• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وعدوں،دعووں اور نعروں کے تکیے…پریشر گروپ…ایثار رانا

میں تو پہلے ہی کہتا ہوں مولانا فضل الرحمان پاکستانی سیاست کے گرو ہیں اگر آپ ساتھ گھنٹال لگانا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ کیونکہ خلق خدا انہیں غائبانہ کیا کہتی ہے۔اتنا اتفاق میں نے غائبانہ نماز جنازہ میں دیکھا ہے یا تو غائبانہ خطابات میں ۔ پیپلز پارٹی کے قائدین نے پچھلے سال ریکارڈ غائبانہ خطاب حاصل کئے۔ غالباًآپ لفظ ”خطاب “ کا مطلب جانتے ہوں گے۔ لوڈ شیڈنگ، مہنگائی کے ہاتھوں آپ بھی ان خطابات کو استعمال کرتے رہے ہوں گے۔
میں اپنے دوست سے ملنے اس کے کالج گیا وہ وہاں پڑھاتا ہے، جب وہ مجھے گیٹ تک چھوڑنے آیا تو کسی نے آواز لگائی ” بھالو اوئے“۔ بار بار آواز پر بھی اس نے سنی اَن سنی کر دی۔ میں نے ایک اچھے دوست کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ان کی توجہ ”بھالو اوئے“ کی جانب مبذول کرائی تو انہوں نے کہانہیں مجھے نہیں چھیڑ رہے۔ مجھے تو یہ ’ ’چوچا“ کہہ کر پکارتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کے تمام کردار عوام میں مختلف خطابات سے مستفیض ہوتے رہتے ہیں ذاتی طور پر میں مولانا کا فین ہوں۔ انہوں نے پلٹ کر جھپٹنا اور جھپٹ کر پلٹنا سیکھ رکھا ہے اور خوب سیکھ رکھا ہے۔ آج کا کالم پلٹ جھپٹ کے ہی حوالے سے ہے۔ گو اس کا آغاز قدرے لائیٹ ہے لیکن آگے جا کر معاملہ بہت ٹائٹ ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے بیان نے ملک کے خلاف ایک بہت بڑی سازش کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ اگر کے پی کے میں عمران خان کی حکومت زیادہ دیر رہی تو صوبہ ملک کا حصہ نہیں رہے گا۔ ویسے انہوں نے ایک جیدوکی لیکس کے طور پر بتا بھی دیا ہے کہ یہ حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ میرے پاس کوئی چڑیا نہیں لیکن ایک ایسا کھوتا ضرور ہے جو اپنی دولتی سے بہت سے راز افشا کر دیتا ہے۔ اس کا کہنا کہ مولانا صاحب میاں صاحب کی طالبان سے صلح کرانے کے عوض کے پی کے مانگ چکے ہیں۔ شعلے میں جب بدلے کی آگ میں جلتا ٹھاکر گھبر سنگھ کو کہتا ہے یہ ہاتھ مجھے دے گھبر، تو گھبر سنگھ دل میں کہتا ہے کہ اگر میں نے یہ ہاتھ تمہیں دے دیئے تو نہ نہانے کے سبب جسم پر ہونے والی کھجلی کیسے کروں گا۔بندے کے ہاتھ نہ ہوں اور کھجلی ہو جائے تو دوسرا یہ ہی سمجھتا ہے کہ قمیض تیری کالی تے سوہنے پھلاں والی پر ڈانس کر رہا ہے۔ میری پاکستان مقتدر حلقوں سے التماس ہے کہ مولانا کے اس بیان کو سنجیدگی سے لیں اور مولانا کو قطعاًایزی نہ لیں۔یہاں ملک کو توڑنے کا سوچنا اور ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کی باتیں کرنا سیاستدانوں کے لئے بہت معمولی بات ہے۔ اس ملک کے لئے جنہوں نے اپنی جان، مال ، عزت کی قربانی دی آج بھی اس کا ایک ذرہ ہوا میں اڑ کر بھی کہیں جاتا نہیں دیکھ سکتے۔ تمام تر مایوسیوں کے با وجود آج بھی عام پاکستانی اپنی دھرتی سے محبت کر تا ہے۔ لیکن صوبے الگ ہو جانے کی باتیں کرنا، جس دھرتی کی دولت سے تجوریاں بھریں اسی کے خلاف زہر اگلنا قائدین کے لئے فیشن ہے۔ ہم اسے آزادی اظہار کا نام دیتے ہیں۔ ہم اسے لبرل سوچ کہتے ہیں۔ سیاست میں لڑائیاں اپنی جگہ لیکن مذہب فروشی کے الزامات ،یہودی ایجنٹ ہونے کے اعلانات، ملک دشمن اور صوبے کو الگ کرنے کے انکشافات کیا ہیں، کیا ہمارے پاس سیاسی جنگ لڑنے کے لئے اخلاقی دلیلیں ختم ہو چکی ہیں۔ ہماری ذہنیت کافر قرار دینے سے، ملک دشمن ہونے تک ،کی سوچ تک محدود ہو گئی ہے۔ بات صرف مولانا فضل الرحمان کی نہیں عمران خان کی بڑھکوں نے بھی مولا جٹ تے نوری نت کے روایتی کردار کو زندہ کر دیا ہے۔ کوئی ہے پوچھنے والا؟کے پی کے اور پورا پاکستان اس وقت اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے اور ہمارے قائدین ؟ کیایہ ہی راہنمائی ہے، کیایہ ہی پارسائی ہے، کیا یہ ہی لیڈر شپ ہے اور آفرین ہم پر بھی ہے نو ٹنکی کی رسیا قوم ۔ عمران خان کو کوئی پھبتی کہتا ہے تو تالیاں بجاتے ہیں ، سیٹیاں بجاتے ہیں، مولانا کی طرف دیکھ کرگندے اشارے کرتے ہیں پھر کہتے ہیں”ہن تہاڈی واری ایہہ تسی جگت لاؤ(اب آپ کی باری ہے آپ جگت لگائیں)۔ اس وقت عملی صورتحال یہ ہے کہ جوں جوں جون قریب آرہا ہے خطے کی سنگینی بڑھتی جا رہی ہے اور حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ میری بات لکھ لیں ، امریکہ جانے سے پہلے ایک تباہ حال خطہ چھوڑنا چاہتا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کی حکومتی خواہش اپنی جگہ لیکن وائٹ ہاؤس پینٹاگون اور 10ڈاؤننگ سٹریٹ کی پلاننگ اپنی جگہ۔ پاکستان کو اقتصادی ، معاشی ، سیاسی اور سماجی طور پر اسی لئے اتنا کمزور کیا جا رہا ہے کہ وہ ان آقاؤں کی خواہشات کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکے، اب کی بار لمبا لیٹ بھی جائے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ آئی ایم ایف بھی اس با ر نئے پالش شدہ چم چم کرتے کشکول میں بھیک تھوڑا جان بوجھ کر دیر سے ڈالے گا۔ اس کی مرضی وہ بخشش دینے والا ہم لینے والے، شیروانیوں ، پیرس کے سلے سوٹس میں بھیک مانگنے والے پاکستانی سرحدوں پر بھارتی شرارتیں کوئی اچانک ہونے والی وار داتیں نہیں ان کا ایک مطلب ہے۔ پاکستان کو مسلسل ”انگیج “ رکھناہے۔ لیکن کوئی مجھے بتائے کیا اس کا ادراک ہماری قیادت کو ہے وہ تومجمعے میں اپنی جگت کے بعد انتظار کرتی ہے لوگ واہ واہ بو لیں تو اگلی بات کریں ۔ پاکستان میں یوں تو چہار سمت خون اور دہشت ہے لیکن کے پی کے کے لئے ایک نازک کڑی ہے۔وہاں قبرستان چھوٹے پڑ رہے ہیں اور وہاں کی عوامی قیادت ایک دوسرے پر کیچڑ اچھا ل رہی ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں ہمارے کنگ خان کا یہ پہلا تجربہ ہے۔ انہیں حکومت کرنے کا تجربہ ہے نہ اپوزیشن کرنے کا۔ انہیں انتظامی معاملات چلانے کا تجربہ ہے نہ بطور سربراہ کسی صوبے کے مسائل سے نمٹنے کاتجربہ۔ آپریشن تھیٹر میں ایک مریض پریشانی کے عالم میں آپریشن ٹیبل پر لیٹا ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے پریشانی کی وجہ پوچھی توکہنے لگا ڈاکٹر صاحب یہ میرا پہلا آپریشن ہے۔ اس لئے پریشان ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے آپ پریشان نہ ہوں ، میرا بھی یہ پہلا آپریشن ہے۔ بندے کو وقت تو لگتا ہے چیزیں سیکھنے میں ۔ اب ایسے میں تھوڑا بہت نقصان ہو بھی جائے تو برداشت کر لینا چاہئے۔ بندے شندے تو مرتے ہی رہتے ہیں۔ دھماکے شماکے تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ بقول امان اللہ کے بندہ ضائع ہو جائے جملہ ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ اب کیا کیا جائے مارکیٹ میں لیڈر شپ کا ایسا ہی مال سٹاک میں موجود ہے۔ اسی سے گزاراکرنا ہو گا۔ شاید پاکستانی کی قسمت کا منڈیلا،بن بیلا، ہوگو شاہ ویز، احمدی نژاد آؤٹ آف سٹاک ہیں۔ شاید ہم اس سٹاک کی قیمت ادا نہیں کر سکتے قوموں کو ویسے ہی لیڈر ملتے ہیں جیسے وہ ہوتی ہیں۔ جیسی وہ سوچتی ہیں اور چاہتی ہیں۔ جن قوموں کی قیادت کے کاروبار ، بینک اکاؤنٹس اور گھر باہر ہوں ان کا کیاسٹیک پر ہو گا۔ بھائی میرے ، دوست میرے ، اے نادرا کے سرٹیفائیڈ پاکستانی، ملک کے تقدیر بنانے اسے کامیاب کرنے بحرانوں سے نکالنے والے آل آؤٹ جاتے ہیں۔ کشتیاں جلانا پڑتی ہیں۔ اگر ساتھی کہیں کہ بھوک کے سبب پیٹ پر پتھر باندھ لیں تو لیڈر نے دو پتھر باندھے ہوتے ہیں۔ کہہ لیں ، کہہ لیں، کہ اب اس طرح کی مثالیں آؤٹ ڈیٹیڈ ہیں تو پھر میرے دوست ایک بار کیوں نہ طے کر لیں کہ اس روشن مثالوں کی کتابوں کو طاق میں رکھ دیا جائے اور رائیونڈ، بنی گالا،کلفٹن کی مثالوں کو زندگی کا راہنما بنا لیا جائے۔ بنا کیا لیا جائے بنا ہوا ہے وہی ہمارے لئے روشن مثالیں ہیں ۔ بھوکی ، ننگی مخلوق کے رجے بچے راہنما۔ وہ جتنا قوم کا وقار بلند کر سکتے ہیں کر رہے ہیں۔ عوام انہیں کی وجہ سے تو اب اقوام ِ عالم میں سر اونچا کر کے چل رہے ہیں۔ باپ نے بیٹے سے کہا تم نے کبھی ایسا کچھ نہیں کیا کہ ہمارے سر اونچا ہو سکے۔ کاش تم میر ی خواہش سمجھتے ۔ بیٹا کہنے لگے ایک بار میری وجہ سے آپ کا سر بلند ہو اتھا۔ باپ نے حیرانی سے کہا کب؟ بیٹا بولا جب آ پ سو رہے تھے اور میں نے آپ کے سر کے نیچے تکیہ رکھا تھا۔ آپ سب چیک کریں تو آپ کا سر بھی بلند ہے۔ آپ سر کے نیچے وعدوں،دعووں اور نعروں کے تکیے موجود ہیں۔
تازہ ترین