• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گائیکی کی مہان دیوی،سُروں کی دنیا کی عظیم ملکہ اوربرصغیر کی شہرہ آفاق گلوکارہ لتا منگیشکرمہلک مرض کورونا سے زندگی کی جنگ ہار کر اس دار فانی سے کوچ کر گئیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہر دور میں مالک نے کچھ ایسے عظیم انسان دنیا میں بھیجے ہیں جو اپنی زندگی کسی نیک مقصد کیلئے وقف کردیتے ہیں وہ جب تک دنیا میں رہتے ہیں ، امن و سلامتی کا پیغام عام کرتے ہیں اور جب چلے جاتے ہیں تو ان کے چاہنے والے ان کے غم میں نڈھال ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ برس میں اپنے پیارے بھائی ڈاکٹر پریم کمار وانکوانی کی اچانک وفات پر اپنے آنسو روک نہ پارہا تھا اور آج لتا دیدی کے جانے کے بعد میرا دل شدتِ غم سے اداس ہے، اس وقت میرے ذہن میں لتا جی کے گائے ہوئے وہ لافانی گانے گونج رہے ہیں جو اردو /ہندی سمجھنے والا ہر شخص ہوش سنبھالتے ہی سنتارہا ہے، آج کوئی ایسا شخص نہیں جس نے کبھی لتا جی کا گانا نہ سنا ہوا، لتا دیدی کا گانا گزشتہ نصف صدی سے برصغیر کی ہر شادی بیاہ کی تقریب اور گاڑی میں بجتا آرہا ہے۔بے شک ان کی وفات سے موسیقی کی دنیا کا ایک عہد تمام ہو،سر لے تال میں لتاجی کا کو ئی ثانی نہ تھا نہ ہے اور نہ رہے گا، ان کی سریلی آواز نے کئی دہائیوں تک ریڈیو، ٹی وی، سینما ، تھیٹرمیں اپنے مداحوں کو مسحور کیا۔حقیقت یہ ہے کہ جیسے خدمتِ انسانیت ایک پاکیزہ جذبہ، ایک کیفیت، ایک احساس کا نام ہے ، اسی طرح فن اور موسیقی کی دنیا بھی سرحدی پابندیوں سے مبرا اورہرقسم کے تعصب سے بے نیازہوتی ہے ۔لتا منگیشکر 28ستمبر 1929کو بھارت میں پیدا ہوئیں ،وہ ایک فنکار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں، ان کے والد پنڈت دینانتھ تھیٹر اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ مشہور کلاسیکل سنگر بھی تھے،لتا جی نے بہت کم عمری میں موسیقی کی ابتدائی تربیت استاد امان علی خان اور امانت خان سے لینا شروع کر دی تھی۔ مراٹھی پس منظر کی حامل لتا منگیشکر کو سروں کی دنیا میں اپنا نام اور مقام بنانے کےلئے بہت محنت کرنا پڑی، اس زمانے کے مشہورمیوزک ڈائریکٹر محمد شفیع نے لتا منگیشکر کو اردو زبان کا تلفظ سیکھنے اور لب و لہجہ کی درست ادائیگی کرنے میں کافی مدد کی، ان کی انتھک محنت نے آخرکار انہیں وہ مقام عطا کردیا کہ بالی وڈ کی فلموں کی کامیابی کی ضمانت ان کی

پس منظر گائیکی قرار پائی۔ لتا منگیشکر ایک نہایت سادہ، سلجھی ہوئی اور وضع دار شخصیت کی مالک تھیں، وہ ہمیشہ اپنے سینئرز کا دل سے احترام کرتی تھیں، انکے مداحوں کا تعلق ہر مذہب کے ماننے والوں سے ہے۔ لتا جی پاکستان سے خصوصی لگاؤ رکھتی تھیں، وہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی صوفی موسیقی کی دنیا کی بے تاج ملکہ عابدہ پروین اور میڈم نور جہاں جیسی عظیم گلوکارہ کی بہت عزت کرتی تھیں،میڈم نورجہان سے ان کی دوستی بہت قریبی تھی ۔ آج لتا جی کی وفات پر پاکستان میں بھی سوگ منایا جارہا ہے، وزیراعظم عمران خان سمیت متعدد حکومتی ،سماجی اور شوبز شخصیات ان کی خدمات کا اعتراف کررہی ہیں، لتا جی کے انتقال کی خبر منظرعام پر آتے ہی پاکستان میں ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا،پاکستان کا ہر سوشل میڈیاصارف لتا دیدی کے غم میں انکے ماضی کے گانے شیئر کررہا ہے۔انہوں نے اپنے نصف صدی سے زائد کے کیریئر میں پچاس ہزار سے زائد گیت مختلف زبانوں میں گائے، ان کا آخری گیت پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے پس منظر میں فلمائی گئی ایک فلم ’’ویر زارا‘‘کیلئے سپرہٹ ثابت ہوا۔ تاہم کتنے افسوس کی بات ہے کہ لتا دیدی دل میں کچھ حسرتیں لے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئیں، ان کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ وہ پاکستان کا دورہ کریں، اپنے پاکستانی مداحوں سے ملیں ، بالخصوص لاہور آکر پرفارم کریں۔وہ اپنے متعدد انٹرویو ز میں اس خواہش کا اظہار کرتی تھیں کہ اگر سرکاری طور پر انہیں پاکستان مدعو کیا گیا تو وہ فوری طور پردعوت قبول کر یں گی، لیکن حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ انہیں اپنی بانوے سالہ عمر میں ایک مرتبہ بھی پاکستان کی دھرتی پر قدم رکھنے کا موقع نہیں مل سکا، لتا جی کی بہن آشا بھوسلے بھی موسیقی کی دنیا میں اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں،میری اب کوشش ہوگی کہ آشا جی کو دورہ پاکستان کی دعوت دے کر لتاجی کی آتما کو شانتی پہنچائوں۔میں چاہتا ہوں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین مذہبی سیاحت کا فروغ تازہ ہوا کا ایک ایسا جھونکا ثابت ہوجس سے دونوں ممالک کے امن پسند حلقے مستفید ہوسکیں۔میں دونوں ممالک کی حکومتوں سے کہنا چاہوں گا کہ لتا دیدی کی یاد میں ایک ایسا دن منایا جائے جوسرحدی بندشوں سے مبرا ہو، دونوں ممالک کا میڈیابرصغیر کے ایسے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کیلئے خصوصی پروگرام نشر کرے جنہوں نے اپنی زندگیاں امن و محبت کا پیغام عام کرنے کیلئے وقف کردی ہیں، اس دن ہر مذہب کا احترام یقینی بنانے پر زور دیا جائے۔اپنے اس کالم کا اختتام میں لتا دیدی کے گائے گئے اپنے پسندیدہ ترین گانے سے کرنا چاہوں گا جو میں گاہے بگاہے گنگناتا رہتا ہوں، یہ زندگی اُسی کی ہے جو کِسی کا ہوگیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین