• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی معیشت کی ترقی کی رفتار کس طرح تیز کی جائے؟

ایک ایسے وقت میں جب عالمی معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، معاشی سربراہان کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہے کہ وہ نا صرف مستقبل قریب میں ترقی کی رفتار تیز کریں بلکہ آنے والے برسوں کے لیے مزید لچکدار اور پائیدار معیشت کی بنیاد رکھیں۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ دنیا ایک مشکل معاشی صورتِ حال سے دوچار ہے۔

جنوری میں، بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے رپورٹ جاری کی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی معاشی نمو گزشتہ سال کے 5.9 فیصد سے کم ہوکر 2022ء میں 4.4 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ یہ اکتوبر میں کی گئی پیش گوئی سے نصف فیصد کم ہے۔ اس کمی کے ساتھ ساتھ، بہت سے ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ مسلسل افراط زر معاشی فوائد کو جزوی طور پر ختم کر دے گا، جب کہ افراطِ زر کا مقابلہ کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ سرمایہ کاری کو سست کر ے گا۔ آئی ایم ایف کے مطابق، اس سے پریشان کن بات یہ ہے کہ کم آمدنی والے ممالک میں سے 60 فی صد قرض کے شدید دباؤ کے خطرے میں ہیں۔

یقیناً یہ بہت بڑے چیلنجز ہیں لیکن ان چیلنجز میں مواقع بھی موجود ہیں۔ اگر معاشی سربراہان نا صرف معیشتوں کو بحال کرنے کے لیے پالیسیاں وضع کریں بلکہ قلیل، وسط اور طویل مدت میں مشترکہ ترجیحات کا بھی تعین کریں، تو اعتماد کو فروغ دینے اور لچک پیدا کرنے کا ایک موقع میسر آسکتاہے، جو کہ معاشی صحت کے لیے آج اور مستقبل میں کلیدی اجزاء ہیں۔

جامع معاشی نمو

فوری طور پر، ہمیں یہ یقینی بنانا چاہیے کہ عالمی معاشی ترقی زیادہ جامع ہو۔ بہت سی ترقی یافتہ معیشتوں کے لیے امید افزا پیشین گوئیاں ہیں، جیسا کہ چین جس نے گزشتہ سال اپنی برآمدات میں 675 ارب ڈالر سے زیادہ کا اضافہ دیکھا ، جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 26 فیصد زائد ہے۔ لیکن یہ خطرہ باقی ہے کہ زیادہ تر ابھرتی اور ترقی پذیر معیشتوں میں بحالی میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو یہ انحراف نا صرف سنگین عالمی اقتصادی نتائج بلکہ انسانی ہمدردی کے بحران کا بھی باعث بنے گا۔

زیادہ مساوی بحالی کو فروغ دینے کا ایک طریقہ کم مالی اعانت والی معیشتوں کو پائیدار سرمایہ کاری فراہم کرنے کا عہد کرنا ہے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ 2021ء میں مالیات کے عالمی بہاؤ میں 77 فیصد اضافہ ہوا، اور یہ قبل از کووڈ-19کی سطح کو پیچھے چھوڑ گیا۔ درحقیقت، چین نے سالانہ 20فیصد اضافہ کے ساتھ ملک میں ریکارڈ 179 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی۔ اس کے باوجود، عالمی ایف ڈی آئی اب بھی نازک ہے، کیونکہ کورونا وائرس کی نئی اقسام، مختلف قسم کے عوامل اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں سرمائے کے بہاؤ میں رکاوٹیں پیدا کرسکتی ہیں۔

ڈیجیٹل میں سرمایہ کاری

درمیانی مدت میں، ہمیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو تیزی سے اختیار کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ عالمی معیشت تیزی سے ٹیکنالوجیکل ترقی اور توسیع سے گزر رہی ہے، جسے چوتھا صنعتی انقلاب قرار دیا گیا ہے۔ آنے والے پانچ سے دس برسوں میں ہر ایک کمپنی کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ٹیکنالوجی اور اختراع اس کے ڈی این اے کا حصہ ہیں۔ درحقیقت، اس عشرے میں ایک اندازے کے مطابق 70 فیصد قدر ان کاروباری ماڈلز سے آئے گی جو ڈیجیٹل ایپلی کیشنز پر انحصار کرتے ہیں۔ سیمی کنڈکٹرز کی حالیہ کمی اور اس کے نتیجے میں ریاست ہائے متحدہ امریکا، یورپی یونین اور چین میں چپس کی تیاری پر توجہ، تیزی سے ڈیجیٹل تبدیلی کا صرف ایک اشارہ ہے۔

عالمی معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن ہی وہ وجہ ہے کہ چین کے 14ویں پانچ سالہ منصوبے میں ’’ڈیجیٹل معیشت کی بنیادی صنعتوں‘‘ کو 2025ء تک ملک کے جی ڈی پی کا 10 فیصد بنانے کا اعادہ کیا گیا ہے، جو کہ 2020ء میں 7.8فیصد تھیں۔ ڈیجیٹل کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے باوجود، ایک اندازے کے مطابق 2.9 ارب افراد (عالمی آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ) نے کبھی انٹرنیٹ استعمال نہیں کیا۔

سبز منتقلی

طویل مدت کے لیے، ہمیں ’سبز‘ رہنے کا عہد کرنا چاہیے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی ہماری زندگی کا سب سے اہم چیلنج ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق، اگر ڈی کاربنائزیشن کی کوششیں نہ کی گئیں تو عالمی معیشت کو غیر معمولی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور آئندہ 30برسوں میں ممکنہ طور پر یہ 18فیصد تک سکڑ سکتی ہے۔ اس میں وہ تباہی شامل نہیں ہے جس کا سامنا ہمارے سیارے کو حیاتیاتی تنوع اور انسانی زندگی کے نقصان کی صورت میں کرنا پڑسکتا ہے۔

ہماری تمام ترجیحات ایک زیادہ منصفانہ، ڈیجیٹل، اور سبز عالمی معیشت - کا زیادہ تر انحصار عالمی تعاون پر ہے کیونکہ یہ ترجیحات بہت وسیع، بہت پیچیدہ اور ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہیں، جن پر ایک کمپنی یا ایک ملک انفرادی طور پر کام نہیں کرسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ان ترجیحات کے حصول کے لیے مل کر ایک دوسرے کی مدد اور تعاون سے اجتماعی اہداف طے کرتے ہوئے کام کرنا ہوگا۔