• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واردات قتل کی ہو یا چوری ڈکیتی کی، گاؤں دیہات میں آج بھی کھوجی پر انحصار کیا جاتا ہے کہ وہ کْھرا اٹھاکر یا پاؤں کے نشان کی مدد سے اپنے ہدف کو ڈھونڈ نکالتا ہے۔ ماضی میں تو ماہر کھوجیوں کو سرکاری سرپرستی بھی میسر تھی۔ ہر گاؤں میں نمبردار، تھانیدار کی طرح ایک سے زائد کھوجیوں کا ہونا لازمی تھا لیکن عہدجدید نے جہاں اور دیگر اقدار، ویلیوز اور دیگر ضروری چیزوں کو اذکار رفتہ قرار دیا وہیں کھوجی بھی غیرضروری ٹھہرے۔ شہروں میں پیدا ہونے والی نسل شاید آگاہ نہ ہو کہ محض پاؤں کے نشان کی مدد سے کھوج لگانے والے نہ صرف کھوجی کے تن و توش، معذوری اور دیگر علامات کی نشان دہی بھی کردیا کرتے تھے۔

کہتے ہیں ایک عرب کا اونٹ گم ہوگیا اس نے صحرا میں جانے والے چند لوگوں سے کہا تم نے میرا اونٹ تو نہیں دیکھا۔ ان میں سے ایک نے کہا وہ اونٹ کانا تو نہیں تھا، اس نے کہا ہاں ایسا ہی تھا۔ دوسرا بولا اس کے پاؤں میں کوئی زخم یا تکلیف، کہنے لگا ہاں ایک پاؤں میں چوٹ لگی تھی۔ اب تو مالک کو یقین ہوگیا کہ یہ اونٹ کے بارے میں جانتے ہیں۔ کہنے لگا جلدی بتاؤ وہ کہاں ہے انہوں نے کہا بھئی ہمیں کیا پتا۔ اس نے شور مچادیا کہ انہوں نے میرا اونٹ چوری کیا ہے ۔شور سن کر

لوگ جمع ہوگئے تو اس نے پھر کہاکہ میرا اونٹ گم ہوگیا ۔یہ اُس کی تمام نشانیاں جانتے ہیں انہوں نے ہی مجھےخود نشانیاں بتائیں ہیں لیکن دینے سے انکار کررہے ہیں۔ لوگوں کے استفسار پر وہ صحرا نشین کہنے لگے بھئی ہم نے دیکھا کہ راستے میں صرف ایک طرف سے جھاڑیوں کو منہ مارا گیا تھا۔ حالاں کہ دوسری سمت بھی جھاڑ جھنکار تھے جس سے ہم نے محسوس کیا کہ ،اس کی ایک سمت کی آنکھ خراب ہے۔ رہی بات لنگڑے ہونے کی تو اونٹ کے پاؤں کے تین نشان واضح اور چو تھا علامتی تھا جس سے لگتا تھا کہ وہ زخمی یا پھر معذور ہے اسی طرح دیگر نشانیاں بھی ہمارے مشاہدے کا نتیجہ ہیں۔ لوگوں نے ان کی ذہانت کو سراہتے ہوئے اونٹ مالک کو اپنے گمشدہ اونٹ کی تلاش کا مشورہ دیا۔

کم و بیش دو تین دہائی قبل کا قصّہ ہے شاہ پور چاکر، کھڈرو کے درمیان بہنے والی جمڑاؤ کینال کے راستے چند دوسست سندھ کے پہلے عرب دارالحکومت منصورہ کی سمت جارہے تھے ۔منصورہ کے آثار تحصیل سنجھورو میں ہیں ۔ راستے میں کچھ افراد کو دیکھا جو فولادی تھال ہاتھ میں لئے، جسے سندھی میں 'تگاری" کہا جاتا ہے، ایک آدمی کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔وہ زمین پر بیٹھتا کچھ دیکھتا نشان لگاتا تو وہ تھال یا پرات اس نشان پر ڈھک کر ہاتھ میں موجود عصا سے اشارہ کرتا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ کھوجی ہے جسے سندھی میں ’’ پے ری‘‘ پکارتے ہیں۔ یعنی پاؤں یا پیر کے نشان کی مدد سے مجرم کی تلاش میں معاونت کرنے والا۔ 

رات کوان کے گوٹھ میں سے کسی ایک کے گھر واردات ہوئی تھی اور وہ ملزم کا کھوج لگاتے جمڑاؤ کینال کے گوٹھ لسکی کے قریب سے ہوتے ہوئے کھڈرو کے نواح کی سمت جارہے ہیں۔ ملزم پکڑا گیا یا نہیں اس سے قطع نظر یہ بات باعث حیرت تھی کہ کس طرح محض پائوں کے نشان کے بل پر وہ کھوجی آگے بڑھتا جارہا تھا۔ نواب شمس الدین خان آف لوہارو اور فیروزپور جھرکہ نے جب عزت و ناموس پر نگاہ ڈالنے والے انگریز افسر کو قتل کرایا تو اس کے وفادار ملازم نے گھوڑے کو الٹے نعل لگوائے تھے کہ وہ آتے ہوئے جاتا ہوا محسوس ہو، لیکن ماہر کھوجی نے نعل کے ساتھ خون کے قطروں سے اندازہ لگالیا تھا کہ یہ محض دھوکا دینے کی کوشش ہے ورنہ گھوڑا جا نہیں آرہا تھا۔

برسوں پہلے ایک کھوجی دینو کی باتیں آج بھی یاد ہیں اس کا کہنا تھا کہ سائیں یہ علم اسکول کالج سے نہیں ملتا۔ اچھے استاد کی صحبت کامل بناتی ہے۔ میرے ایک استاد تھے جن سے میں نے کْھرا اٹھانا سیکھا تھا۔ وہ اتنے ذہین تھے کہ ایک واردات کے ملزم کا پتا چلاتے چلاتے کئی پرانے ملزموں کی بھی نشان دہی کردیتے تھے۔ سنجھورو کے اطراف میں مویشی چوری کی ایک واردات کو اندھے قتل کی طرح پولیس نے بھی سرد خانے میں ڈال دیا تھا۔ استاد ایک کھرے کو تلاش کرتے جارہے تھے کہ پاؤں کے ایک نشان پر چونکے اور سامنے جاتے شخص کو رکنے کا اشارہ کیا۔

اس کے پاؤں ناپا ، جوتے اتروا کر چلایا ،اس کے بعد کہا کہ یہ فلاں واردات میں کبھی جوتے پہن کر کبھی ننگے پاؤں چل کر ہمیں دھوکا دے گیا تھا لیکن آج پکڑا گیا۔ خاص بات یہ تھی کہ مال مسروقہ اس شخص کے گھر سے نہ صرف برآمد ہوا بلکہ اس نے کئی دیگر وارداتوں کا بھی اعتراف کرلیا۔ دینو ہی کی طرح ایک اور کھوجی لال بخش سرہاری کے کسی گوٹھ کا باشندہ تھا اور کراچی آرہا تھا۔ 

باتوں باتوں میں اس نے ہمیں اپنے فن کے کچھ اسرار و رموز بتائے اور کئی عقدے کھولے ہمارےے یہ کہنے پر کہ تمام پاؤں کم و بیش ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ انہیں ہزاروں یا درجنوں میں علیحدہ کیسے شناخت کرلیا جاتا ہے؟ وہ کہنے لگا’’نہ سائیں نہ۔ ہر پاؤں دوسرے سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ اسکول میں سب بچے ایک جیسے یونیفارم میں ہوتے ہیں لیکن ٹیچر اور چوکی دار انہیں بہ آسانی دور ہی سے پہچان لیتے ہیں اور اگر وہ گھر کے کپڑوں میں ہوں تو واقعی انہیں مشکل ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک ماہر کھوجی اپنے ہدف کو کبھی نہیں بھلاتا۔ ہر شخص کا پاؤں دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ 

آج سائنس بھی یہی بتاتی ہے کہ انگلیوں کے نشان، آنکھوں کی پتلیاں اور چہرے کی ساخت مشابہت کے باوجود مختلف ہے ،تو یہی حال پیروں کے نشان کا بھی ہے۔ کوئی شخص چلتے ہوئے ایڑی پر زور دیتا ہے تو کوئی پنجے پر دباؤ ڈالتا ہے،بعض لوگ پاؤں جماکر چلتے ہیں تو بعض اسے زمین پر رگڑتے ہوئے گھسیٹے ہیں۔ نشان واضح ہو تو اندازہ ہوتا ہے کہ چور لحیم شحیم ہے، تن و توش بھاری ہے اور اگر کھرا غیرواضح ہو تو یہ چور کے دبلے پتلے اور اکہرے جسم کی علامت ہوتا ہے۔ 

چور نے لمبے ڈگ بھرکر بھاگنے کی کوشش کی ہو تو اسے خوفزدہ یا بدحواس تصور کرتے ہیں، جو اسی علاقے کا ہے اور شناخت کے خوف سے جلدازجلد دور جانے کا خواہاں ہوتا ہے۔ ماضی میں راستے کچے ہوتے تھے اور چوروں کی کھوج آسان، اب پختہ سڑکوں نے مشکل کردی ہے، اس کے باوجود اس فن کے ماہر اپنے ہدف کو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ یہی ان کی خوبی ہے جو انہیں دوسروں سے ممتاز ممیزاور منفرد بناتی ہے۔

زمانہ قدیم کی داستانوں میں بھی کھوجیوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ آج کے سراغ رساں کتے اور فضائی اڈوں و بندر گاہوں پر منشیات تلاش کرنے والے ’’آلات‘‘ بھی ان کھوجیوں کی ترقی یافتہ شکل ہیں۔ ایک ریٹائرڈ پولیس افسر جاوید عنایت اللہ مغل جو پولیس ایف آئی اے میں مختلف مناصب اور ٹریفک پولیس میں اے ڈی آئی جی رہےکے مطابق، ماہر کھوجی سِدھائے ہوئے جاسوس کتوں سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں وہ محض نشان ہی پر نہیں چلتے، وہ دوران تعاقب بہت سی دیگر نشانیوں کو بھی ذہن اور دماغ میں محفوظ کرتے جاتے ہیں اور ان علامتوں کی مدد سے وہ مجرم کو بہ آسانی شناخت کرلیتے ہیں البتہ بعض مرتبہ وہ مجرم کو بچا بھی لیتے ہیں۔ ایک کھوجی بہرحال اسی سماج میں رہتا ہے۔ اس کی رشتہ داریاں، سماجی تعلقات بھی ہوتے ہیں۔ کوئی اس کا سردار اور زمین دار ہوتا ہے۔ 

دباؤ اسے مجبور بھی کردیتا ہے کہ وہ کْھرا گم ہوجانے کا عذر تراش لے لیکن ایسا کبھی کبھار اور اکا دکا واقعات ہی ہوتےہیں، ورنہ تو کھوجی اپنے فن کی سچائی کے لئے ایسے دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتے کہ اس سے ان کے فن اور مہارت پر حرف آتا ہو۔ ایسے ایسے کھوجی یا پیری گزرے ہیں جو پکی سڑک اور برستی بارش میں بھی کھرا اٹھالیتے تھے یعنی مجرم کی شناخت کرلیا کرتے تھے۔ برٹش ہندوستان کے بہت سے واقعات ہیں۔ ایک گاؤں گوڑیانی ضلع روہتک میں واردات ہوگئی۔ تفتیش کے لئے پولیس دوسرے گاؤں سے آئی کہ گوڑیانی میں تھانہ یا چوکی پٹھانوں نے بننے نہ دی تھی۔ وہاں کے مکین اپنے تنازعات خود حل کیا کرتے تھے۔ کھوجی نے اصل مجرم کے ساتھ چلنے والے قدموں پر توجہ مرکوز کی اور پھر کھرا لیا جو قریبی آبادی کی سمت جارہا تھا۔ 

وہ چند گھر تھے ان میں سے ایک کے دروازے پر نشاندہی کی کہ اس گھر کا آدمی آپ کو چور تک پہنچادے گا اور ہوا بھی یہی کہ کچھ سامان تو اسی کے گھر سے نکلا اور مجرم بھی پکڑا گیا کہ پتھریلے راستے پر مجرم کا کھرا غائب تھا لیکن اس کے معاون کی تلاش آسان نکلی۔ ایک بات اور کہ کھوجی جتنی جلد مقام واردات پر پہنچے گا اتنی جلد ہی مجرم کی نشاندہی بہ آسانی ہوسکے گی۔ 

یہ طے ہے کہ جدید ٹیکنالوجی آجانے، سراغ رساں کتوں کی موجودگی اور دیگر اسباب و آلات کے باوجود کھوجیوں کی اہمیت ختم نہیں ہوئی، کیوںکہ کھوجیوں کا دماغ کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے، جس طرح پولیس کا شعبہ سراغ رسانی، فنگر پرنٹس کا سہارا لیتا ہے اسی طرح کھوجی باریک بینی سے پیروں کے نشان کو شناخت کرکے غیرمعمولی حد تک درست اندازہ لگالیتے ہیں۔

بہت پہلے پڑھا تھا کہ ایئرپورٹ پر منشیات کی شناخت کے لئے لائے گئے غیرملکی کتے جب کسی کارٹن، سوٹ کیس کو سونگھ کر مشتبہ گردانتے تو کھولنے پر کچھ نہ نکلتا۔ تصور کیا گیا کہ یہ آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث صلاحیت کھوبیٹھے ہیں لیکن بعد میں نشان دہی ہوئی کہ ذہین ملزم کارٹن، سوٹ کیس پر ہیروئن کا پاؤڈر، چرس کے ذرات بکھیر دیتے ہیں تاکہ کتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ سکے جس طرح کھوجی ذہین ہوتے ہیں اسی طرح مجرم بھی اپنی ذہانت، فطانت کا استعمال کرتے ہیں۔ 

بلاشبہ سراغ رسانی کے جدید طریقوں نے کھوجیوں کی اہمیت کم کردی ہے لیکن ایسا نہیں کہ یہ فن ختم ہوگیا ، بلکہ آج بھی چرواہے، کسان اور دیہات کے باشندے اپنے نقصان کی تلافی میں ان کھوجیوں سے ہی مدد لیتے ہیں جو زیادہ نہ سہی کم تعداد میں سہی اب بھی ہیں۔ ایک ریڈیو پروگرام میں سندھ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور اس وقت کراچی یونیورسٹی میں کرمنالوجی کے پروفیسر فتح محمد برفت نے بتایا تھا کہ جس طرح انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشان اور چہرے کی ساخت اور آنکھوں کے زاویے سے کسی شخص کو بہ آسانی شناخت کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح انسان کی چال، قدموں کے نشان بھی مروجہ تمام طریقوں سے کہیں زیادہ آسان طورسے مجرم کی پہچان ہوجاتی ہے ۔ ایک سے زائد ناموں اور ایڈریسز پر بنوائے گئے شناختی کارڈ، کمپیوٹر پر فیس ریڈنگ کے دوران منسوخ کیے گئے لیکن جدید ٹیکنالوجی نے یہ کام بہت آسان کردیا ہے۔ 

دوسری طرف کہیں کہیں تکنیک بھی مات کھاجاتی ہے تو پھر قدیمی طریقے پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ایک واردات میں اہل خانہ کا خیال تھا کہ یہ علی الصبح ہوئی لیکن کھوجی نے اسے نصف شب کا واقعہ بتایا کہ قدموں کے نشان پر شبنم پڑی تھی یعنی واردات پہلے ہوئی اور اوس کے قطرے بعد میں گرے یہ مشاہدہ بھی اس مطالعہ کا مرہون منت ہے جو کھوجیوں نے اساتذہ سے سیکھا اور آگے بڑھایا۔ فی الوقت تو معدوم ہوتے کھوجیوں کے اس فن پر اکتفا کیجیے جو آج کل زوال پذیر ہے ممکن ہے آئندہ ان کا تذکرہ صرف کتابوں ہی میں ملے۔

 قدم شناسی،ایک فن

قدم شناسی بھی ایک فن ہے اور قدم شناس یاکھوجی دیہی ماحول میں پلے بڑھے یہ لوگ ناخواندہ ہونے کے باوجود مشاہدہ کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں اور تجربہ کی بھٹی انہیں کندن بنا دیتی ہے وہ صرف پیر کا نشان دیکھ کر مجرم کی جسامت، تن و توش اور بسا اوقات تو عمر کی عمر کی نشاندہی بھی کردیتے ہیں۔ کھوجی چونکہ کسی سرکاری حیثیت کے مالک نہیں ہوتے اس لئے کوئی معاشرتی یا سماجی تحفظ بھی میسر نہیں ہوتا اسی سبب انہیں دھمکیاں بھی ملتی ہیں اور دبائو بھی درپیش ہوتا ہے۔ 

عدم تحفظ کی فضا اس قدیم پیشے کو محدود کرتی جارہی ہے۔ ماضی میں ایسے متعدد ذہین و فطین اور خداداد صلاحیتوں کے مالک کھوجی گزرے ہیں جنہوں نے جانی و مالی نقصان برداشت کئے لیکن پیشہ ورانہ دیانت داری پر حرف نہ آنے دیا۔ ماضی میں کئی کیس کھوجیوں کی مدد سے حل ہوئے اور مجرم اپنے انجام کو پہنچے آج بھی اگر کھوجیوں کو پولیس میں اچھی ملازمت اور مراعات ملیں تو کم از کم دیہات کی حد تک جرائم کی بڑھتی شرح کوکنٹرول کیا جا سکتاہے۔ برٹش دور میں توکھوجی اورگائوں کا مکھیا یا چودھری باقاعدہ وظیفہ خوار ہوتے تھے۔

مجرم کیسے پکڑا ؟

یہ گئے برسوں کا قصّہ ہے ،دو چار دن کی بات نہیں ۔ہو ا کچھ یوںکہ ، نواحی گائوں میں واردات ہوئی اور چور نقب لگا کر گھر میں گھسے تو ان کے ہاتھوں کا نشان بھی مٹی پر لگا رہ گیا۔ تلاش و بسیار کے باوجود مجرم پکڑے نہ جا سکے۔ ہفتہ عشرے بعد کھوجی آٹا پیسنے والی چکی پر بیٹھا تھا کہ اس نے وہاں لکڑی کے بنچ پر بیٹھے شخص کواس طرح پکڑ لیا کہ اُڑنے والے آٹے کی گرد بنچ پر جمی تھی اور اس فرد نے اپنا ہاتھ وہاں رکھا تو نقش ثبت ہو گیا۔ کھوجی نے مکمل اعتماد کے ساتھ کہا تم نے ہفتے عشرے قبل فلاں گھر میں نقب لگائی تھی اور اب تھانے جائو گے۔ ایسی یہ ایک واردات نہیں کئی ہوئیں کہ کھوجیوں کی مدد سے مجرم ڈرامائی انداز میں پکڑے گئے۔

چرواہے بھی قدیم شناسی کے ماہر

تھر کی صحرائی پٹی ہو یا نارا، چولستان اور اچھڑو تھرکی، یہاں کے چرواہے بھی قدم شناسی کے ماہر تسلیم کئے جاتے ہیں درجنوں مویشی جنگل لے جا کر چھوڑ دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ جھاڑ جھنکار سے پیٹ بھر سکیں۔ وقفے وقفے سے چرواہا یا مالوند اپنے مویشیوں پر نگاہ رکھتا ہے اگرکوئی گم نظر آئے تو وہ پیروں کے نشان کی مدد سے مویشی تلاش کر لیتا ہے صحرائے تھر میں تو مویشیوں کوداغا جاتا ہے۔ 

ان کے جسم پر قبیلوں کے کوڈ ثبت ہوتے ہیں۔ مویشی کہیں دُور نکل جائے تو اس علاقے کے لوگ متعلقہ قبیلے کو نشاندہی کرکے اس کے مالک تک اطلاع پہنچا دیتے ہیں اور یوں حق بہ حق دار رسید کی کہاوت درست ثابت ہو جاتی ہے ایسے ہی ایک چرواہے ’’کادومنگنہار‘‘ نے کئی برس قبل بتایا تھا کہ ،جس طرح لوگ اپنے بچے پہچانتے ہو اسی طرح ہم سیکڑوں کے ریوڑ میں ہم اپنے مویشی اور درجنوں نشانات میں ان کے پیر یا قدم کے نشان کی شناخت کر لیتے ہیں۔یہ ہمارے لئے معمول کی پریکٹس ہے۔ ہم تو جانور کے پیر کے نشان دیکھ کر نر یا مادہ اور حاملہ یا غیر حاملہ کا بھی بتا دیتے ہیں ۔