• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیا، پرانا آدمی ’آصف اسلم فرخی‘ (قسط نمبر…2)

واپسی پر کِھلے کِھلے، خوش باش، بات، بے بات مسکرائے جاتے۔ اُن کے نزدیک کسی تحریر کے معیارپر اُن کی رائے کو تب کامل تصدیق حاصل ہو جاتی تھی، جب اُن کی کوئی بیٹی اس پر مہرِ پسندیدگی ثبت کردیتی تھی۔ اُن کی بیٹیاں اُن کی دوست، اُن کا فخر اور اُن کا قیمتی ترین اثاثہ تھیں۔

آصف کو مَیں نے اپنے ادیب دوستوں کی بہ نسبت ڈاکٹر دوستوں میں زیادہ بےتکلف پایا۔ ڈاکٹر دوستوں کے بیچ وہ ایسے کھلنڈرے نوجوان بن جاتے، جیسےاب تک اکٹھے میڈیکل کالج میں پڑھ رہے ہوں۔ ادیب دوستوں میں اُنھیں محمّد حمید شاہد سے بے تکلف ہوتے دیکھا۔ چند لوگ اُن پر اعتراض کرتے تھے کہ وہ عموماً لیے دیے رہتے ہیں اور بعض اوقات شناساؤں کوبھی بھرپورتوجّہ نہیں دیتے۔ درحقیقت یہ اُن کے مزاج کاحصّہ تھا۔ ہرشخص دنیا میں اپنا الگ مزاج لےکر پیدا ہوتا ہے۔ اس سے توقع باندھنا کہ وہ لوگوں سے اپنے مزاج کے خلاف برتاؤ کرے، بے معنی خواہش ہے۔ 

درحقیقت اُن میں مروّت اتنی تھی کہ کسی کو صاف انکار نہیں کرسکتے تھے۔ آئے روز لوگ باگ ان کےسامنے مطالبات کی فہرست رکھ دیتے۔ وہ سُن لیتے، مروّتاً انکار نہ کرپاتے تو فقط ٹال دیتے۔ اُن کی وضع داری اُنھیں کسی کی خامی یا تخلیقی کم تری کو دو ٹوک بیان کرنے سے بھی روکتی تھی۔ دنیا کے لیے آصف اسلم فرخی میرے لیے میرے اپنے آصف صاحب تھے۔ جب مَیں عروس البلاد کراچی میں اجنبی تھا، یہاں کسی کو نہ جانتا تھا اور کمرے میں اکیلا پڑا چھت کو گھورتا یا کتابوں میں غرق رہتا تھا تو اُنھوں نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے کئی گھرانوں میں لے کر گئے، کتابوں کی دکانوں سے متعارف کروایا۔ 

ادیبوں ، فن کاروں سےملوایا اورفنونِ لطیفہ کےمراکزاورمباحثوں کے فورمز میں ساتھ لے کرگئے۔ مَیں لاہور سے غیر متوقع طور پرکراچی آیا تھا۔ اِس سے پہلے مَیں چند مرتبہ کراچی ایک روز سے چھے ماہ تک کی مدّت کےقیام کےلیےآچکاتھا۔ سرسبز وشاداب پنجاب جہاں بارشیں باقاعدگی سے ہوتی تھیں اورسال کے تمام موسم بھرپور طور پر نازل ہوتے تھے، جہاں لوگ شگفتہ مزاج تھے، پھول بُوٹےخُوش بُودار اور پھل، سبزیاں ذائقے دار، متنّوع تھے، جہاں ابھی احمد ندیم قاسمی، اے حمید، محمّدکاظم، محمّدارشاد، منیر نیازی، احمد بشیر، اشفاق احمد، بانو قدسیہ اور دیگر نادرِ روزگار ادیب اپنے چراغ جلائے بیٹھے تھے۔ جب کہ اِدھر کراچی کا یکساں موسم، نمکین سمندری ہوا کی مخصوص بُو، فلیٹوں کے جنگل، سُرخ اینٹ کے بجائے بلاکس سے تعمیرشدہ بےرنگ، بھدّی عمارات اورخشک مزاج ہمہ وقت مصروف لوگ زیادہ متاثر نہ کرتے تھے۔ سُن رکھا تھا کہ اگر کوئی کراچی میں ایک برس رہ لے، تو وہ پھر کسی اور شہرنہیں رہ سکتا۔ بہرحال، کہاوتوں اور بیانیوں سے زندگی کہاں گزرتی ہے۔ سَو مَیں واپسی کا ارادہ باندھنے لگا۔

مَیں کراچی جم خانہ کے سامنے واقع قصرِناز کے ایک کمرے میں مقیم تھا۔ چُھٹی کے ایک روز اخبار میں ایک بنگالی ساحرہ اورستارہ شناس عورت کا اشتہار دیکھا۔ بے سواد اور بےرنگ زندگی کسی دل چسپی کی تلاش میں تھی۔ سو، ٹیکسی لی اور پوچھتا پچھاتا اُس ساحرہ تک جا پہنچا۔ وہ ایک نچلے متوسط طبقے کے رہایشی علاقے میں واقع ایک عمارت کی دوسری منزل پر رہتی تھی۔ ٹیکسی کو روانہ کر کے مَیں نے زمینی منزل پر واقع ایک دکان دار سے اس نجومی عورت کے بارے میں پوچھا تو اُس نے بتایا کہ ’’وہ ڈائن ہے، جس نے اپنے شوہر کی پہلی بیوی کے حق پر ڈاکا ڈالا ہے اور ایک خوش باش گھرانے کو کھاگئی ہے۔‘‘ 

اس کےبعد اس دکان دار نے موصوفہ کے مزاج اور کردار پر سیرحاصل تبصرہ کیا۔ اُس کی گفت گو سُن کر مجھے ایک اطمینان ضرور ہوا کہ غیبت کے وہ دریا، جو مَیں لاہور میں بہتے چھوڑ آیا تھا، الحمدللہ کراچی میں بھی لبالب بہہ رہے تھے۔ یہ تو مجھے بعد میں پتا چلا کہ جنھیں مَیں کراچی کے دریا سمجھا تھا، وہ تو لاہورکے مقابلے میں فقط چند ندیاں، نالے ہی تھے۔ قصّہ مختصر، جب مَیں بنگالی ساحرہ کے سامنے بیٹھا تھا تو اُس کے بارے میں اتنا کچھ جانتا تھا،جتنا شاید اس کا کوئی بہت قریبی عزیز ہی جانتا ہوگا۔ 

اُس ساحرہ نے کوئی حساب کتاب لگا کرمجھ پر انکشاف کیا ’’تم سمندرکنارے واقع اس شہر میں طویل عرصہ رہوگے۔‘‘مَیں احتجاجاً منمنایا کہ میرا تو چند ماہ میں لاہور جانے کا ارادہ ہے تو اس نے دو ٹوک الفاظ میں نہ صرف اپنی پیش گوئی دہرائی بلکہ یہ انکشاف بھی کیا کہ مَیں اواخرِعُمرمیں بیرونِ ملک منتقل ہوجاؤں گا۔ یہ پیش گوئی تھی یا مشورہ،مَیں ہنوز تذبذب کا شکار ہوں۔ آج اس واقعے کو سولہ سترہ برس بیت چُکے ہیں اور مَیں جو کراچی چند ماہ کے لیے آیا تھا، اس شہر کا مستقل باسی ہو چُکا ہوں۔ میرے بچّے یہیں لڑکپن میں داخل ہوئے اور اب یہی اُن کا شہر ہے۔

کراچی اپنے ساکنوں پر آہستہ آہستہ کُھلتا ہے۔ یہ اس غلط العام مقولے ’’پہلاتاثر دائمی ہوتاہے‘‘ کی مکمل نفی کرتا ہے۔ کراچی کا اصل حُسن اس کے رہنےوالےہیں، وسیع القلب، جیو اورجینے دو کے اصول پر عمل پیرا، زبان کے پکّے، پیشہ ور، دوسروں کی زندگیوں میں مداخلت نہ کرنے والے، بقائے باہمی کے جذبے کے حامل شہری۔ زیادہ ترمتوسّط طبقے سے تعلق رکھنے والے، پڑھے لکھے، وضع دار اور درگزر کرنے والے، فلاحِ عامہ اور چندہ دینے میں سب سے آگے اورخوفِ خدا کا عملی مظاہرے کرنے والے۔ شاید اسی لیےایدھی، چھیپااورسیلانی جیسے بڑے فلاحی اداروں نے یہیں جنم لیا۔ کراچی کےلوگ عموماً کسی دوسرے کی ترقی پر خُوش ہونے والے لوگ ہیں۔

لاہور کی صُبحیں خُوب صُورت ہیں، تو کراچی کی شامیں سرشار کردینے والی، ہرشام ہوا مکانوں کےبیچ، شاہ راہوں اورگلی محلوں میں بہتی ہے، رات کو آسمان شفّاف اورروشن ہوتا ہے، دن بھر مسرت انگیز روشنی کِھلی رہتی ہے۔ قائداعظم کی کولونیل پرُوقار اقامت گاہ ہو یا موہٹا پیلس کا تعمیراتی شاہ کار، سُرخ کھپریل کی چھتوں والے مکان ہوں، مسیحی کلیسا، یہودیوں کے قبرستان، ہندوؤں کے رنگین گُل وگُل زار مندر، عاشورے پر ہندوؤں کے یک جہتی کےجلوس، پارسیوں کے آتش کدے، ہندوستانی گوا کے مسیحی ساکنوں کی نسل کے روشن خیال لوگوں کے کلب، یاہر علاقے میں کُھلے لائسنس یافتہ شراب خانے(یہ حقیقت مجھ نووارد کےلیےحیران کُن تھی کہ کراچی میں درجنوں شراب خانے فعال ہیں)۔

پرُنور باغوں والی کُھلی کُھلی کئی منزلہ مساجد ہوں، خواتین کا احترام (کسی سیاسی جماعت کے جلسے میں عورتوں سے بدتمیزی نہیں ہوتی، خواتین کئی عوامی پروگرامز میں اسٹیج پر گائیکی کا مظاہرہ کرتی ہیں، کوئی خواتین کے لباس پر معترض نہیں ہوتا)، فراک پہنے پارسی عورتیں، پان چباتے، پیک تھوکتے کاروباری کارندوں کے اُن کے مونہوں سے زیادہ تیزچلتے ہوئے دماغ ہوں یا گاہکوں کو بلاتفریق، بہ یک وقت بُھگتاتے مالک اور کارکن، پورا شہر روشنیوں میں یوں نہایا ہوا رہتا ہےکہ شہرِ’’چراغاں‘‘ کہلائےاورسمندر’’امن و شانتی‘‘۔ کہ نیلگوں، بے انت سمندر اپنی لہریں ساحل پر پٹکتا تو ہے، لیکن ہر طرف ایک عجیب سکون کا سا احساس بھی رہتا ہے۔ 

یہ سب کراچی کو خطّےکا منفرد شہر بناتے ہیں۔ جب مچھیرے سمندر سے واپس ہوتےتو برنس روڈ کا پکوان بازار، نہاری، بریانی، گولا کباب، حلیم، کڑاہی، تکّے، قورمے کی اشتہا انگیز مہک سے جاگ اٹھتا۔ نورانی راتوں میں ایک جانب ہزاروں فرزندانِ اسلام قمقموں سے روشن مدنی مسجد میں ’’اللہ ہُو‘‘ کے وِرد کے سحر سے بےاختیار ہوجاتے، تو دوسری جناب سندھ کلب کی رنگین راتوں کو ناچ ناچ کر تھکے، مخمور جوڑے اپنی گاڑیوں کے انتظار میں قطار بند ہوتے۔ یہ سب مجھ پر کُھلا، مگرآہستہ آہستہ!

ان مناظر اور تجربات کی پہلی کھڑکی مجھ پر آصف فرخی نےکھولی۔ کراچی میں قیام کے ابتدائی دِنوں میں ایک چُھٹی کے روز مَیں قصرِناز کے باغ میں کرسی ڈالے اخبار پڑھ رہا تھا کہ آصف صاحب کا فون آیا۔ پوچھا کہ مَیں کیا کررہا ہوں۔ مَیں نے بتایا کہ فارغ ہوں۔ وہ تھوڑی دیر میں آن موجود ہوئے اور مجھے صدر بازار میں واقع ریگل چوک پر فٹ پاتھ پر لگے پرانی کتابوں کے بازار لے گئے۔ وہاں ایک شناسا بیوپاری اُن کا منتظر تھا۔ اُس نےچند کتابیں اُن کےلیے نکال رکھی تھیں۔ 

وہ بے قرار ہوکر اُن کتابوں کی ورق گردانی کرنے لگے۔ پھرچند لمحوں میں اپنی جیب سے کچھ روپے نکال کر اُسے پکڑائے، کتابیں مجھےتھمائیں اور فٹ پاتھ پر رکھی کتابوں پر ’’دیوانہ وار‘‘ ٹُوٹ پڑے۔ اس دوران اُنھوں نے مجھے بتایا کہ اِن ہی فٹ پاتھوں پر اُنھیں کئی کتابوں کے مصنّفین کےدست خط شدہ نایاب مسوّدے ملےتھے۔ خاصی دیرکتابوں کو دیکھ کر اُن میں سے چند مزید کتابیں چھانٹیں، پیسےدکان دار کو دیے اور کتابوں بھرالفافہ تھام لیا۔ اُس وقت تک وہ درجن بھرکتابیں خرید چُکے تھے۔ اُس کے بعد مَیں ان کے ساتھ بے شمار مرتبہ پرانی کتابوں کی تلاش میں نہ صرف صدر بلکہ فریئر ہال گیا اور اُنھیں کتابوں کے سامنے بےاختیار ہوتے دیکھا۔

پرانی اور نئی کتابوں کا ایک بازار اتوار کے روز آرٹس کائونسل کے سامنے والی سڑک بند کر کے وہاں بھی لگایا جاتا تھا۔ اور وہ آصف صاحب ہی تھے، جو مجھے پہلی مرتبہ وہاں لے کر گئے۔ وہاں تو شام میں اچھا خاصا میلہ لگا ہوتا تھا۔ چاٹ، گول گپّے، دہی بڑے، پکوڑے، سموسے، چائے، سگریٹ والے وہاں اپنی دکانیں سجائے کھڑے ہوتےبلکہ اکثر و بیش ترگانے بجانے والے بھی ساؤنڈ سسٹم اور اسپیکر لگائے لوگوں کو محظوظ کررہے ہوتے۔ 

آرٹس کاؤنسل کی عمارت سے بھی پہلی مرتبہ انھوں نے ہی مجھے متعارف کروایا اور اُس کی جانب اشارہ کرکےمجھے بتایا کہ اِس عمارت میں عمدہ سنجیدہ اسٹیج ڈرامے رچائے جاتے ہیں، ملحقہ ہالز میں کتابوں کی رونمائی اور مذاکروں، مباحثوں کا انتظام ہوتا ہے۔ انھوں نے مجھے تلقین کی کہ مَیں وہاں ضرور جایا کروں۔ اُن کی راہ نمائی پر جب مَیں نے ادھر جانا شروع کیا تو مُجھ پر کُھلاکہ وہ معیاری ڈراما، جو دیگر شہروں سے رخصت ہوچکا تھا اوراس کی جگہ لچّریا جگت بازی پر مشتمل کھیلوں نے لے لی تھی، کراچی میں اب تک پوری آب وتاب سے موجود تھا۔ کیا عُمدہ ملکی ڈرامے اور غیرملکی ڈراموں سے ماخوذ کھیل وہاں سجائے جارہے تھے۔

گو اب، کراچی میں غلام عباس، محمّد خالد اختر، صغیر ملال وغیرہ تو نہ رہے تھے، مگر اب بھی شہر کے ایک نکڑ پر اسد محمّد خان سر جھکائے افسانے تخلیق کرنے میں مصروف تھے۔ مشتاق احمد یوسفی سمندر کنارے واقع بنگلے میں ضعیفی کے باوجود بھرپور دماغی چستی سے نئے جملے سوچ رہے تھے۔ ضیاء محی الدّین ایسے نادرِ روزگار فن کار فکرومطالعے میں غلطاں تھے اور فنون کے ایک شان دار تربیتی ادارے ’’ناپا‘‘ کی داغ بیل ڈال رہے تھے۔ 

شکیل عادل زادہ ’’سب رنگ‘‘ کے آخری شمارے ترتیب دےرہےتھے،شکیل صاحب مجھے یکتائے روزگار مصوّر، اقبال مہدی کے گھر بھی لےگئےتھے، اسلم فرخی اپنی تنقیدی و تجزیاتی فکر کو الفاظ کا رُوپ دے رہے تھے۔ انور سِن رائے ’’چیخ‘‘ جیسا شان دار ناولا لکھنے کے بعد نئی تخلیقات سامنے لارہے تھے، تو افضال احمد سیّد بھی نئی شعری جہتیں سامنے لارہے تھے۔ زاہدہ حنا کا قلم پوری طرح فعال تھا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی تفکّر و تحقیق کے قافلے کے میرکارواں تھے۔ انور مقصود، فاطمہ ثریابجیا، حسینہ معین اورصفِ اوّل کے دیگر ڈراما نگار اپنے دَم قدم سے شہر بھر میں رونق لگائے ہوئے تھے۔ 

عذرا عباس اور تنویر انجم کی زندہ تخلیقات دماغوں کے نئے دریچے وا کررہی تھیں اورعقیل عباس جعفری تمام تر یک سوئی سے تحقیق و تخلیق میں مصروف تھے۔ اجمل کمال پیشہ ورانہ ڈگری اور ملازمت چھوڑ کر صحیح معنوں میں فنا فی الادب ہو چُکے تھے۔ اجمل کمال سے ملاقات سے پہلے اسلام آباد میں اُن کے والد صاحب سے چند ملاقاتیں رہی تھیں۔ وہ عالمِ باعمل اور شرع کے پابند بزرگ تھے اور میرے جاننے والے ایک میٹھے، نرم مزاج نوجوان، حسن کے ساتھ دو چار مرتبہ مجھ سے مِل چُکے تھے اور اجمل صاحب کے لیے دعائے خیر کا کہہ چکے تھے۔ 

بعد ازاں حسن، جاوید احمد غامدی کے ساتھ منسلک ہوگیا اور اب بیرونِ ملک قیام پذیر ہے۔ اجمل کمال صدر کے ایک تجارتی مرکز کی تیسری منزل پر واقع اپنے کتابوں کے شوروم مع دفتر و رہایش گاہ میں موقر ادبی جریدے ’’آج‘‘ کےلیےترجمہ وترتیب میں مصروف تھے۔ وہ اُن دنوں ہر جمعے کی شام غیر مُلکی زبانوں کی شاہ کار فلمیں دکھانے کا اہتمام بھی کرتے۔ ان متحرک فن پاروں نےدرجنوں بار میرے قلب و ذہن پر دائمی اثرات مرتّب کیےاوران میں سے کئی ہسپانوی، اطالوی، ایرانی، انگریزی فلمیں آج بھی تنہائی کے لمحوں میں میرے اندر زندہ ہوجاتی ہیں۔ تب تک آصف فرخی’’دنیازاد‘‘ کا آغاز کرچُکے تھے اور اُسے پہلے شمارے ہی سے خوب پذیرائی حاصل ہوچُکی تھی۔

اُن ہی دنوں مَیں کلفٹن میں ایک کرائے کے مکان میں منتقل ہوگیا۔ اس احاطے میں چار مکان ہیں۔ اللہ کی قدرت، دائیں جانب کا گھر معروف دانش ور سرور صاحب اور ان کی بیگم ذکیہ سرور کا ہے، جہاں اُن کی باصلاحیت بیٹیاں بینا سرور اور صہبا سرور اُن کے ساتھ مقیم تھیں۔ بائیں طرف ایاز داؤد اور شمائلہ ماتری داؤد کا گھر تھا، شمائلہ معروف صحافی انقلاب ماتری کی صاحب زادی اور بہ ذاتِ خود ایک ممتاز انگریزی جریدے کی مدیرہ تھیں۔ (جاری ہے)