• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے مُلک میں ہر رنگ، نسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں، یہ لسانی اور ثقافتی تنوّع جہاں ایک خاص قسم کی معاشرتی خُوب صورتی کا سبب ہے، وہیں اس سے برداشت اور رواداری کے رویّے بھی فروغ پاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، پاکستان میں ساٹھ سے زاید زبانیں بولی جاتی ہیں، جن میں اردو، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، براہوی، کشمیری، پہاڑی، ہندکو، گوجری، بلتی، شنا اور بروشسکی وغیرہ نمایاں ہیں۔ یہ زبانیں مختلف علاقوں اور وہاں کی تہذیب کی نمائندگی کرتی ہیں۔ 

بلاشبہ، یہ تمام زبانیں ایک گُل دستے کی مانند ہیں، جس میں موجود ہر پھول کی ایک الگ اور منفرد خُوش بو ہے۔ ایسی ہی ایک علاقائی زبان، ہندکو بھی ہے، جو پاکستان کے صوبے خیبرپختون خوا میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔اس زبان کے بہت سے الفاظ دیگر زبانوں میں بھی مستعمل ہیں۔ اردو، پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو سمیت کئی علاقائی زبانوں سے تعلق کی بناء پر ہندکو پر کئی زبانوں کے اثرات واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔اگر اِس کی تاریخ پر نظر دوڑائیں، تو یہ دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔

تاریخی کتب کے مطابق یہ5 ہزار سال پرانی ہے اور اس کا اُردو سے گہرا تعلق ہے۔ماہرین پنجابی زبان کو اس کی ہم سایہ زبان قرار دیتے ہیں کہ دونوں میں تھوڑا سا ہی فرق ہے۔ اگرچہ ہندکو کے مختلف علاقوں میں مختلف لہجے ہیں، لیکن پھر بھی اس میں کوئی بہت زیادہ یا بنیادی فرق نہیں ہے۔ یہ زبان خیبر پختون خوا میں ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور، بٹگرام، پشاور، کوہاٹ، پنجاب میں اٹک اور پوٹھوہار، جب کہ آزاد کشمیر میں پونچھ، باغ، مظفّر آباد سمیت کئی علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ 

ایک اندازے کے مطابق، چالیس لاکھ سے زاید افراد یہ زبان بول اور سمجھ سکتے ہیں۔ اسے بولنے والوں کو عموماً ’’ہزارہ وال‘‘ کہا جاتا ہے، جب کہ پشاور میں ہندکو بولنے والوں کو پشاوری یا خارے کے نام سے پکارا جاتا ہے، جس کا مطلب پشاور شہر کے آبائی ہندکوان بھی لیا جاتا ہے۔اِسی طرح کوہاٹ میں اس زبان کے بولنے والوں کو کوہاٹی کہا جاتا ہے۔یہ زبان بھارت اور افغانستان کے بھی کچھ علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ زبان آریائی نسل کی شاخ، لاندھا سے تعلق رکھتی ہے اورمختلف لہجوں میں شمالی ہندوستان میں بولی جاتی ہے۔

ہندکو کا لفظی مطلب’’ ہند کے پہاڑوں کا‘‘ ہے، یہ نام کوہِ ہمالیہ کے سلسلے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ فارسی زبان میں ہند کا مطلب دریائے سندھ سے متعلق علاقوں اور کو سے مُراد پہاڑ ہے۔ ہندکو کی اصطلاح قدیم یونانی علمی حلقوں میں بھی موجود رہی ہے، جس سے مُراد حالیہ شمالی پاکستان اور مشرقی افغانستان کے پہاڑی سلسلے لیے جاتے ہیں۔ 

پاکستان، بھارت اور افغانستان کے کئی علاقوں میں بولی جاتی ہے

ہندکو زبان نے ہماری تہذیب و تمدّن پر بھی گہرے اور بھرپور اثرات مرتّب کیے۔ یہ زبان جتنی میٹھی ہے، اُسی قدر ادب واحترام کے الفاظ بھی اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے کہ اس کا پہلا لفظ ہی’’ جی‘‘ سے شروع ہوتا ہے اور یہ زبان صرف بول چال ہی تک محدود نہیں، بلکہ اس میں خاصا تحریری کام بھی ہوا ہے۔اِن دنوں ہندکو زبان میں کئی اخبارات شائع ہو رہے ہیں، جب کہ اس زبان میں لکھی گئی کتب کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔ نیز، کئی ٹی وی چینلز بھی ہندکو کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ 

وہ ہندکو میں خبرنامے کے ساتھ کئی پروگرامز بھی پیش کرتے ہیں۔ پشاور میں’’ گندھارا ہندکو اکیڈمی‘‘ کے نام سے ایک ادارہ بھی ہے، جو تحقیق، تخلیق اور ترویج کے بنیادی اصولوں کے مطابق اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ اکیڈمی ہندکو زبان کے لیے کئی منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ یہی ادارہ ہندکو میں ایک ہفت روزہ بھی شایع کرتا ہے۔ہندکو زبان میں حمد، نعت، منقبت، سلام، نوحے، مرثیے، غزلیں، نظمیں اور رباعیاں وغیرہ بھی کہی جا رہی ہیں، جنھیں ایک وسیع حلقے میں سُنا اور پڑھا جاتا ہے۔ اگر نثر کی بات کریں، تو اِس صنف میں بھی کافی کام ہو رہا ہے۔

ہندکو زبان کے کئی ناول، افسانے، سفر نامے اور دیگر عنوانات پر متعدّد کتب منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ فرزندِ پشاور، یوسف خان عرف دلیپ کمار کی مادری زبان بھی ہندکو تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے رشتے داروں سے اسی زبان میں بات چیت کیا کرتے تھے۔ ہندکو زبان کے مشہور لکھاری، فن کار اور ہدایت کار، سیّد مہتاب شاہ (پہولا )نے اس زبان میں پہلی فلم،’’ چاچی، جُل کراچی‘‘ بنائی، جو بےحد مقبول ہوئی۔

پہلا ہندکو ملّی نغمہ بھی مہتاب شاہ ہی نے لکھا۔نیز، معروف گلوکارہ، افشاں زیبی نے ہندکو زبان میں ایک گانا’’ اے گلاں چنگیاں تے نئیں‘‘گا کر مُلک گیر شہرت حاصل کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہندکو زبان کی خدمت کرنے والوں میں رضا ہمدانی، فارغ بخاری، آخونزادہ مختار علی نیّر، خاطر غزنوی، جلیل حشمی، سلطان سکون، آصف ثاقب، غلام محمّد قاصر، عبد اللہ یزدانی اور الطاف صفدر کے نام نمایاں ہیں۔

علاوہ ازیں، ہندکو زبان و ادب کے گہواروں میں گندھارا ہندکو بورڈ، گندھارا ہندکو اکیڈمی، اباسین آرٹس کاؤنسل، بزمِ شعور ہندکو، ہندکو رائٹرز سوسائٹی کے نام سرِ فہرست ہیں۔ یاد رہے، گندھارا ہندکو اکیڈمی نے آٹھ سو سے زاید صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب بھی شایع کی ہے، جس میں ہندکو زبان کے2156 محاورے شامل ہیں۔

ہندکو کو پارلیمانی زبان کا درجہ دینے کی کوششیں طویل عرصے سے جاری تھیں، جو 2021ء میں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں، جب پی ٹی آئی کے رُکنِ اسمبلی، نذیر عباسی نے خیبر پختون خوا اسمبلی میں ہندکو کو پارلیمانی زبان کا درجہ دینے کی قراردادپیش کی اور اُسے متفّقہ طور پر منظور بھی کرلیا گیا۔

سنڈے میگزین سے مزید