جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظر ثانی درخواستیں خارج کرنے والے ججز کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا۔
100صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے، جسٹس منیب اختر کا اضافی نوٹ بھی تفصیلی فیصلے میں شامل ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین نے نظر ثانی درخواستیں خارج کی تھیں۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی درخواست سمیت دیگر تمام نظر ثانی درخواستیں خارج کی جاتی ہیں، ججز بھی دیگر افراد اور پبلک آفس ہولڈرز کی طرح غلطیوں پر قابل احتساب ہیں۔
فیصلے کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز کے خلاف شکایت آئی، جج کے خلاف سامنے آنے والے مواد پر وضاحت دینا عدلیہ کی ساکھ بچانے کے لیے ضروری ہے۔
اختلافی اقلیتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسٰی کی اہلیہ اور بچوں کے ٹیکس معاملات پر آرٹیکل 184 (3) کے اطلاق نہ ہونےکی دلیل میں وزن نہیں، جسٹس فائز عیسیٰ اپنے اور اہل و عیال کے اثاثوں کی تفصیل دینے کے پابند ہیں۔
اختلافی اقلیتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پبلک آفس ہولڈرز پر لاگو قوانین کا اطلاق ججز پر بھی ہوتا ہے، جج کی انکوائری کے لیے جوڈیشل کونسل کا اعلیٰ فورم موجود ہے۔
اختلافی اقلیتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسٰی چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تھے جب 2013 میں لندن پراپرٹیز خریدی گئیں۔
اختلافی اقلیتی فیصلے میں کہا گیا کہ طاقتور کے سامنے سچ بولنے سے ہچکچانا نہیں چاہیے، ججز معاشرے کی ایلیٹ کلاس میں آتے ہیں، قرآن پاک میں عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے، معاشرے میں احتساب کا دہرا معیار بگاڑ پیدا کرتا ہے، بڑے لوگوں کو چھوڑ دینا اللّٰہ پاک کی حاکمیت کے انکار کے مترادف ہے، جج کی ذمہ داری ہے کہ سچ کی تلاش کرے اور انصاف پر مبنی فیصلہ دے۔
اختلافی اقلیتی فیصلے میں کہا گیا کہ آئین پاکستان پبلک سرونٹس یا شہریوں کو مالی معاملات کی تحقیقات سے چھوٹ نہیں دیتا، ایف بی آر کی سرینا عیسیٰ کے خلاف تحقیقات سے ان کی عزت اور آزادی میں کوئی فرق نہیں آیا۔
اختلافی اقلیتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سرینا عیسیٰ نے مرکزی کیس میں عدالت میں بیان میں کہا کہ وہ ایف بی آر کی جانب سے سوالات کا 13 ماہ انتظار کرتی رہیں۔
اختلافی اقلیتی فیصلے میں کہاگیا کہ غلط تاثر دیا گیا کہ سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا، جسٹس فائز عیسیٰ نے دلائل کے دوران کہا کہ دھرنا کیس کے فیصلے کی وجہ سے ان کے خلاف انکوائری کھولی گئی، جج کے خلاف ریفرنس میں بدنیتی شامل ہونے کے تاثر محض خیالی، غیر معقول اور غیر متعلقہ ہے۔
اختلافی اقلیتی فیصلے میں کہا گیا کہ وزیر قانون کے کہنے پر ایسیٹ ریکوری یونٹ کی تحقیقات کا معاملہ اب بند ہو چکا، جسٹس فائز عیسیٰ نے لندن پراپرٹیز سے لاتعلقی کا اظہار کیا، پراپرٹیز کی خریداری کے ذرائع پر کوئی جواب نہیں دیا، اکثریتی ججز نے بنچ کے کسی رکن یا متعلقہ فورم کو جسٹس فائز عیسیٰ سے متعلق موجود مواد کو جانچنے سے نہیں روکا۔