• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منا بھائی اور سرکٹ کراچی چھوڑ کر اپنے گاؤں واپس جا رہے ہیں اور جاتے ہوئے یہ سوچ رہے ہیں کہ گاؤں جا کر کریں گے کیا؟ کیوں کہ انہیں تو گولی چلانے کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں ہے۔ اچانک سرکٹ دارو کی بوتل اٹھا کر کہتا ہے ، بھائی وہ بھی کیا دن تھے جب ”اَکھا کراچی“ میں ”اپن“ کا راج تھا۔ تمام چھوٹے بڑے تاجروں کو پرچیاں بھیجا کرتے تھے اور وہ بلا حیل و حجت (حیل و حجت بولے تو ہینکی پھینکی) بھتہ دینے میں ہی عافیت سمجھتے مگر اب وہ دن گئے، بھائی جب خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے،اب تو نواز میاں ہیں اور ان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار جن کی ہیبت سے انڈر ورلڈ کے کارندے ہی نہیں خطرناک اور وحشی درندے بھی تھر تھر کانپتے ہیں۔ منا بھائی بتیسی نکال کر کہتا ہے، اے سرکٹ ”ایڑا “ ہو گیا ہے کیا، اب یہ کراچی کی بھاشا چھوڑ اور اپن کے اسٹائل میں بات کر۔ ابھی میں اس حیرت انگیز تبدیلی کے زیر اثر تھا کہ ایک اور خبر ملی کہ ابھی کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کا باضابطہ اعلان اور اصولی فیصلہ ہی ہوا ہے کہ اس کے ثمرات سامنے آنے لگے ہیں۔ اسلم چھرے نے اپنا چاقو نیفے میں اڑس لیا ہے اور ایک ہوٹل پر نوکری کر لی ہے جہاں وہ اپنے اس چاقو سے سبزیاں اور پیاز ٹماٹر کاٹتا ہے اور ان دنوں کو یاد کرتا ہے جب وہ سپاری لیکر اس تیز دھار چاقو سے لوگوں کے گلے کاٹا کرتا تھا۔ شبیر ٹُنڈے نے ناگن چورنگی کے پاس وہیں مکئی کے بھٹوں کی ریڑھی لگائی ہے جہاں اس کے ”چھوکرے“ موبائل اور نقدی چھینا کرتے تھے۔عدنان راکٹ نے سارے اسلحہ کی نیلامی کر کے سگریٹ پان کا کھوکھا شروع کر لیا ہے اور اسے رہ رہ کر ان دنوں کی یاد ستاتی ہے جب وہ مغویوں کے ورثا سے تاوان کی صورت ”پیٹیاں “ اور ”کھوکھے“ وصول کیا کرتا تھا۔ کہانیاں تو بہت ہیں، کس کس کی داستان حسرت بیان کروں۔ جب سے حکومت نے شرپسندوں کے خلاف آپریشن کرنے کا اعلان کیا ہے بھتہ خوری کی اسٹاک مارکیٹ ہی کریش کر گئی ہے۔بھتہ 1000 انڈیکس تاریخ کی پست ترین سطح پر آ گیا ہے اور شدید مندی کے اس رجحان میں کئی بھائی لوگوں کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کو اپنی جانوں کے لالے پڑ گئے ہیں۔ کراچی کے وہ شہری جنہوں نے مہنگے موبائل فون بیچ کر سستے سیٹ خرید لئے تھے انہوں نے اب دوبارہ آئی فون، HTC ،بلیک بیری اور سیم سنگ گلیکسی جیسے سیٹ خریدنے کے لئے شاپنگ مالز کا رخ کر لیا ہے۔ اسٹریٹ کرائمز سے خوفزدہ لڑکوں نے پرانی ”پھٹپھٹیاں“ گھر میں کھڑی کر کے برانڈ نیو ون ٹو فائیو موٹر سائیکلیں نکال لی ہیں۔ جہاں بعض لوگوں کے کاروبار چمک گئے ہیں وہاں کچھ دفاتر ایسے بھی ہیں جہاں ساری چہل پہل ہی ختم ہو گئی ہے ۔ ایمبولینسیں بیکار کھڑی ہیں۔ اس بدلتی ہوئی صورتحال پر نئی حکمت عملی طے کرنے کے لئے عبدالستار ایدھی اور رمضان چھیپا کی ون ٹو ون ملاقات کا سلسلہ جاری ہے کچھ بعید نہیں کہ ان ایمبولینسوں کے ہوٹر اتروا کر انہیں W11 کے روٹ پر چلانے کا فیصلہ کر لیا جائے کیوں کہ اب دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں ختم ہو جانے کے بعد ان ایمبولینسوں کی کیا ضرورت۔ جس طرح ایدھی اور چھیپا والے پریشان ہیں اسی طرح ایک اور مارکیٹ میں بھی ہُو کا عالم ہے اور وہ ہے کراچی کی بوری مارکیٹ۔کبھی اس مارکیٹ میں روزانہ کروڑوں روپوں کا کاروبار ہوتا تھا مگر گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران بوری کی قیمت آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے کیوں کہ بوری بند لاشوں کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے۔بوری مارکیٹ کے تاجر سنجیدگی کے ساتھ اس آپشن پر غور کر رہے ہیں کہ اپنی دکانیں فوری طور پر کراچی سے ملتان منتقل کر دیں تاکہ یہ بوریاں چاول اور گندم کیلئے باردانے کے طور پر استعمال ہو سکیں۔
اس سے پہلے جب سرجیکل آپریشن کی باتیں شروع ہوئیں تو ملک بھر کے سرجنز اور میڈیکل پریکٹیشنرز چوکس ہو گئے۔ ینگ ڈاکٹرز نے بھی ہڑتال ختم کر کے اس آپریشن کے لئے کمر کس لی۔ اسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔انستھیزیا کے ماہرین اور نیم طبی عملہ بھی نہایت مستعد نظر آیا مگر ان تیاریوں کا سلسلہ تب تھم گیا جب یہ خبر ملی کہ سرجیکل آپریشن کی ذمہ داری رینجرز کو سونپ دی گئی ہے۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ اس آپریشن کا نتیجہ وہی نکلے گا جو کسی اتائی ڈاکٹر سے چیر پھاڑ کرانے کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے لیکن اس سرجیکل آپریشن کے جملہ حقوق تو بنیادی طور پر پولیس کے پاس ہیں جو ان اناڑی ڈاکٹروں سے بھی زیادہ بد نام ہے۔ یہ واحد آپریشن ہے جس پر کہیں سے چیخ پکار نہیں ہو رہی،کسی کی دُکھتی رگ پر ہاتھ نہیں پڑا اور نہ ہی کسی کی دُم پر پیر آیا ہے۔ سب مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ عوامی تائید و حمایت کا یہ عالم ہے کہ بعض بھائی لوگوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ جب وزیر داخلہ اس آپریشن کا باضابطہ اعلان کریں تو انہیں بھی اپنے ساتھ کھڑا کریں تاکہ وہ ڈٹ کر اس دہشت گردی کی مذمت کر سکیں۔ خدا جانے ان بھائی لوگوں کا یہ مطالبہ پورا ہوا یا نہیں، میں یہ مناظر دیکھ نہیں پایا۔ بہرحال چوہدری نثار بھی کیا دبنگ آدمی ہیں۔ ہم تو اب تک ذوالفقار مرزا، منظور وسان اور رحمن ملک جیسوں کی ذہانت پر عش عش کرتے آئے تھے مگر چوہدری نثار نے تو ان سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 23 اگست 2011 ء کو وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے بھی کراچی میں ایک ایسے ہی ٹارگٹڈ آپریشن کا اعلان کیاتھا مگر نااہلی و بدانتظامی کا یہ عالم تھا کہ بیہوش کرنے والا انجکشن لگانے کے باوجود عین جراحی کے وقت ”مریض“ اٹھ کر آپریشن تھیٹر سے بھاگ نکلے اور یوں چیر پھاڑ کے لئے تیار سرجنز ہاتھ ملتے رہ گئے مگر چوہدری نثار نے کمال فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپریشن سے پہلے ہی بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلرز اور انڈر ورلڈ کے تمام بھائی لوگوں کو اعتماد میں لینا ضروری سمجھا کیوں کہ جس مریض کا آپریشن کیا جا رہا ہے اگر اسے پتہ ہی نہ ہو تو پھر اس علاج کا کیا فائدہ۔ چنانچہ یہ منفرد آپریشن ہے جس سے پہلے تمام شرپسند عناصر اور سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز سے بھی مشاورت کی گئی اور پھر اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے کے بعد بھی کسی معاملے کو پوشیدہ نہیں رکھا گیا۔ بالعموم قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے ارادوں کو خفیہ رکھتے ہیں اور آخری وقت تک یہ معلوم نہیں ہونے دیتے کہ ان کی کارروائی کا ہدف کیا ہے اور یہ کس نوعیت کی ہو گی۔یہاں تک کہ کارروائی کا وقت بھی نہیں بتایا جاتا اور اچانک دھاوا بول دیاجاتا ہے لیکن ظاہر ہے آپریشن اور کارروائی کو خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔کارروائی تو اچانک بھی ہو سکتی ہے مگر آپریشن تو کسی کی رضامندی کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ویسے بھی جمہوریت کا تقاضا یہی ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلا جائے لہٰذا آپریشن شروع ہونے سے پہلے اس کا برملا اعلان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ ٹارگٹ کلرز جنہیں اس آپریشن پر کسی قسم کے تحفظات ہیں اور وہ آپریشن نہیں کرانا چاہتے، صحتیاب ہونے کو تیار نہیں ،وہ آپریشن کا آغاز ہونے سے پہلے ہی تتر بتر ہو جائیں۔
ویسے بڑے میاں صاحب، خادم اعلیٰ پنجاب کے تجربات سے استفادہ کرتے تو شرپسند عناصر سے نجات حاصل کرنے کا ایک اور تیر بہدف نسخہ بھی موجود تھا جسے بروئے کار لایا جاتا تو اس آپریشن کی نوبت ہی نہ آتی۔جب پنجاب میں ڈینگی مچھر کی ”وارداتیں“ عروج پر تھیں اور اس خوفناک مچھر نے سب کو دہشت زدہ کر رکھا تھا تو خادم اعلیٰ پنجاب کے حکم پر لاہور کے مال روڈ پر ڈینگی کے خلاف بینروں اور فلیکسز کی بھر مار کر دی گئی،اخباروں میں اشتہارات دیئے گئے۔مچھر کو معلوم ہو گیا کہ اس کے ساتھ اشتہاری مفروروں والا سلوک ہو رہا ہے لہٰذا اس نے انڈر گراؤنڈ ہوکر اپنی جان بچانے میں ہی عافیت سمجھی۔اگر وفاقی حکومت کراچی میں تخریب کار عناصر سے نجات حاصل کرنے کے لئے بھی شہر قائد میں زبردست تشہیری مہم چلاتی اور وفاقی وزیر داخلہ کی تصویر کے ساتھ انتباہی پیغامات پر مبنی بینرز، فلیکسز اور ہورڈنگز لگاتی تو شاید ڈینگی مچھر کی طرح بھتہ خور اور ٹارگٹ کلرز بھی ڈر کر بھاگ جاتے اور سرجیکل آپریشن کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔
تازہ ترین