• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اس وقت تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال سے دوچار ہے، جس کے سبب ملک میں عدم استحکام کے بڑھنے کا خدشہ ہے،خدانخواستہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ وہ اگر اپوزیشن میں آگئے تو زیادہ خطر ناک ثابت ہوں گے،اِن تمام حالات اور معاملات سے ملک کی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے، کاروباری طبقہ پریشان دکھائی دے رہا ہے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک جانب وفاقی حکومت کو اپوزیشن سے سخت مقابلے کا سامنا ہے تو دوسری طرف سندھ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑھتا ہوا تنازع لسانی رخ اختیار کرتا جارہا ہے جس سے صوبے میں ایک بار پھر زبان کی بنیاد پر شہریوں کی تقسیم اور چشمک کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ سندھ میں نئے بلدیاتی بل کو تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کردیا ہے، جماعت اسلامی نے طویل دھرنا دیا تو ایم کیو ایم نے وزیر اعلی ہائوس کی جانب مارچ کیا اور دھرنا دیا، ان کے دھرنے پر پولیس تشدد اور ایک شخص کی ہلاکت کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے،افسوس ناک بات یہ کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں اب برداشت کا مادہ گویا ختم ہوگیا ہے، ان میں اپوزیشن کو سننے یا ان سے مشاورت کرنے کا رواج ناپید ہوگیا ہے، یہ عمل ماضی میں جب بھی سامنے آیا اس کا نقصان قوم کو جمہوری عمل سے ہاتھ دھونے کی شکل میں اٹھانا پڑا، قوم سڑکوں پر نکلی، ملک کے معاشی حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو پھر تیسری قوت کو خاموش تماشائی بنے رہنے کے بجائے ملک کو مشکل سے نکالنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا پڑا، جس کی ہمیشہ قوم کی بڑی تعداد نے حمایت کی، مٹھائیاں تقسیم کیں، ایک دوسرے کو مبارک باد دی، مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس عمل سے کئی مرتبہ گزرنے کے باوجود ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو عقل نہیں آئی۔2018کے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی نے وفاق میں حکومت بنائی، وزیر اعظم عمران خان کو موقع ملا تھا کہ وہ اپنے انتخابی نعروں کو عملی شکل دے کر قوم کے دل جیت لیتے مگر پچھلے ساڑھے تین سال کے دوران انہوں نے اپوزیشن، میڈیا، تاجر برادری ہر ایک کیساتھ جنگ جاری رکھی، کرپشن، چور ڈاکو کی گردان کے علاوہ کوئی کام نہ کرسکے،لوٹی ہوئی دولت واپس لانے،غیر ملکی قرضہ نہ لینے، مہنگائی روکنے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے، فضول خرچی ختم کرنے سمیت ان کے بیشتر دعوے دھر کے دھرے رہ گئے،انہوں نے صرف اپنی کابینہ میں ہی تبدیلیاں کیں، ملک میں کوئی تبدیلی نہ لاسکے۔ ایک وقت تھا جب ان کی مخالف سیاسی جماعتیں ان کے دبائو میں ہوتی تھیں، اب وہ ان کے دبائو میں ہیں،عوام نے چور، ڈاکو کے ان کے نعروں کو اب ان سے اور ان کی جماعت سے موسوم کرنا شروع کردیا ہے،ایسا لگتا ہے کہ اگلے انتخابات میں انہیں امیدوار نہیں مل سکیں گے، کے پی کے بلدیاتی انتخابات اور قومی و صوبائی اسمبلی کے کئی ضمنی انتخابات کے نتائج سے اب خود ان کے اتحادیوں کو اپنی سیاسی ساکھ کی فکر لاحق ہوگئی ہے،ان پر بھی اپنے ووٹرز اور کار کنوں کا دبائو بڑھ رہا ہے۔ مہنگائی، گرانی، بے روزگاری کے ساتھ خطرناک بات امن وامان کی صورت حال کے حوالے سے سامنے آرہی ہے، سیکورٹی اداروں پر حملے، دھماکے ملک کے لیے اچھی علامت نہیں،ہمارے سیکورٹی اداروں نے بڑی محنت اور قربانی سے ملک میں امن بحال کیا ہے،مگر ساڑھے تین سال کے دوران نیشنل ایکشن پلان کے مکمل طور پر غیر فعال ہونے کی وجہ سے دہشت گردوں کو سر اٹھانے اور منظم ہونے کا موقع مل رہا ہے،ایسے میں بے روزگار نوجوان اور مہنگائی سے پریشان حال لوگ ان کا آلۂ کار بھی بن سکتے ہیں۔دوسری جانب وفاقی حکومت نے سندھ اور بلوچستان کے بدلتے ہوئے سیاسی اور امن کے حوالے سے حالات پر نگاہ مرکوز نہ کی تو بھارت کو بھی موقع ہاتھ آجائے گا کہ وہ اپنے ایجنٹوں کو دوبارہ سے فعال کر کے ان دونوں صوبوں میں افراتفری پیدا کر کے اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھاسکے۔کراچی جو ملک کا معاشی حب ہے، اس وقت جس صورت حال سے دوچار ہے اس پر وفاقی حکومت کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، کراچی کی اہم شاہراہیں ٹوٹی ہوئی ہیں،گیس کی قلت سے گھریلو صارفین پریشان ہیں تو دوسری جانب سی این جی کا کاروبار کرنے والے بدحال ہوگئے ہیں، کھربوں روپے کی صنعت ہچکولے کھارہی ہے، کئی ملازمین بے روزگار ہوگئے، نااہل وزارت پیٹرولیم کے حکام چین کی بانسری بجارہے ہیں، وزیر اعظم براہ راست متاثرہ افراد سے ملاقات کے بجائے وزیروں اور سیکرٹریز کی رپورٹس پر انحصار کر کے ملکی معاشی صورتحال کے بہتری کی جانب گامزن ہونے کی باتیں کررہے ہیں،بے مقصد وزیروں کی فوج ظفر موج نے انکے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے، اب جبکہ وفاق میں حکمراں جماعت کو پی پی اور پی ڈی ایم کے لانگ مارچ اور دھرنے کا سامنا ہونے والا ہے تو دوسری طرف وفاق کو للکارنے والی پیپلز پارٹی کو اپنے صوبے میں اپوزیشن کی یلغار کا سامنا ہے،سندھ میں حالات کو بہتر بنانے پر توجہ نہ دی گئی تو حالات سنگین ہوسکتے ہیں۔

ملک میں اس وقت ایک نئی بحث بھی جاری ہے کہ پارلیمانی نظام فرسودہ ہوگیا ہے صدارتی نظام کو آزمایا جائے،میڈیا پر ہونے والی اس بحث میں شہریوں نے بھی دلچسپی لینا شروع کردی ہے،ملک میں مستقبل کے طرز حکومت کے حوالے سے اگلے دو ماہ اہم ہیں، سیاست میں کچھ بھی ہو مگر ہمیں اپنی ریاست کو محفوظ رکھنا ہوگا، جس کی سلامتی اور خوش حالی میں ہی ہماری بقا ہے۔

تازہ ترین