• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیا، پرانا آدمی ’’آصف اسلم فرخی‘‘ (قسط نمبر…1)

عرفان جاوید اُردو دنیا کے ایک موقر، ممتاز اور محبوب قلم کار ہیں۔ ان کا تخلیقی، تحریری سفر افسانوں سے شروع ہوا۔ بعد ازاں، شخصی خاکوں پرمشتمل خیال آفریں، فکر افروز تحریریں ’’دروازے‘‘ ، ’’سُرخاب‘‘ کے عنوانات سے اور تحقیقی و دانش افروز مضامین ’’عجائب خانہ‘‘ کے زیرِ عنوان شرمندۂ اشاعت ہوئے۔ اور ان مضامین نے ’’سنڈے میگزین‘‘ میں سلسلے وار اشاعت کے بعد کُتب کی شکل میں بھی عوام و خواص میں بےحد مقبولیت حاصل کی۔

اب عرفان جاوید کی تحقیقی و تخلیقی کاوشوں کا حامل یہ تازہ سلسلہ ’’آدمی‘‘ قارئین کی نذر کیا جارہا ہے۔ چند معروف، کم معروف، غیر معروف مگر نادر ونایاب شخصیات کے اِن خاکوں میں فاضل مصنف کے مشاہدے کی توانائی اور بیان کی دل کشی بہ درجۂ کمال نظر آتی ہے۔ یہ کون، کہاں، کیوں اور کیسے، کیسے لوگ تھے۔ اس دل چسپ، زندگی آمیز سلسلے میں اِن اَن مول، ’’بے پناہ‘‘ صاحبان سے ملاقات کیجیے۔

پہلا خاکہ ڈاکٹر آصف اسلم فرخی کا ہے، جو سراپا علم و ادب، پاکستان میں بین الاقوامی سطح کے ادبی میلوں کے بانی، ممتاز افسانہ نگار، مترجّم، مضمون نگار،مدیر اور نقّاد تھے۔نئے سلسلے سے متعلق اپنی آراء سے آگاہ کرنا مت بھولیے گا۔ (ایڈیٹر، سن ڈے میگزین)

انتظار حسین زندہ تابندہ تھے، یہ تب کا واقعہ ہے۔ مَیں نے عطاء الحق قاسمی صاحب کا خاکہ لکھا اور اُسے ’’دنیازاد‘‘ میں اشاعت کی غرض سے اُس کے مدیر آصف فرخی کو بھجوایا۔ چند روز بعد اُن سے فون پر معمول کی گفت گو ہورہی تھی تو ضمنًا اس خاکے کی بابت دریافت کیا۔ آصف صاحب اپنے مخصوص انداز میں بولے۔ ’’بھئی، خاکہ تو بہت خوب ہے، برجستہ اور شگفتہ ہے، مگر دنیا زاد کی پالیسی ہے کہ ہم زندہ لوگوں پر تحریریں شائع نہیں کرتے۔‘‘جب مَیں نے یہ بات اِن ہی الفاظ میں قاسمی صاحب کو بتائی تو انھوں نے بلند بانگ قہقہہ لگایا اور بولے۔ ’’توکیا آصف انتظار حسین کو اُن کی زندگی ہی میں مُردہ سمجھ بیٹھا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ دنیا زاد میں تواتر سے انتظار صاحب کی شخصیت اور فن پر تحریریں شائع ہوتی رہتی تھیں۔ آصف کی انتظار صاحب سے اپنے لڑکپن سے عقیدت ومحبت تھی، جسے وقت پیما سے قطرہ قطرہ ٹپکتے شب وروز نے مزید چمکا دیا تھا۔

ادبی میلے کی ایک شام عبداللہ حسین اور مستنصرحسین تارڑ کو انگریزی زبان کے ایک جوان ادیب نے اپنے گھر کھانے پر مدعو کر رکھا تھا۔ مَیں گاڑی چلا رہا تھا اور اردو ادب کے دو قد آورادیب میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ شارع فیصل روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی، کراچی کی خوش گوار سمندری ہوا میں درخت، بُوٹے جھوم رہے تھے اور ہم منزل کی جانب رواں دواں تھے۔ مختلف موضوعات پر بات ہورہی تھی۔ عبداللہ حسین خاصی دیر کے لیے خاموش ہوگئے۔ مَیں نےاستفسار کیا کہ ایک ایسی خُوب صُورت اور پرُرونق شام میں وہ خاموش کیوں ہوگئے۔ انھوں نے جواب دیا، ’’کل صبح مجھے لٹریچر فیسٹیول کے اپنے سیشن میں احمد شاہ جیسے بے باک آدمی کا سامنا ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ اُسے کس طرح سنبھالنا ہے۔‘‘ 

کچھ دیرتوقف کر کے بے چارگی سے بولے۔ ’’ایک تو آصف(آصف فرخی) نے مجھے اُس کے سامنے ڈال دیا ہے کہ آجا بھئی جو کرنا ہے کرلے۔ مَیں نے سوچ لیا ہے کہ اُس کی ہر بات پر کہوں گا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں۔ بس، وہ خود ہی ٹـھیک ہوجائے گا۔‘‘اس پر مَیں نے اُنھیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ایسے سوالات تو وہ سیشن کودل چسپ بنانے کے لیے کرتے ہیں اور بات بڑھائی۔ ’’آپ کون سے پہلے حُسین ہیں، اس سے پہلے بھی تو ایک حُسین اُن کا سامنا کرچکے ہیں۔‘‘ (اشارہ مستنصرحسین تارڑ کے اسلام آباد کے گزشتہ ادبی میلے میں احمد شاہ کے ساتھ گرماگرم سیشن کی جانب تھا)۔ 

یہ سُن کر عبداللہ حسین نے قہقہہ لگایا اور شگفتہ لہجے میں بولے۔ ’’کتنا ہی اچھا ہو، اگر انتظارحسین کی بھی باری آہی جائے۔ ایک مرتبہ تو احمد شاہ اسے بھی برابر کردے۔‘‘ پھر بولے’’مگرآصف فرخی ایسا نہیں ہونے دے گا‘‘(یعنی انتظارصاحب کا ایسا سیشن نہیں رکھے گا)۔ آصف صاحب اصول پسند، اصول پرست آدمی تھے مگر جب اُن کی کسی محبوب شخصیت کا معاملہ ہوتا تو وہ خود متعیّن کردہ ضوابط بھی بالائے طاق رکھ کر اُس شخص کے لیے جی جان سے بِچھ بِچھ جاتے۔ 

اُن کے شناسا،دوست اُنھیں ایک منضبط مزاج اور پرُتکلف آدمی کے طور پر جانتے تھے، جو شیشے کے ایک ایسے شفّاف خول میں بند ہو کہ اُسے دیکھا توجاسکے مگر چھوا نہ جاسکے، جس سے شناسائی، یہاں تک کہ دوستی تو قائم ہوسکتی ہو، پر یاری نہ لگائی جاسکتی ہو۔ وہ ہمیشہ ایک فاصلہ، ایک تکلف قائم رکھتے، لیے دیے رہتے تھے۔ بَھرے مجمعے میں گُم صُم، بات کرتے کرتے خاموش ہوجانا، غیر رسمی مباحثے کے دوران سوچوں میں کھوئے رہنا، اپنے خیالوں میں غلطاں،کسی شناسا کے پاس سے اجنبیت سے گزر جانا، پَل میں پرُجوش پَل میں لا تعلق، کبھی تُم کبھی آپ، ایک ہی شخص پر کئی رنگ آکر گزر جاتے۔

اس مزاج کے لوگ عموماً گوشہ نشین، مردم بےزار اور محفل گریز ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس آصف کی جانب لوگ کھنچے چلے آتے تھے۔ ان میں مختلف مزاج کے لوگوں کو اکٹھا کرلینے کی غیر معمولی صلاحیت موجود تھی۔ شاید اس میں کچھ تاثیر اُن کے نام کی بھی تھی۔ آصف عبرانی زبان کا لفظ ہے جو عربی سے اُردو میں آیا۔ اس کے معنی منتظم یا جمع کرنے والے کے ہیں۔ گویا آصف اسم بامسمٰی تھے۔ 

غالباً وہ اپنی ذات کی تنہائی دُور کرنے کے لیے اپنے گردمجمع لگا لیتے اور اپنے بدن سے باہر کود کر اُس مجمعے میں شامل ہوجایا کرتے تھے۔ اگرکوئی شیشے کے خول کے اندر جھانک پاتا تو اسے اندر جذبات کا بھڑکتا شعلہ نظر آہی جاتا۔ یہ شعلہ عشق کا تھا۔ یہ وہی عشق تھا، جس کی خاطر وہ اصولوں کو بھی بالائے طاق رکھ دیا کرتے تھے۔ اُنھیں عشق تھا ہرطرح کی کتابوں، ادب سے، چند ادیبوں سے، کراچی سے، گنگا جمنی تہذیب سے، اُردو سے، اپنی بیٹیوں اور اپنے والد اسلم فرخی سے۔

ایک مرتبہ مَیں نے اُردو کے نثری ادب پر ایک تجزیاتی مضمون لکھا اور آصف صاحب کو دکھایا تو اس میں وہ محمّد حسن عسکری کی تنقیدی نگاہ کا توصیفی تذکرہ پڑھ کر بہت خوش ہوئے۔ محمّد حسن عسکری بھی اُردو کے ان نقّادوں اور ادیبوں میں شامل تھے، جن سے آصف محبّت کرتے اور اُن کا نام زندہ دیکھنے کے خواہش مند رہتے تھے۔ بلکہ چند ایک مرتبہ مجھے تاکید کی کہ مَیں محمّد حسن عسکری کا تذکرہ کرتا رہا کروں۔ یہ تاکید آصف صاحب کے مزاج کے برخلاف اور ایک غیرمعمولی بات تھی۔ 

البتہ یہاں اس بات کا تذکرہ برمحل ہےکہ اگرکسی میں وہ غیر معمولی تخلیقی و تنقیدی استعداد دیکھتے تو جی کھول کر اُس کی تعریف کرتے۔ ایک روز اُن کے گھر چند ادیب بہ طور مہمان مدعو تھے۔ وہاں جدید تنقید پر بات چل نکلی تو ایک صاحب نے ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کی تحریروں کی تعریف کرتے ہوئے لفظ ’’لیکن‘‘ کا جوڑ لگایا اور ہماری قومی روایت کے مطابق، جس میں اصل بات ’’لیکن‘‘ کے بعد آتی ہے اعتراض جَڑ دیا کہ ان کے ہاں تنقیدوتجزیات پرمشتمل مضامین مکتبی نوعیت کے ہوتےہیں اوریہ عام قاری سےزیادہ واسطہ نہیں رکھتے بلکہ درس گاہوں کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔ 

اس پر آصف صاحب نے نہ صرف ڈاکٹر ناصر کی تعریف کرتے ہوئے اُنھیں محمّد حسن عسکری سے آگے کا ناقد قرار دیابلکہ یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں تنقیدی شعور زیادہ Structured (ساختیاتی طورپر منظّم) ہے، ویسے بھی تنقید کو ایسے ہی لکھا جانا چاہیے اور ایسے مضامین باشعور پڑھے لکھے قارئین کے لیے ہی مخصوص ہیں۔ یعنی جہاں اُنھیں خوبی نظر آئی، اُنھوں نے بلاتامل اس کی پذیرائی کی اور جابہ جا اُس کا تذکرہ کیا۔ ایسی پذیرائی اُنھوں نےکئی نئے فِکشن نگاروں کی بھی کی۔ ایک مرتبہ کہنے لگے ’’قبل ازوقت پذیرائی ٹیلنٹ کو خراب کرتی ہے، نوآموزادیب کچاہوتے ہوئے خبط ِعظمت میں مبتلا ہوکر یک سوئی اورمحنت چھوڑدیتاہے۔‘‘ تب اُن کا اشارہ چند ایسے نوجوانوں کی جانب تھا،جو نرگسیت اورخود پرستی کے امراض میں مبتلا ہوچُکے تھے۔

نو آموز تو مَیں بھی تھا، جب اسلام آباد میں آصف فرخی سے پہلی مرتبہ ملا تھا۔ یہ دودہائی اُدھر کا واقعہ ہے کہ اسلام آباد کے ایک ادیب دوست نے مجھے بتایا کہ کراچی سے آصف فرخی آئے ہوئے ہیں اوراُس شام وہ چند دوستوں کے ساتھ میلوڈی مارکیٹ میں چائے کے لیے اکٹھے ہورہے ہیں۔ مَیں نے آصف فرخی کا نام احمد ندیم قاسمی صاحب سے سُن رکھا تھا اوراُن کے بارے میں زیادہ نہ جانتا تھا، بلکہ غالباً اُن کی کوئی تحریر بھی نہیں پڑھی تھی۔ 

تب وہ چالیس بیالیس برس کی عُمر کے تھے۔ یہ تومجھ پر بعد میں کُھلا کہ وہ جیّد ادیب اور استاد اسلم فرخی کے بیٹے، ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے کے چشم وچراغ، انٹرمیڈیٹ میں کراچی بھرمیں گولڈمیڈلسٹ، ہارورڈ یونی ورسٹی سے تعلیم یافتہ، آغاخان اسپتال جیسے اعلیٰ ادارے سے منسلک، یونی سیف سے وابستہ ڈاکٹر ہیں اور افسانہ ساز، مترجّم، ناقد، بہ یک وقت اردو اور انگریزی میں رواں مضمون نگار اور کراچی میں ادبی سرگرمیوں کے مدارالمہام ہیں۔ شروع میں یہ سب نہ جاننے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مَیں نے اُنھیں شخصی سطح پر بطور انسان دیکھا اور بلا امتیاز دیکھا۔ 

اُن کی شخصیت کاپہلا دیرپا تاثر مجھ پر ایک صاحب مطالعہ آدمی کا تھا۔ وہاں میرا تعارف کروایا گیا کہ مَیں ’’فنون‘‘ میں لکھتا ہوں۔ آصف صاحب یہ سُن کر خاصی گرم جوشی سے ملے اور احمد ندیم قاسمی سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال سنایا۔ اُنھوں نے بتایا کہ جب وہ پہلی مرتبہ لاہور میں احمد ندیم قاسمی صاحب سے ملے اور انھیں اپنا نام بتایا تو احمد ندیم قاسمی نے اُنھیں حیرت سے دیکھا اور کہنے لگےکہ وہ تو ابھی بالکل نوجوان ہیں، جب کہ اُن کی تحریروں میں پختگی کے باعث وہ انھیں نسبتاً بڑی عُمر کا آدمی سمجھ بیٹھے تھے۔ یہ سن کرآصف صاحب کوحوصلہ افزا مسرت ہوئی۔ جب میں آئینہ عقب نُما میں دیکھتا ہوں تو گمان ہوتا ہے کہ یہ احمدندیم قاسمی کا ایک ایسا من موہنا انداز تھا، جس سے وہ کسی نوآموز کی دل جوئی اور حوصلہ افزائی کرتے تھے،کیوں کہ کچھ اسی نوعیت کےجملے اُنھوں نےمنفرد شاعر افتخار بخاری اور چند دیگر لوگوں سے بھی پہلی ملاقاتوں میں کہے تھے ۔

بلی آنکھوں، خشک ہونٹوں، ناپ تول کر بات کرنے، تکلّف روارکھنے، لباس سے بےپروا مگر ہمیشہ قمیص، پتلون میں ملبوس رہنے والے آصف فرخی پہلی ملاقات میں جس عُمر کے نظر آئے، آخری دنوں تک (سوائے آخری دو تین برسوں کے)اُسی عمر کے نظر آتے رہے۔ اُن کی ظاہری وضع میں سفید ہوتے بالوں، آنکھوں تلے گہرے ہوتے حلقوں اور گردن پر بڑھتی جھریوں میں اضافہ اتنا غیر محسوس تھا کہ وہ ایک ہی عُمر پر ٹھیرے نظر آتے۔

البتہ اُن کی داخلی شخصیت کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، جن میں اُن کے مزاج میں واضح تبدیلیاں آئیں۔ پہلا دَور پچاس برس کی عُمر تک کا تھا، دوسرا دَورکراچی لٹریچر فیسٹیول کے اجرا اور اس کے شریک صدرکا تھا اورآخری دَور اُن کی وفات سے دو تین برس پہلے شروع ہوتا تھا۔ اسلام آباد میں اُن سے چند ہی ملاقاتیں رہیں۔ البتہ ذاتی مراسم تب قائم ہوئے، جب مَیں مستقل طور پر کراچی منتقل ہوگیا۔

کراچی آکر مَیں نے اصل آصف فرخی کو جانا۔ جنوں پیشہ آصف فرخی، آصف فرخی ایک حسّاس انسان، ایک فرماں بردار بیٹے، کُھلے دروازے اور وسیع دستر خوان والے میزبان، بڑے سے بڑا غم اپنے اندر پی جانے، جذب کرلینےوالے آدمی، اپنے زخم دوسروں سے چُھپا رکھنے والے گہرے، منضبط مزاج، بڑےحوصلے والے دوست، ادب وفن سے گہرا لگاؤ بلکہ مجنونانہ عشق رکھنے والے ایک ایسے ادب پرور ادیب، جنھوں نے بے شمارلوگوں کو متعارف کروایا۔ اُن کی تحسین کی مگر نہ تو اپنی تخلیقات پرچھاتی پھیلائی اور نہ ہی اپنے زیرِ اہتمام پروگرام اپنی تحریروں کے حوالے سے کروائے بلکہ اپنی تخلیقی کاوشوں پرعجز کا رویہ اختیار کیا۔ 

اُن چند قیمتی لوگوں میں سے ایک، جنھوں نے انگریزی اوراردو کے درمیان رابطے کاکام سر انجام دیا، ایک ایسا آدمی، جو اپنی زندگی کی آخری دہائی میں نام و نمود کی غرض رکھنے والے غرض مندوں میں یوں گِھر گیا کہ مخلص دوستوں اورغرض سے آلودہ لوگوں میں تفریق مشکل ہوگئی۔ ایک ایسا متین، وضع دار شخص، جس کے لبوں سے مَیں نے نہ تو دشنام سُنی اور نہ ہی اُسے کسی کی دل آزاری کرنے والا تلخ لب ولہجہ اختیار کرتے دیکھا۔ جب اُن کے خلاف کی گئی غیبت اُن تک پہنچتی تو بس دُکھی ہوکر خاموش ہوجاتے۔ اور یہ مَیں نے بارہا دیکھا۔ 

وہ تجزیہ کاراورناقد تھے،قلم اُن کے ہاتھوں میں تھا اوراُن کی تحریر دانش وَروں سے لےکر عام آدمی تک اپنا اثر رکھتی تھی، مگر اُنھوں نے اپنی کسی تحریر سے کسی کا دل نہیں دُکھایا، نہ تو کسی کو تضحیک کا نشانہ بنایا اور نہ ہی کسی کا قد چھوٹا کرنے کی کوشش کی۔ موجودہ دَور میں یہ بہت اہم اور قابل توجّہ خوبی ہے۔ وہ یہ سب کرسکتے تھے، مگر اُن کی خاندانی نجابت اور مزاج کی متانت و وضع داری اُنھیں ایسا کرنے سے تو کُجا، سوچنے سے بھی روکتی تھی۔ 

 اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے اور بین الاقوامی سطح کے اداروں میں ملازمت کرنے والے متموّل آدمی کو مَیں نے اتوار بازار میں کتابوں کے بیچ فٹ پاتھ پر بیٹھےزیادہ مطمئن پایا، بہ نسبت پنج تارہ ہوٹل کے اسٹیج پر براجمان ہونے کے۔ وہ چائے خانے کے بیرے سے شگفتگی سے مذاق کر لیتے، جب کہ بالائی طبقے کے کسی رئیس اور خودساختہ دانش وَر سے بات کرتے ہوئے جیسے سر پر کوئی بوجھ اٹھائے نظر آتے۔ جب کوئی اچھی کتاب پڑھتے تو سب سے پہلے اپنی بیٹیوں کو پڑھنے کو دیتے۔ جب بیٹیاں یکے بعددیگرے شہر سے باہراداروں میں تعلیم حاصل کرنے گئیں تو خاص اہتمام کر کے اُن سے ملاقات کو جاتے۔ (جاری ہے)