعض معاملات میں ایسا نہیں ہوتا اور لوگ اپنی جماعت کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں، لیکن ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔

استعفے کی خبر آنے کے چند ہی گھنٹوں بعد ایسی خبریں آنے لگیں کہ وزیر اعظم ان سے ناراض تھے اور انہوں نے استعفی دیا نہیں بلکہ ان سے لیا گیاہے۔پیشے کے لحاظ سے قانون داں، شہزاد اکبر اگست2020سے وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں مشیر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ اس سے قبل وہ معاون خصوصی کے عہدے پر فائز تھے۔ وہ یونیورسٹی آف لندن کے گریجویٹ ہیں اور انہوں نے موجودہ حکومت کی جانب سے بنائے گئے ایسیٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ کے طور پربھی کام کیا۔ 

حکومت کا حصہ بننے سے قبل بیرسٹر شہزاد اکبر، قومی احتساب بیورو (نیب) کے ڈپٹی پراسیکیوٹر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے تھے۔تقریبادوبرس سے وہ حکومت کے احتساب کے بیانیے کا جارحانہ انداز میں دفاع کرنے والے اور سرکاری ٹیم کے اوپنر کے طور پر سامنے آئے تھے۔ بعض حلقے الزام لگاتے ہیں کہ شریف برادران کے خلاف مقدمات بنانے، انہیں چلانے اور آئے روز ان کا میڈیا ٹرائل کرنے کی پوری پالیسی ان ہی کی ترتیب دی ہوئی تھی۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ جب سے انہیں یہ محسوس ہونا شروع ہواکہ شریف برادران کے لیے کہیں کوئی گنجایش نکالی جارہی ہے اور کسی قسم کی ’’ڈیل‘‘ پر کام ہورہا ہے تو انہیں دھچکا لگا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس ضمن میں سہولت کار نہیں بنیں گے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں احتساب کا لفظ سننے کے فورا بعد جو الفاظ ذہن میں آتے ہیں وہ انتقام اور انتخاب ، ہوتے ہیں، کیوں یہاں اکثر ادوار میں احتساب کے نام پر انتقام ہی لیا گیا اور بعض حلقے احتساب کے موجودہ عمل کو بھی اسی ذمرے میں شمار کرتے ہیں۔ یہاں احتساب اور انتخاب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کبھی ’’انتخابات سے پہلے احتساب‘‘ کا نعرہ لگایا جاتا ہے اور کبھی انتخابات سے قبل یا بعد میں لوگوں کو توڑنے اورجوڑنے کے لیےاحتساب کی فائلز کھولی اور بند کی جاتی ہیں۔

یہاں مختلف حکومتوں کے ادوار میں احتساب کا سرکاری بیانیہ قوم کے سامنے شدومد سے پیش کرنے والی مختلف شخصیات سامنے آتی اور جاتی رہیں۔ شہزاد اکبر رخصت ہوئے تو بعض افراد کے کان کھڑے ہوئے کہ کہیں اس معاملے کاتعلق ’’لندن والی ملاقاتوں‘‘سے تو نہیں ہے ۔ ان کی رخصتی سے ملک میں احتساب کے عمل کے بارے میں ایک بار پھربہت سے سوالات پیدا ہوگئے ہیں اور پوچھا جارہا ہے کہ کیا کوئی نیا بیانیہ آرہا ہے؟

نعرے کچھ ،حقایق کچھ

احتساب اور بدعنوانیوں کےخلاف تحقیقات پاکستان میں کسی بھی حکومت کے بڑے نعرے ہوتے ہیں۔ جب بھی حکومتی سطح پر بدعنوانی کے خلاف مہم کا آغاز کیا جاتا ہے تو متعدد سرکاری ادارے تحقیقات کے لیے سیکڑوں کیس کھول دیتے ہیں۔ اس ماحول میں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا احتساب یا کرپشن کے الزامات کے تحت تحقیقات کا اختیار تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ہے یا یہ کام صرف مخصوص ادارے ہی کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ آج بھی اس کام کے لیے ایف آئی اے ،آئی بی،کسٹمز،اے این ایف، وغیرہ تک کو جھونک دیا جاتا ہے۔ اس کےباوجود ہمارا یہ حال ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں بدعنوانی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے اور ملک140ویں نمبرپرآ گیا ہے ۔

حال ہی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے180ممالک کا کرپشن پرسیپشن انڈیکس جاری کیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں بدعنوانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اس انڈیکس کے مطابق پاکستان کرپشن رینکنگ میں 16 درجے اوپر چلا گیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن میں اس اضافے کے بعد پاکستان دنیا میں 140 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ یاد رہے کہ 2020 میں اس کا نمبر 124 واں تھا۔

ادارے کے مطابق کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان کے اسکور میں تین پوائنٹس کی کمی ہوئی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ 2020 میں کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان کا اسکور31تھا، جو اب 28ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ کرپشن پرسیپشن انڈیکس کا اسکور کم ہونا کرپشن میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔

ایبڈو، پوڈو ،پروڈا

بعض حلقوں کا موقف ہے کہ پاکستان میں احتساب کے نام پر انتقام لینے کی روایت بہت پرانی ہے۔ ان کے بہ قول آج کے نیب اور احتساب آرڈی نینس کے تانے بانے ایبڈو، پوڈو، پروڈا، احتساب کمیشن اور ڈیفنس آف پاکستان رولز سےملتے جلتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو یقین ہے کہ یہ قوانین اور ادارہ ماضی کی طرح سیاست دانوں ، سیاسی کارکنوں اور ان کے حمایتیوں کو ڈرانے دھمکانے اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کےلیےہی استعمال ہوگا۔

دراصل پاکستان میں سیاست دانوں اور سیاسی حریفوں کو انتقام کا نشانہ بنانے، فلور کراسنگ، جوڑ توڑ اور سیاسی وفاداریاں خریدنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1949ء میں عوامی نمائندوں کی نااہلی کا قانون ’’پروڈا‘‘منظر عام پر آیاتھا۔ اس قانون کے تحت مرکزی یا صوبائی اسمبلیوں کے اراکین یا وزار وغیرہ کے خلاف اختیارات سے تجاوز کرنے، اقربا پروری، ناجائز اثاثہ جات رکھنے، بدعنوانی اور رشوت ستانی جیسے مقدمات قائم کیے گئے۔ اس قانون کا نفاذ 14 اگست 1949 کے دن سے قرار دیا گیا۔ مذکورہ بالا الزامات کے تحت ایوب کھوڑو، پیر الٰہی بخش، حمید اسحق چوہدری اور افتخار ممدوٹ وغیرہ کو سزائیں سنائی گئیں۔ مذکورہ قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا ملزم کی 10 سال کے لیے کسی بھی عہدے کے لیے نااہلی مقرر کی گئی تھی۔

اس قانون کے نفاذ کے بعد حکومت کے سیاسی مخالفین شدید پریشانی میں مبتلا ہو گئے تھے۔دوسری جانب حکومت اس کے ذریعے چند ایک سیاست دانوں کے سوا تمام کی وفاداریاں حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئی تھی۔ پروڈا کے بعد صدر ایوب کے دور میں پوڈو اور ایبڈو کے قوانین بنائے گئے، جن کے تحت سیاست دانوں کے ساتھ بیورو کریٹس اور دیگر سرکاری افسروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ یہ قانون 1942ءکے بعد سے سرکاری عہدوں پر رہنے والے افراد کے لیے موثر قرار دیا گیا تھا۔

اس قانون کے تحت حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کو سختی سے ساتھ کچل ڈالا، بہت سے افسران قابو میں آئے اور سیاست دانوں کی وفاداریاں خریدی گئیں۔ اس کے تحت عوامی نمائندوں کوچھ سال کے لیے نااہل قرار دیا جا سکتا تھا۔پھر1965کی جنگ کے ساتھ ملک میں ڈیفنس آف پاکستان رولز نافذ کردیا گیاتھا جس کے تحت عوام کے بنیادی حقوق معطل کرکے یہ کہا گیا تھا کہ دشمن سے گٹھ جوڑکرکے ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

مذکورہ رولز ایوب دور کے بعد بھی نافذ العمل رہےاور سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے بعد جنرل ضیا الحق نے بھی ان رولز کو نافذ رکھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں اگر چہ پروڈا یا پوڈو ، ایبڈو نافذ العمل نہ تھے، تاہم جنرل ضیاءالحق نے پیپلزپارٹی اور اپنے دیگر سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے متذکرہ بالا رولز اور دیگر قوانین ساتھ فوجی عدالتوں کا سہارا لیااور فوجی عدالتوں نے چُن چُن کر حکومت کے مخالف سیاست دانوں کو سزائیں دیں، جس سے بہت سے سیاست دانوں نے اپنی وفاداریاں بدل دیں۔

میاں نواز شریف نے فوجی عدالتوں کواپنے دوسرے دور حکومت میں بھی جاری رکھا اور ’’احتساب‘‘کے نام پر مخالف سیاست دانوں کا خوب تیل نکالا۔بارہ اکتوبر 1999ءکو جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت ختم کرکے نیب آرڈی نینس کے تحت سیاسی حریفوں، سیاست دانوں، بیوروکریٹس، وزرا، امراءکے خلاف بدعنوانی، اقرباپروری، ناجائز اثاثوں، آمدن سے زیادہ اخراجات، اختیارات سے تجاوز کرنے اور رشوت لینے کے الزامات کے تحت ریفرنس بنائے ۔ متعدد سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور نچلے درجے کے سرکاری ملازمین کو سزائیں سنائی گئیں، جس سے حکومت کے سیاسی مخالفین پریشان ہو گئے اور بہت سے نام ور سیاست داں اپنی وفاداریاں بدل کر حکومت کے ساتھ شامل ہو گئے۔

پاکستان میں مختلف ادوار میں متذکرہ بالا اور دیگر قوانین کے تحت حراست میں لیے جانے یا سزا پانے والے سیاست دانوں میں تین ستمبر 1977کوسابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی اورچار اپریل 1979 کو علی الصباح ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تھی۔اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ نصرت بھٹو ، سابق صدر مملکت آصف علی زرداری، سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو، سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف، سابق گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عارف نکئی، سابق وزیر اعلیٰ مہتاب احمد خان، سابق وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ، سابق گورنر سردار ذولفقار کھوسہ، پرویز رشید، ایم کیو ایم کےسابق مرکزی راہ نما فاروق ستار، سابق وفاقی وزیر انور سیف اللہ، غلام احمد مانیکا، اعظم ہوتی، سابق وفاقی وزیر حفیظ اللہ چیمہ ، سابق ایم پی اے ملک اعظم ، سابق صوبائی وزیر محمد سرمد خان کاکڑ، سابق صوبائی وزیر مہر محمد علی رند، تحریک انصاف کے سابق مرکزی راہ نما جاوید ہاشمی، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی،سابق وزیر اعظم ملک معراج خالد، سابق وزیر مملکت معراج محمد خان، خان عبدالولی خان،خان عبدالقیوم خان،سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی، مولانا عبدالستار نیازی اور سابق وزرائے اعلیٰ سندھ، پیر الٰہی بخش اور ایوب کھوڑو و دیگر سیاست دانوں کے خلاف بھی مختلف اوقات میں مختلف قوانین استعمال کرکے مقدمات قایم کیے گئے اور ان کی گرفتاریاں بھی ہوئیں،لیکن چوں کہ ان مقدمات میں کوئی جان نہیں تھی اور وہ ڈرانے،دھمکانےاور وفاداریاں تبدیل کرانے کے لیے قایم کیے گئے تھے لہذاکچھ عرصے بعد عدالتوں نےانہیں اٹھاکر باہر پھینک دیا۔

جانب داری کا تاثر،مگر کیوں؟

بعض سياسی حلقے شہاز شریف کی اس بات سے اتفاق کرتے نظر آ تے ہیں کہ ملک میں حتساب کا عمل جانب دارانہ اور یک طرفہ ہے۔ ایوانِ زیریں میں قائدِ حزبِ اختلاف پاکستان تحريک انصاف کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے وزير اعظم عمران خان کی پارٹی پر الزام لگاتے ہیں کہ اس کا اور قومی احتساب بيورو کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شہباز شريف یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ وہ نیب اور پی ٹی آئی کے ’’ناپاک اتحاد‘‘ کو سب کے سامنے لانے کے ليے اسمبلی میں آتے ہیں۔وہ نیب کو’’نیشنل بلیک میلنگ بیورو‘‘کا نام دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ نیب نے ان سے کہاتھا کہ وہ خواجہ آصف کے خلاف بیان ديں جس پر انہوں نے نیب سے کہا کہ وہ اس مقدمے پر سوال کریں، جس کی نيب تفتیش کر رہا ہے۔ 

شہباز شريف ماضی میں یہ سوال بھی کرچکے ہیں کہ شیخ رشید کو کیسے پتا چل گیا تھا کہ وہ (شہباز شریف) جیل کی ہوا کھائیں گے۔ شہباز شریف کی مسلسل تقاریر اس تاثر کو تقویت دیتی ہیں کہ نیب کو حکومت مخالف حلقوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اورنیب غیر جانب دارنہ انداز میں کارروائی نہیں کر رہا۔ بعض سیاست دانوں کا موقف ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نیب کی کارروائیاں یک طرفہ ہیں۔ 

نیب کے حوالے سے شکوک و شبہات اس ليے بھی ہیں کہ عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ فلاں فلاں کو گرفتار کرائيں گے۔ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے۔ وزير اعظم کے بیان سے یہ تاثر پیداہوا کہ نیب کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ گرفتاریوں سے پہلے بھر پور تحقیق ہونی چاہیے۔اس طرح کی گرفتاری سے صرف سیاسی جماعتوں کو نقصان نہیں ہو رہا ہے بلکہ ملک میں افرا تفری کا ماحول پیدا ہو رہا ہے، جس کا اثر ملک کی معیشت اور اسٹاک ایکس چینجز پر بھی ہوتا ہے۔

حکومت کی احتساب کی پالیسی کے بعض ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے راہ نماوں کے خلف بھی مقدمات ہیں ،مثلا سابق وزیرِ اعلیٰ کے پی پرویز خٹک، پنجاب کے وزیر علیم خان اور عمران خان کے قریبی دوست زلفی بخاری، لیکن ان میں سے کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا سوائے علیم خان کے اور پھر انہیں بھی چھوڑ دیا گیا جب کہ ن لیگ کے راہ نماؤں کو صرف الزامات کی بنیاد پر ہی گرفتار کر لیاجاتا ہے۔ دوسری جانب بعض سیاست دانوں کے خیال میں نون لیگ احتساب سے بچنے کے ليے شور مچاتی رہتی ہے۔ ان کے خیال میں اگر آج نیب کی کارکردگی بہت اچھی نہیں ہے تو اس کی بھی ذمہ دار نون لیگ خود ہی ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہاں احتساب کا عمل ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ عمومی طور پر حکم رانی کے نظام میں موجود لوگوں نے احتساب کانظام شفاف بنانے کے بجائے اسے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں احتساب کا نظام اپنی شفافیت اور ساکھ قائم کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوا۔ لگتا ہے کہ ان طاقت ور حکم رانوں کا مسئلہ احتساب نہیں بلکہ اس کو بنیاد بنا کر اپنی حکم رانی کا نظام مضبوط بنانا مقصود تھا۔ 

اس وقت بھی ملک میں احتساب کی جنگ جاری ہے۔ نیب کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے ایجنڈے میں ایک بنیادی اور بڑا نکتہ احتساب کا عمل تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کے بہ قول وہ احتساب کے عمل پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے، لیکن عمران خان کی حکومت بھی اس عمل میں کافی کم زور نظر آتی ہے اور وہ اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود احتساب کے عمل میں وہ نتائج نہیں دے سکی جس کا وہ عملی طور پر دعوی کیا کرتی ہے۔

جاری احتسابی عمل کے ضمن میں اس وقت پانچ بڑے الزامات سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہیں ۔ اوّل، احتساب کو حکومت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بہ طور سیاسی انجینئرنگ استعمال کر رہی ہے۔ دوم، یہ ایک باہمی گٹھ جوڑہے۔ سوم، حکومت میں موجود لوگوں کو نہیں پکڑا جارہا اور سارا زور حکومتی مخالفین پر ہی ہے۔چہارم، تفتیش کے نظام پر بھی کڑی تنقید کی جارہی ہے کہ کئی کئی ماہ تک تک لوگوں کو زیر حراست رکھنا اور عدالتوں میں مقدمہ یا جرائم کے شواہد پیش نہ کرنا اور عدالتوں سے ان کی ضمانتوں کا ہونا تفتیش کی کم زوری کو ظاہر کرتاہے۔ پنجم، ہماری عدالتیں بھی نیب کی کارروائیوں پر کڑی تنقید کر چکی ہیں ۔

شایداسی وجہ سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، پاکستان نے پی ٹی آئی حکومت کی تین سال میں احتساب کی مہم گزشتہ برس دسمبر کے مہینے میں جانب دارانہ قرار دے دی تھی ۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل دو ہزار اکیس کے سروے میں محکمہ پولیس کو سب سے زیادہ کرپٹ قرار دیا گیاتھا۔ رپورٹ کے مطابق کانٹریکٹ، ٹینڈرنگ اور صحت کے شعبوں میں بھی کرپشن زیادہ رہی۔ سروے میں شہریوں نے احتسابی مہم کوغیر تسلی بخش قرار دیا تھا۔ 

کہا گیا کہ کم زور احتسابی نظام، طاقت ور افراد اور کم آمدن کرپشن کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ مقامی حکومتوں کا نظام نہ ہونے کو بھی کرپشن کی وجہ قرار دیا گیا تھا۔ شہریوں نے کہا کہ سخت ترین سزائیں اور سزا یافتہ بدعنوان افرادکے عوامی عہدے پر آنے پر مکمل پابندی کی ضرورت ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ تین برسوں میں منہگائی اور بے روزگاری میں اضافہ اور آمدن کم ہوئی۔ بانوے فی صد پاکستانیوں کی رائے تھی کہ تین برس میں اشیا کی قیمتیں سب سے زیادہ بڑھیں۔

قانون کی حکم رانی اور ترقّی میں تعلّق

دنیا بھر کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ جن ممالک میں قانون کی حکم رانی ہے وہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہیں اورجن ممالک میں قانون کی حکم رانی نہیں ہے وہ ترقی پذیر ممالک کی صف میں شامل ہیں ۔وطن عزیز میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔جب تک پاکستان میں قانون کی حکم رانی نہیں ہوگی پاکستان ترقی پذیر ممالک کی صف میں کھڑا رہے گا۔

ہمارا احتساب کا نظام بھی دنیا بھر کے ممالک سے مختلف ہے ۔ امریکا ، برطانیہ اوریورپی ممالک میں بھی احتساب کا نظام موجودہے جس کے ذریعے سب کا یک ساں احتساب ہوتا ہے، مگر پاکستان میں احتساب صرف اور صرف سیاست دانوں کا ہوتا ہے۔ احتسابی عمل بھی تقسیم ہے۔ اگر کسی معززجج کا احتساب ہوتو اس کے لیے صدر پاکستان سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجتے ہیں ۔ 

اسی طرح اگر کسی فوجی افسرپر الزام لگے تو فوج کا اپنا احتسابی نظام ہے اوروہ اس کے مطابق کارروائی عمل میں لاتے ہیں ۔ وطن عزیز میں سب اس بات پر متفق ہیں کہ نیب کا موجودہ ادارہ ایک آمر نے اپنے اقتدارکو دوام بخشنے کے لیے قایم کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ادارہ بد عنوان سیاست دانوں کا احتساب کرتا ہے۔ سزا اور جزا کا فیصلہ دنیا بھر میں معزز عدالتیں کرتی ہیں لیکن یہ ادارہ عدالتوں کے فیصلوں سے پہلے ہی سیاست دانوں کو گرفتار کرتا اور بعد میں ریفرنس عدالتوں میں بھیجتا ہے۔ دنیا کے بیش ترممالک میں احتساب کا عمل یک سر مختلف انداز میں ہوتا ہے۔ امریکا میں ایف بی آئی بدعنوانی ثابت ہونے پر مقدمہ عدالتوں میں پیش کرتی ہے۔

برطانیہ میں اگر کسی سیاست داں یا کسی شخص پر بد عنوانی یا مالی بے ضابطگی کا الزام ہوتو اس کا معاملہ ایس ایف او کو پیش کیا جاتا ہےجو خود کوئی سزا نہیں دیتا، نہ ہی پاکستان کی طرح پہلے جیل یاترا کرواتا ہے بلکہ انکوائری کے بعد معزز عدالت کے سامنے پیش کرتا ہے۔ برطانیہ میں اس قسم کے اعتراضات کےلیے پارلیمنٹ میں کمیٹیاں بھی موجود ہوتی ہیں۔ وزراء ان کمیٹیوں کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں کتنے ہی سیاست دانوں کو نیب جیل بھیج کر ان کے خلاف ریفرنس عدالتوں میں پیش کرتا رہتا ہے۔

اب تک سابق صدر آصف علی زرداری ، سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف، میاں محمد نواز شریف، مریم نواز شریف ،محمد شہباز شریف ، حمزہ شہباز شریف، خواجہ سعدر فیق ، احسن اقبال ، شاہد خاقان عباسی سمیت کئی سیاست داں نیب کے ہاتھوں میں جاچکے اور بعد میں معزز عدالتوں سے بری ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی بہت سی وجوہات ہیں، لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں قانون کی حکم رانی نہیں ہے۔ دوم، پارلیمنٹ ہاؤس، جسے عوامی نمائندگی کا ادارہ کہا جاتا ہے ،اس کا وجود تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ چناں چہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں قانون کی حکم رانی قایم کی جائے، احتساب کا نظام جاری رہے، مگر اس میں انتقام کا رنگ نہیں جھلکنا چاہیے۔