قاری حامد محمود الحسینی
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور تیرے رب نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو‘ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کی حد کو پہنچ جائیں تو تم انہیں اُف بھی نہ کہو اور نہ ان پر خفا ہو ‘ اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب‘ عزت اور نرم لہجے میں بات چیت کرو‘ اور ان کے لئے اطاعت کا بازو محبت سے بچھا دو اور کہو اے پروردگار ،تو ان کی کمزوری میں ان پر ایسا ہی رحم فرما جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں مجھے مہربانی سے پالا پوسا ہے۔ (سورۂ بنی اسرائیل)
یہ ایک حقیقت ہے کہ والدین انسان کے دنیا میں آنے کاباعث اور ذریعہ ہوتے ہیں۔ انسان کا وجود والدین کے مرہون منت ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ، نیز جہاں شرک سے اجتناب کی تعلیم دی ، وہیں والدین کے ساتھ صحیح روش اپنانے کی بھی ترغیب اور حسن سلوک کی تعلیم دی ،والدین کے بارے میں آپ ﷺ کے فرامین میں بھی حسن سلوک کی تعلیم ملتی ہے،جس طرح والدین نے بچپن میں اولاد پر رحم کیا، ان کی ضروریات کا لحاظ کیا ،ان کے دکھ درد کو اپنادرد سمجھا،ان کی ضرورت کو اپنی ضرورت خیال کیا، ان کی تکلیف دور کرنے میں حتیٰ الا مکان سعی کی،اسی طرح بڑھاپے میں اولادکے لیے ضروری ہے کہ وہ والدین کو نعمت سمجھیں، ان کی خدمت اپنے لئے اعزاز قرار دیں ،اپنے گھر ان کا قیام اپنے لیے رحمت تصور کریں۔ آپ ﷺ نے اقوال وافعال سے اسی کی تعلیم دی۔
آپﷺ نے والدین کے ساتھ رحیمانہ سلوک کا معاملہ فرماتے ہوئے امت کو اس بات کی تعلیم دی کہ والدین کی اطاعت وفرماں برداری اپنے لئے لازم کرلو۔بصورت دیگر والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہ شمار کیا، کبیرہ گناہ وہ ہے جو بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا ، ایک موقع پر آپﷺ نے صحابہ کرامؓ سے استفسار کرتے ہوئے فرمایا:’’کیا میں تمہیں کبائر میں سے کبیرہ گناہ کی خبر دوں؟صحابہؓ نے عرض کیا، کیوں نہیں، یارسول اللہ ﷺضرورضرور خبر دیں۔ آپﷺ نے فرمایا:’’کبیرہ گناہ شرک اور والدین کی نافرمانی ہے‘‘۔(بخاری:۶۶۷۵)
اسلام میں والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہ شمارکیاگیا، یعنی کسی مسلمان سے کبیرہ گناہ کی توقع نہیں ہو سکتی ،اس لیے کوئی بھی مسلمان کبیرہ گناہ کے تصور سے والدین کی نافرمانی سے دور رہے ۔ ایک موقع پر آپﷺ نے پانچوں نمازوں کی ادائیگی کے اہتمام کرنے والے اور کبائر سے بچنے والے کو جنت کی بشارت دی۔ جن نیکیوں کی وجہ سے بندہ جنت کا مستحق ہوتا ہے۔ ان ہی میں سے ایک والدین کی نافرمانی سے احتراز بھی ہے۔
ایک موقع پر آپ ﷺ نے والدین کی اطاعت وفرماں برداری کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے فرمایا:روز محشر اللہ تعالیٰ تین آدمیوں پر نظر التفات نہ فرمائے گا، ان میں سے ایک والدین کی نافرمانی بھی ہے،نیز فرمایا: تین لو گ جنت میں داخل نہ ہوں گے، ان میں ایک والدین کا نافرمان بھی ہے۔(الترغیب والترھیب:۳۷۷۴)
آپﷺ نے ماں کا مقام باپ سے زیادہ عظیم بیان کیا: چنانچہ ایک صحابی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کرنے لگے کہ میرے سب سے زیادہ احسان کا کون مستحق ہے؟ آپ ﷺ نے تین دفعہ ماں کا تذکرہ کیا ،چوتھی دفعہ والد کا ذکر کیا۔ (بخاری:۵۶۲۶،)آپ ﷺ اکثر و بیشتر دونوں کے ساتھ حسن سلوک کا تذکرہ فرماتے کبھی ایک کی ہی تخصیص فرماتے، ایک موقع پر ایک بدو صحابیؓ آپ ﷺ سے سوال کرنے لگے کہ کس کے ساتھ وہ حسن سلوک کریں۔ آپ ﷺ نے دودفعہ والدہ کا تذکرہ کیا، تیسری دفعہ والد کا ذکر فرمایا۔(بخاری:۵۹۷۱،)
ایک موقع پر آپ ﷺ نے والدہ کی عظمت واہمیت بیان کی کہ :جنت کی تلاش کا آسان راستہ والدہ کی خدمت سے طے ہوتا ہے جو شخص جنت کامتلاشی ہو، وہ فرائض و اجبات کی ادائیگی کے ساتھ والدہ کی خدمت کو لازم پکڑلے۔
ایک موقع پر آپﷺ سے ایک صحابی ؓ نے سوال کیا کہ میں نے اپنی والدہ کی فلاں فلاں موقع پرخدمت کی، کیا اس طرح میری والدہ کا حق ادا ہوگیا؟آپ ﷺ نے فرمایا، تمہاری پیدائش پر والدہ نے جو تکلیف سہی، اس کا بھی حق ادانہ ہوا۔ ایک باپ جو صبح سے شام تک اولاد کی پرورش اور ان کی تربیت کے سلسلے میں بے چین رہتا ہے ،وہ اس خیال میں محو رہتا ہے کہ اخراجات کی تکمیل کیسے ہو؟ اس کا مقام بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا : باپ جنت کے دروازوں میں بیچ کادروازہ ہے ،اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اسے ضائع کردے :(ترمذی:۱۹۰۰)یعنی آپﷺ نے والد کا مقام ومرتبہ بیان کرتے ہوئے اولاد کے مال میں والد کااستحقاق قرار دیا۔
انسان کی پیدائش کامقصد ہی یہ ہے کہ اللہ کو راضی کرے،اسے حاصل کرنے کا آسان طریقہ آپ ﷺ نے بیان فرمایا: بندے سے اللہ کار اضی ہونا اوراس کا ناراض ہونا والدین کی رضامندی وناراضی پر موقوف ہے۔(مفہوم حدیث)
آپﷺ نےارشاد فرمایا:’’رب کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے، رب کی ناراضی والد کی نارضی میں ہے۔ والدین کی رضامندی کو آپ ﷺ نے کتنا اہم قرار دیا کہ ان کی رضامندی پر اپنی رضامندی موقوف کردی، والدین کو ناراض رکھ کر اللہ کوراضی کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
جنگ کا موقع ہو یا ہجرت کا ، ایسے مواقع پر آپ ﷺ صحابہ کرامؓ کو اس بات کی تلقین فرماتے تھے کہ والدین کو راضی کیے بغیر ہجرت نہ کرو،نہ ہی والدین کو راضی کئے بغیر جہاد میں جائو ، چنانچہ ایک صحابیؓ نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر جہاد میں شرکت کے عزم کا اظہار کیا، اس سلسلے میں آپ ﷺ سے مشورہ طلب کیا۔
آپ ﷺ نے سوال کیا کہ کیا تمہاری والدہ حیات ہیں؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا، آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں لازم پکڑے رہو،یعنی ان کی خدمت میں مصروف رہو۔اسی طرح آپ ﷺ نے ایک موقع پر صحابی سے استفسار کیا کہ کیا تمہارے والدین حیات ہیں؟ انہوں نے ہاں میں جواب دیا،آپﷺ نے فرمایا:ان کی خدمت میں جہاد ہے۔(مفہوم حدیث)
ایک صحابی جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر یمن سے تشریف لائے،آپ ﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ کیا یمن میں تمہارے کوئی رشتے دار حیات ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ والدین زندہ ہیں۔ آپﷺ نے ان سے والدین کی اجازت کے بارے میں سوال کیا۔صحابیؓ نے نفی میں جواب دیا، تو آپﷺ نے فرمایا:جاؤ، ان سے اجازت لو۔ اگر اجازت نہ ملے تو ایسی صورت میں ان کے ساتھ ہی حسن سلوک میں مصروف رہو۔(سنن ابودائود)
ایک صحابیؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپﷺ کے دست اقدس پر ہجرت کےلیے بیعت کرنا چاہتے تھے۔ آپﷺ نے ان سے والدین کی بابت دریافت کیا ، انہوں نے جواب دیا کہ جب میں ہجرت کے ارادے سے نکل رہاتھا تو وہ رورہے تھے۔ اس موقع پر آپ ﷺ نے انہیں یہ کہہ کر واپس لوٹا دیا کہ جاؤ جیسے والدین کو رلا کر آئے ہو، ویسے ہی انہیں اب راضی اور خوش کرکے آؤ۔(الترغیب والترھیب)