• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتداب کی چھتری تلے صیہونی غصب اور دہشت گردی

برطانیہ نے ایک منظّم منصوبے کے تحت یہودیوں کو فلسطینی سرزمین پر مسلّط کیا
برطانیہ نے ایک منظّم منصوبے کے تحت یہودیوں کو فلسطینی سرزمین پر مسلّط کیا

تھیوڈر ہرزل نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جرمن قیصر، ولیم دوم سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کر رکھی تھیں، لیکن پہلی عالمی جنگ نے سارا منظر نامہ ہی بدل دیا۔ جرمنی، تُرکی، آسٹریا، ہنگری اور بلغاریہ شکست سے دوچار ہوئے۔ تُرکی کو جنگی نقصان کے علاوہ یہ زخم بھی لگا کہ اتحادی ممالک نے جنگ کے دَوران ہی اس کے عرب مقبوضات کی بندر بانٹ کرنے اور عثمانی خلافت کا باب ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

اِسی فیصلے کے تناظر میں برّعظیم کے مسلمانوں نے تحریکِ خلافت برپا کی تھی۔ 1922ء میں عالمی صیہونی تنظیم کا سربراہ، ڈاکٹر وائزمین بنا، جس کی پالیسیز کے انعام میں اُسے اسرائیل کا پہلا صدر بنایا گیا۔ یہ بائیو کیمیکل سائنس دان تھا۔1910ء میں اس نے برطانوی شہریت حاصل کی۔وائزمین نے متعدّد صیہونی کمیٹیز کی نمائندگی کی۔ اس کا برطانیہ پر یہ احسان تھا کہ اس نے مکئی سے توپوں کے گولوں میں استعمال ہونے والا’’گن پائوڈر‘‘ ایجاد کیا، جو لاگت میں سَستا اور کارکردگی میں بہتر تھا۔

یوں برطانیہ اس کا ممنون تھا اور اعلانِ بالفور کے اسباب میں سے ایک، وائزمین کی یہ ممنونیت بھی تھی۔ صیہونی سازشوں اور مکّاریوں کی برطانیہ سے وابستہ کہانی کی کئی پرتیں جہاں شرم ناک ہیں، وہیں فلسطین سے متعلق حد درجہ سفّاکانہ اور ظالمانہ بھی ہیں۔ سام راجی قوّتوں نے دنیا کے جن خطّوں پر دو، ڈھائی سو سال تک اپنا تسلّط قائم رکھا،اُن کے وسائل لُوٹے اور اُن کے عوام کو معاشی، تہذیبی، تمدّنی اور نفسیاتی لحاظ سے برباد کر دیا، بعینیہ صیہونی سام راج بھی، فلسطینی عربوں کے تمدّن کی شان دار علامتیں مِٹا کر اُنہیں نیست و نابود کر رہا ہے۔

چند سال قبل’’الجزیرہ‘‘ کے فیچرز میں’’ How Britain Destryed Palestinian Homeland‘‘کے عنوان سے فلسطینی امریکی صحافی، رمزی بارود کا ایک تفصیلی مضمون شائع ہوا تھا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ صیہونی تحریک، عالمی جنگ کے دَوران اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے تدبیریں کر رہی تھی۔

جنگِ عظیم اوّل کا پلڑا1916ء تک اتحادی ممالک کی طرف جُھک گیا تھا۔ اِسی دوران اُنہوں نے عثمانی سلطنت کے سقوط کے بعد اُس کی تقسیم کا منصوبہ بنالیا تھا۔ اس منصوبے کی تیاری میں برطانوی مذاکرات کار، سرمارک اسکائی (Sir Mark Skyes)اور فرانسیسی سفارت کار، فرانسس جارج پیکوٹ (Francois George-Picot) کے درمیان مذاکرات ہوئے اور نقشہ تیار کیا گیا، جس کے مطابق فلسطین کا شہر الجلیل(Aljaleel) فرانس کے حصّے میں آنا تھا، حیفا(al-Hayfa)اور عکا(Acre)کا ساحلی علاقہ اور بندرگاہیں برطانیہ کو ملنی تھیں، جب کہ وسطی علاقہ بشمول یروشلم، بین الاقوامی انتظام کے تحت آنا تھا۔

روس کو مشرقِ وسطیٰ میں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔وہ ایشیائے کوچک یعنی اناطولیہ (Anatolia)کاعلاقہ لینا چاہتا تھا۔ تُرک سلطنت کی اِس تقسیم پر صیہونیوں کو اپنی ریاست کے قیام کا منصوبہ خاک میں ملتا نظر آیا۔صیہونی رہنما فلسطین کو تقسیم اور یروشلم کے بین الاقوامی انتظام میں چلے جانے کی اِس اسکیم پر سخت مضطرب ہوئے۔ چناں چہ برطانیہ کو زیرِ دام لانے کے لیے وائزمین کی قیادت میں شیطانی دماغ اکٹھے ہوئے۔ سر اسکائی کو اچانک صیہونیت یاد آ گئی۔ ایک اور صاحب سرمارک نمودار ہوئے۔ 

اُنہوں نے اِس بندر بانٹ کا نئے سرے سے حساب کتاب کیا۔فروری1917ء میں لندن کے ایک بااثر صیہونی کے گھر میں وائزمین، بیرن لیونیل، والٹر روتھس چائلڈ اور ہربرٹ سیموئل(Herbert Samuel)وغیرہ جمع ہوئے۔صیہونی رہنماؤں نے سر مارک اسکائیز کے مشورے سے طے کیا کہ پیکوٹ سے رجوع کر کے فرانس کو مطمئن کریں کہ فلسطین کی اِس طرح تقسیم سے صیہونیت کے مقاصد دفن ہو جائیں گے،لہٰذا اِس اسکیم پر نظرِ ثانی کی جائے۔یوں سارا منظرنامہ تبدیل کر کے فلسطین کو برطانیہ کے انتداب کی زنجیریں پہنا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

چوں کہ روس کو عثمانی سلطنت کے اِس حصے سے کوئی دل چسپی نہیں تھی، تو اِس نے نئے منصوبے پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ اُس وقت ایک اور بڑا صیہونی رہنما، آرتھر جیمز بالفور سیکرٹری خارجہ تھا، جس نے اُسی سال دو نومبر کو برطانوی پارلیمنٹ سے وہ مکروہ اعلامیہ پاس کروا لیا، جو تاریخ میں’’اعلانِ بالفور‘‘ کے نام سے سیاہ باب کے طور پر درج ہے۔

یہ انتدابی اختیارات برطانوی استعماریت کی وقتی توسیع تھے، جس نے فلسطین میں صیہونی سام راج کو جنم دیا۔کاغذات میں تو فلسطین پر برطانوی انتداب کا فیصلہ لیگ آف نیشنز کا تھا، لیکن اس لیگ کی باگ ڈور عملاً جنگ جیتنے والے سات اتحادی ممالک برطانیہ، بیلجیئم، فرانس، یونان، اٹلی اور جاپان کے ہاتھ میں تھی اور اُنہی کی مرضی سے یہ فیصلہ ہوا تھا۔اگرچہ انتدابی دستاویزات میں برطانیہ کے لیے کچھ حدود اور شرائط طے کی گئی تھیں۔

اوّل یہ کہ برطانیہ زیرِ انتداب سرزمین میں کوئی فوج منظّم کرے گا اور نہ ہی قلعہ بندیاں کرے گا۔ انتداب کا بنیادی وظیفہ فلسطین میں امن و امان کا قیام اور ایسا انتظام یقینی بنانا تھا کہ وہاں آبادی کے مختلف اجزا میں توازن بگڑے اور نہ ہی اُن میں کوئی تصادم کی صُورتِ حال پیدا ہو۔ لیکن یہ تو اُسی وقت ناممکن ہو گیا تھا، جب 1917ء میں اعلانِ بالفور میں فلسطین کو صیہونی ریاست بنانے کا اعلان کیا گیا۔

انتداب کے 1929ء اور 1949ء تک کے عرصے میں صیہونیوں نے فلسطینی عربوں کو خوف زدہ کرنے، اُن کی دکانوں اور زمینوں پر قبضہ کرنے، اُن کے گھر چھیننے اور اُن کے دیہات اُجاڑنے کے لیے برطانوی انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے کئی دہشت گرد گروپ منظّم کر لیے تھے۔ ان میں دی اسٹرنThe Sten))، ہگناہا (Haganah) ارگون (Irgun Zvai)، لیہی(Lehi)، زیرِ زمین فلسطین (The Palestine Underground) اور لوہامے ہیرتھ اسرائیل (Lohamey Herth Israel or Fighters for Israel) یعنی ’’سرفروشانِ اسرائیل‘‘خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

ارگون کو والڈامیر جیبولنسکی نے منظّم کیا تھا اور اُس کے بعد مینچم بیگن نے اُس کی قیادت کی، جس نے لیکوڈ سیاسی پارٹی بنائی اور اسرائیل کا وزیرِ اعظم بھی رہا۔ یہ سب کچھ اِس لیے ہو رہا تھا کہ اعلانِ بالفور کے بعد برطانیہ ایک جانب دار فریق بن گیا تھا۔ اس کے لیے عدل و مساوات اور غیرجانب داری کی پالیسی اختیار کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ فلسطینی عرب اس انتداب کے پہلے روز ہی سے سخت مخالف تھے، کیوں کہ اِس نے اُن کے حقِ خود اختیاری اور اُن کی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے مطالبے کو کچل دیا تھا۔

انتداب کے سائے میں پہلے جنگ کے بہانے، یورپی یہودیوں کی بہت بڑی تعداد فلسطین میں گُھس آئی اور پھر نازی جرمنی میں ہٹلر کی پالیسیز کے نتیجے میں یہودیوں کے مزید سیکڑوں خاندان آ بسے، جس کی وجہ سے آبادی کا توازن بگڑ گیا۔ اسرائیل کے قیام کے بعد قصبوں اور دیہات کے عربی نام عبرانی سے بدل دیے گئے، لیکن اس سرزمین کا حقیقی تعارف یہی تھا کہ یہ عرب سرزمین ہے۔

آنجہانی پروفیسر ایڈورد سعید کے مذہبی عقائد وہی تھے، جو امریکا اور یورپ کی اکثریت کے ہیں، لیکن اس فرزندِ فلسطین نے امریکا میں رہ کر آخری دَم تک یہی نظریاتی جنگ لڑی کہ فلسطینی اقتصادی اور تعلیمی لحاظ سے خواہ پس ماندہ ہیں، لیکن فلسطین کی اصل شناخت ایک عرب اور مسلمان سرزمین کی ہے۔ گزشتہ کئی صدیوں میں بیسیوں سیّاح فلسطین گئے۔اُنہوں نے جو سفرنامے مرتّب کیے، اُن میں یہی شہادت دی کہ فلسطین ایک عرب اور مسلمان مُلک ہے۔

راشد خالدی نے لکھا ہے کہ برطانوی استبداد کی سرپرستی میں یہودیوں کے زرعی فارمز اور صنعتی کمپنیز نے مقامی باشندوں سے ماورا اپنی ایک معاشی ریاست، اسرائیلی ریاست کی تشکیل سے پہلے ہی قائم کر لی تھی، جس میں عرب مزدوروں اور محنت کشوں کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ اُس وقت تک اگرچہ یہودی تعداد میں کم تھے، لیکن اُن کے بڑے بڑے اقتصادی سیکٹرز قائم ہو گئے تھے۔انتدابی اتھارٹی کی آنکھوں کے سامنے نو آبادکار یہودیوں نے اپنے دہشت گرد دستے(militias) تیار کر لیے تھے۔

اِسی وجہ سے1939ء،1936ء کے عرصے میں عرب مسلمانوں میں بغاوت کے جذبات کا لاوا پھٹ پڑا، تشدّد کے واقعات رُونما ہوئے اور بڑے فسادات کی آگ بھڑک اُٹھی تھی۔ ان فسادات کو کچلنے کے لیے انتدابی اتھارٹی نے فوجی دستے اور فضائی قوّت استعمال کر کے ہزاروں افراد مار دیے۔ 1932ء تک یہودیوں کے باہر سے جو غول کے غول پورے خاندانوں کی صُورت وارد ہوئے، اُن کی وجہ سے جو یہودی آبادی دس فی صد سے اٹھارہ فی صد تک پہنچی تھی، اِن فسادات کے بعد وہ 31فی صد تک جا پہنچی۔ عوامی سطح ہی پر نہیں، فوجیوں کی تعداد میں بھی یہودیوں کا پلڑا مسلسل بھاری ہوتا رہا۔غرض، استعماری قوّتوں نے اپنے مقبوضہ ممالک میں جو ہتھکنڈے استعمال کیے تھے، وہ سارے یہودیوں نے فلسطین میں استعمال کیے اور ابھی تک کر رہے ہیں۔

برطانیہ، عدل و مساوات کے جن جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کی حفاظت کے جن دعووں پر فخر کرتا تھا، فلسطین میں انتدابی اتھارٹی کی صُورت اُس نے وہ سارے اصول اور دعوے فراموش کر دیئے تھے۔ 

برطانوی پالیسیز کی غیر منطقیت (illogicality)کو ہر شخص اور ہر مُلک محسوس کر رہا تھا۔ 1930ء میں فلسطینی مذہبی و سیاسی رہنما، مفتیٔ اعظم فلسطین، الحاج روحُ الامین الحسینی کی قیادت میں ایک نمائندہ وفد برطانیہ گیا اور برطانوی نو آبادیاتی سیکرٹری، لارڈ پاسفیلڈ(Lord Passfield) کے سامنے یہ مطالبہ رکھا کہ فلسطین میں برطانوی پارلیمنٹ کی طرز پر ایک منتخب پارلیمانی ادارہ قائم کر دیا جائے، جس میں عرب مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں اور دروزوں سمیت سب عناصر کی آبادی کے لحاظ سے نمائندگی ہو، لیکن پاسفیلڈ نے ایسی استعماری رعونت اور احمقانہ طریقے سے یہ مطالبہ مسترد کر دیا کہ برطانیہ کے جنگی اتحادی، فرانس کے وزیر خارجہ ارسٹائیڈ برینڈ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’انگلینڈ کی پوزیشن(مؤقف) غیر منطقیت کی انتہا ہے۔‘‘

جب’’تل ہائی‘‘ کے ایک بدوی قصبے میں عربوں اور یہودیوں میں خون ریز لڑائی ہوئی اور یروشلم میں بھی فسادات کے شعلے بلند ہونے لگے، تو برطانیہ نے اُسے ٹھنڈا کرنے کی بجائے اُس پر تیل اِس طرح چھِڑکا کہ صیہونیت کے ایک بڑے حامی یہودی، ہربرٹ سیموئل کو فلسطین میں ہائی کمشنر مقرّر کر دیا، جس سے غیر جانب دار رہنے کی توقّع نہیں کی جا سکتی تھی۔ اِس انتداب کے تحت برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کرلیا۔

کولمبیا یونی ورسٹی، امریکا میں ممتاز فلسطینی دانش وَر، راشدخالدی نے اپنی کتاب’’The Iron Cage‘‘ میں لکھا ہے کہ لیگ آف نیشنز اور انتدابی قوّت برطانیہ نے ظلم اور ناانصافی کی انتہا یہ کی کہ دس فی صد یہودیوں کے لیے لفظ عوام یا قوم استعمال کیا جانے لگا اور 90فی صد عربوں اور مسلمانوں کے لیے صرف’’غیر یہودی افراد‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔

ڈاکٹر راشد خالدی لکھتے ہیں کہ برطانوی انتداب کے سارے عرصے میں فلسطینی عوام اور رہنما ایک عجیب دوراہے پر کھڑے کر دیئے گئے تھے۔ فلسطین کو یہودیوں کا ’’اپنا وطن‘‘ قرار دیا جاتا تھا اور اکثریت عرب مسلمان، یہاں محض’’لوگ‘‘ تھے، جن کی کوئی پہچان نہیں تھی۔ یہ ہے برطانوی انتداب کی بے انصافیوں کی صرف ایک تصویر۔ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)