یہ یکم فروری 1979کا دن تھاجب امام خمینی 14 سال کی جلاوطنی کے بعد واپس ایران گئے تھے ۔اس دن ایک نئے ایران کا آغاز ہوا تھا انقلاب مکمل ہوگیا تھا۔اُس انقلاب کی عمراب 34کے قریب ہے اسی تبدیلی کے سبب آج تک ایران اپنے پورے وقار کے ساتھ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرجینے والے واحد اسلامی ملک کی حیثیت سے پہچانا جا رہا ہے ۔کیا کوئی ایسی پاکستانی شخصیت بھی ہے ۔ جو پاکستان کو اسی طرح کے کسی انقلاب سے آشنا کردے۔میں نے اس سوال پر کافی دیر غور کیا اور بار بار میری آنکھیں ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف اٹھیں ۔
اعتمادِ ذات کے کسی غیر فانی لمحے میں جنم لینے والے ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان کیلئے امام خمینی بن سکتے ہیں۔مگر اس کیلئے انہیں دو فیصلے بہت بڑی سطح پر کرنے ہونگے ایک تو غریبوں کی فلاح و بہود کیلئے فقہ حنفیہ میں اجہتاد کرنا ہو گا۔ اسلام کے اُس معاشی نظام کو سامنے لاناہوگاجس میں زمین اور زمین سے نکلنے والے تمام خزانے اللہ کے ہیں اور تمام مخلوق کیلئے برابر ہیں ۔اس پر جاگیردار اپنی مرضی کی لکیریں نہیں کھینچ سکتے ۔زمین کا مالک ہے جو اس میں ہل چلاتا ہے۔ جس میں زکوات صرف کارِثواب نہیں ایسا اسلامی ٹیکس ہے جس کی شرح ڈھائی فیصد سے بڑھائی بھی جاسکتی ہے ۔یہ وہ معاشی نظام ہے جس کی بنیاد انفاق فی سبیل اللہ پر رکھی گئی ہے۔ جس کے تحت اپنی اوسط ضروریات سے زائد جو کچھ ہے وہ دوسروں کا ہے شایدانہی بنیادوں پر اسلام میں جاگیرداری فاسداور سرمایہ داری حرام قرار پائی ہے ۔ڈاکٹر طاہر القادری اپنی کتاب ”اسلامی فلسفہ زندگی میں“اس کے ابتدائی خدو خال واضح کر چکے ہیں۔مگر اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ لوگوں کے عبادات کی طرف مائل کرنے بجائے حقوق العباد کی طرف راغب کریں۔جناب صدیق اکبر نے فرمایا تھا جس نے زکوة ٰکو،صلوةٰ کو جدا کیا وہ غلط راہ پر ہے ۔ یعنی صلوةٰ اور زکوةٰ ایک ہی چیز ہیں اور ایک دوسرے سے وابستہ و پیوستہ ہیں انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ زکوةٰ کے معنی ہیں نشوونما دینا ، تزکیہ کرنا اور بڑھاتے چلے جانا ۔ یہ صلوٰة ہی کا اگلا مرحلہ ہے اس لیے جہاں اقامتِ صلوةٰ کا ذکر ہے وہاں ایتا ے زکوةٰ کا بھی ذکر ہے ۔ (مسلمان تو وہ لوگ ہیں کہ جب انہیں زمین میں تمکن عطا ہوگا ان کی حکومت آئیگی تو یہ صلوٰة کا نظام قائم کر یں گے اور زکوةٰ ادا کریں گے)
دوسرا فیصلہ انہیں یہ کرنا ہے ۔ سب سے پہلے نمونے کے طور پر دنیا کے سامنے سب سے پہلے اپنے، اپنی اولاد کے اور اپنے ساتھیوں کے اثاثے رکھنے چاہئیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر خود بھی عمل کررہے ہیں ۔ایک دفعہ ایک صحابی جناب عمر فاروق کے پاس گیا تو وہ جو کی روئی کھارہے تھے اس صحابی نے عرض کیا ” امیر المو ٴ منین “ اب تو مسلمانوں کو اللہ نے بہت کچھ فراخی اور وسعت عطا کی ہے آپ گندم کی روٹی کیوں نہیں کھاتے آپ نے فرمایا ” کیا معاشرہ کے ہر فرد کو یہ سہولت اور کشادگی ءِ رزق مل گئی کہ وہ گندم کی روٹی کھائے ؟ اس آدمی نے کہا میرے خیال میں ابھی ایسا وقت تو نہیں آیا ” آپ نے فرمایا “ میں کوشش کر رہا ہوں کہ ایسا وقت آجائے اور جب ایسا وقت آئیگا تو میں بھی گندم کی روٹی کھانے کی ” آسائش “ حاصل کر ونگا اور بیت المال سے کہونگا کہ میرے روزینہ میں اضافہ کیا جائے اسلام نے دولت اور مال وزر کی محبت نہیں سکھائی قرآن میں کہیں مال کی تعریف نہیں کی گئی اور اگر مال و دولت کا ذکر ہوا تو انفاق فی سبیل اللہ “ کی تلقین کی گئی ۔ میں جانتا ہوں کہ یہ دونوں فیصلے ڈاکٹر طاہر القادری کیلئے قطعاً مشکل نہیں ہیں کیونکہ نہ تو ان کے پاس ذاتی طور پر اوسط ضروریات سے زائد دولت ہے اور نہ وہ اس عقیدہ پر یقین رکھتے ہیں جس کے تحت اسلا م میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کو جائز قرار دے دیا گیا ہے مگر راستے کی رکاوٹ وہ مشائخ عظام ہیں جن کے عشرت کدے قارون کی خزانوں کی مثال ہیں ۔ان کے اردگر صرف مذہبی لوگوں کا اجتماع ہے ۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مدرسوں میں تعلیم حاصل کی ہے مسجدوں میں پروان چڑھے ہیں ۔یا جنہیں عبادات سے بہت رغبت ہے مجھے ان کی پاکیزگی اور طہارت سے کوئی انکار نہیں مگر ان لوگوں کا عوام کے ساتھ تعلق صرف مذہبی معاملات تک محدود ہے ۔یہ لوگ نہ تو زندگی سلگتے ہوئے مسائل کو جانتے ہیں اور نہ ہی کبھی انہوں نے ان مسائل میں شریک ہونے کی کوشش کی ہے۔ ۔نوازشریف کی زر اگلتی آنکھ میں مقبول ہونے کیلئے ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف تقریر کرنی ہے۔بہرحال ایک واحد ڈاکٹر طاہر القادری کی شخصیت ایسی ہے کہ عوام ان کے ساتھ کھڑی ہوسکتی ہے مگر ان کی شخصیت کو عوام سے دور کرنے کیلئے انقلاب دشمن قوتوں نے جو کچھ ذرائع ابلاغ کی وساطت سے کیا ہے۔ اس کے تدارک کیلئے تحریک منہاج القران کچھ نہیں کرسکی۔ اس طرف بھرپور توجہ کی ضرورت ہے اورمیراذاتی مشورہ ڈاکٹر طاہر القادری کیلئے یہی ہے کہ انہیں حقیقی انقلاب کی تیاری شروع کرنی چاہئے ۔اب انہیں اپنی باقی زندگی صرف انقلاب کی راہ گزارنی چاہئے کیونکہ یہی اسلام کا بنیاد مقصد ہے کہ انسان زمین پہ انسان بن کر رہ سکے۔