بحیثیت پاکستانی بھی ، بحیثیت مسلمان بھی اور بحیثیت انسان بھی ہم سب اپنے گردوپیش سے لاتعلقی اور بے حسی کی جس خطرناک کیفیت میں مبتلاہیں اُسے بدلا نہ گیا تو خدشہ ہے کہ جلد ہی ہم مکمل طور پر ایک مردہ معاشرہ میں ڈھل جائیں گے۔
ملک ،شہر اور بستی محلے کی کیا بات ، کبھی یہ حال تھا کہ دنیا کے کسی گوشے کے مسلمانوں پر کوئی مشکل آپڑتی تو پورا عالم اسلام تڑپ اٹھتا تھا۔ راجہ داہر کے دور میں ڈاکووٴں کے ہاتھوں لٹنے والی ایک مسلمان عورت کی فریاد پر محمد بن قاسم کی سندھ آمد تو پرانا واقعہ ہے ، اس کے صدیوں بعدبیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ترکی کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے برصغیر میں تحریک خلافت کا اٹھنا، مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے کی کوشش پر 1969ء میں پوری مسلم دنیا کے سربراہوں کا مراکش کے شہر رباط میں جمع ہو کر اسلامی ملکوں کی تنظیم کا قیام عمل میں لانا، مسلم دنیا کو درپیش مسائل پر متفقہ موقف اور باہمی تعاون کے فروغ کے لئے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا منعقد ہونا ، اسلامی بلاک کے قیام کے منصوبے،فلسطین کی آزادی کی جدوجہد سے دنیا کے ہر حصے کے مسلمان کا قلبی تعلق، یاسر عرفات کو اس جدوجہد کی علامت سمجھنے کی بناء پر ہر مسلمان کی نگاہ میں ہیرو کا مقام حاصل ہونا، آزادی کشمیر کے لئے مسلم ملکوں کی تنظیم کی جانب سے متفقہ موقف کا بارہا اظہار، بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی پر پوری مسلم دنیا کا اضطراب، یہ تو کچھ زیادہ پرانے واقعات نہیں۔ مگر اس کے بعد ہماری آنکھوں نے دیکھا کہ بارہ سال پہلے بے قصور افغانوں پر مغربی ملکوں نے اپنے استعماری مقاصد کے لئے فوج کشی کی اور پھر عراق کو بھی بے بنیاد حیلوں بہانوں سے جارحیت کا نشانہ بنایا تو مسلمان ملکوں کی قیادتوں کو صرف یہ فکر تھی کہ ان کی باری نہ آنے پائے۔
اس سے بچنے کے لئے انہوں نے مغرب کی سامراجی طاقتوں کے ساتھ مکمل تعاون کیا ۔ اوراب شام میں آگ لگی ہے ، ایک لاکھ مسلمان اس خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، مصر میں جمہوری اور عوامی قوتوں پر ایک بار پھر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں مگر پوری مسلم دنیا پر بالعموم مکمل بے حسی طاری ہے۔ مسلم ملکوں کی تنظیم عملاً معطل ہے۔ عرب لیگ کا عدم اور وجود برابر ہے۔ ہمارے اختلافات نے ہمارے وسائل پر تسلط کے لئے ہمارے دشمنوں کے عزائم اور منصوبوں کی تکمیل کی راہیں ہموار کردی ہیں۔
عالمی اسلامی تحریکیں بھی کسی نتیجہ خیز کردار کی ادائیگی سے قاصر نظرآتی ہیں۔ اور یہ تو دور کی باتیں ہیں۔ اب تو صورت یہ ہے کہ ملک کے اندر ڈرون حملوں، خود کش حملہ آوروں کی کارروائیوں اور ہولناک بم دھماکوں میں سینکڑوں افراد کی ہلاکتوں پر بھی ملک کے دوسرے حصوں میں کوئی ہلچل برپا نہیں ہوتی۔ ایک فرقے کے لوگوں کی اموات دوسرے فرقے کے لوگوں کے لئے عام طور پر کسی فکر مندی کا باعث نہیں بنتیں۔ ایک دوسرے کے جنازوں میں شرکت اور تعزیت کا رسمی تکلف بھی اب ترک کیا جاچکا ہے۔ ایک علاقے کا سیلاب دوسرے علاقوں میں ماضی کی طرح مدد کا جذبہ نہیں ابھارتا ۔ ایک شہر کی ایک بستی میں قتل و غارت کا طوفان بھی بپا ہو تو دوسری بستیاں مطمئن رہتی ہیں کہ ابھی ہم بچے ہوئے ہیں۔اور یہی نہیں بلکہ اب تو صورت یہ ہے کہ پڑوس میں ڈاکہ پڑرہا ہو ، سڑک پر کسی کو لوٹا جارہا ہو یا گمنام قاتلوں کی بندوقیں کسی راہ گیر کو نشانہ بنی رہی ہوں تو عموماً ہر شخص لاتعلق رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ اگرچہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں نفاذ قانون کے ذمے دار اکثر ہمدردی کرنے والے ہی کو تفتیش کا پہلا ہدف بناتے ہیں لیکن اصل وجہ معاشرے کی عمومی بے حسی ہی ہے جس کا ہم سب ہی شکار ہوچکے ہیں۔اگر یہ کیفیت جاری رہی تو ہم سب یہ سمجھ کر ایک دوسرے کو ویران ہوتا دیکھتے رہیں گے کہ ہم تو ابھی محفوظ ہیں۔ لیکن ہم حرکت میں نہیں آئیں گے تو منفی قوتیں ایک ایک کرکے سب کو برباد کردیں گی۔ چنانچہ اس صورت حال کو بدلنا ناگزیر ہے۔
اس بے حسی کے خاتمے کے لئے ہمارے معطل دماغوں اور مفلوج دلوں کو نشترزنی کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز مجھے ایسی ہی ایک نشتر زنی کا تجربہ ہوا جس نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ میں چاہتا ہوں کہ اس تجربے میں تمام قارئین کو شریک کروں۔ یہ ایک آزاد نظم ہے جس کے خالق شکیل جعفری سے مجھے کوئی ذاتی تعارف حاصل نہیں۔ تاہم مجھے امید ہے کہ ان کی یہ تخلیق میری طرح دوسروں کو بھی جھنجوڑنے کا ذریعہ بن کر ہماری ایک بہت بڑی اور فوری ضرورت کو پورا کرے گی۔ ملاحظہ فرمایئے:
ابھی سوتے رہو بھائی !
ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟
ابھی بے روزگاری نے
تمہارے در پہ دستک بھی نہیں دی ہے
تمہارے بچے کی بوتل میں ابھی تک دودھ باقی ہے
تمہارے گھر میں راشن ہے ابھی فاقے نہیں ہوتے
تمہارے اہل خانہ رات کو بھوکے نہیں سوتے
ابھی سوتے رہو بھائی ،ابھی سے کیوں پریشان ہو
تمہارا کچھ نہیں بگڑا
تمہاری والدہ ہیں محترم اب بھی
انہوں نے آج تک تھانہ نہیں دیکھا
جواں بیٹوں کی خاطر کسی سفاک تھانیدار کے
پاوٴں نہیں پکڑے
تمہاری بہن کو اب تک کوئی ”کاری“ نہیں کہتا
شریک ِزندگی کے کھلتے چہرے پر
کسی ظالم نے کب تیزاب پھینکا ہے
نہ تمہاری دختر نیک اختر نے
کوئی اجتماعی زیادتی کا کرب جھیلا ہے
ابھی سوتے رہو بھائی!
ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟
تمہارا کچھ نہیں بگڑا
بتاوٴ کیا کبھی لخت جگر اغوا ہوا کوئی
یا کبھی تم سے کسی نے کوئی تاوان مانگا ہے
دھماکے ہوتے رہتے ہیں مگر آج تک اب تک
تمہارا بھائی مسجد سے بخیروعافیت گھر کو پہنچتا ہے
بھتیجا اب بھی گلیوں میں کری کٹ کھیلا کرتا ہے
ابھی تک تو کسی نے بھی اسے الٹا نہیں ٹانگا
نہ اس کی لاش گلیوں میں گھسیٹی ہے
ابھی سوتے رہو بھائی،
ابھی سے کیوں پریشاں ہو
تمہارا کچھ نہیں بگڑا
ابھی اس ظلم کے عفریت میں، تم میں ذرا سا فاصلہ ہے
ابھی تم تک پہنچنے میں ذرا سا وقت باقی ہے
ابھی سوتے رہو بھائی، ابھی کچھ دیر باقی ہے