ایک ماہ قبل میں نے سوچا کہ بہت ہو گیا۔ مہنگائی نے لوگوں کو ہلکان کر دیا ہے۔ حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ بودے اور برے فیصلوں سے ملک گہری کھائی کے کنارے آ کھڑا ہوا ہے۔ عوام کو عقل و شعور سے عاری ڈہور ڈنگر سمجھ کر ہانکا جا رہا ہے۔ یہ ناروا رویہ میرے سر کو چڑھ گیا۔ اور کچھ نہ سوجھا تو ایک کارڈ بورڈ پہ لکھا ’’مار گئی مہنگائی- دہائی ہے دہائی‘‘ اور اسے لے کر سڑک پہ آ کھڑا ہوا۔ پندرہ منٹ وہاں کھڑا ہوا۔ بیٹے نے تصویر کھینچی جسے میں سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کر دیا۔ جاننے والے حلقوں میں کھلبلی سی مچ گئی۔ انہوں نے محبت اور یکجہتی کا بھر پور اظہار کیا۔ دنیا بھر سے پیغامات کی بھر مار ہو گئی۔ اس سے میرے جذبے کو عجب توانائی ملی مگر کچھ انوکھے پیغامات اور تجربات بھی ہوئے۔
ابھی مجھے احتجاجی تصویر اَپ لوڈ کیے چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک بہت مہربان اور شفیق سینئر نے ٹیکسٹ میسیج بھیجا ”نوید! مبالغہ آرائی مت کرو۔ مجھے یقین ہے تم نے خوب اچھا ناشتہ کیا ہوگا‘‘۔ یہ صاحب میرے پہلے افسر تھے۔ مجھے عرصہ 35سال سے جانتے ہیں۔ میں نے کچھ توقف سے جواب دیا ’’میں نے واقعی اچھا ناشتہ کیا ہے مگر یہ احتجاج میرے اپنےحال پہ نہیں‘‘۔ وہ نہایت حلیم اور بردبار شخص ہیں۔ بات کو سمجھ گئے کہ یہ غمِ جاناں نہیں، غمِ دوراں ہے۔
ہم میں سے اکثر نے یہ لطیفہ سنا ہوگا کہ کسی غریب نے فریاد کی کہ روٹی نہیں لے سکتا تو بےخبر اور بےوقوف صاحبِ اقتدار نے کہا کہ روٹی نہیں ملتی تو ڈبل روٹی کھا لو۔ صاحبو! اس مہم کے دوران معلوم ہوا کہ یہ لطیفہ نہیں، کچھ متمول و مطمئن بےخبر واقعی ایسے مشورے دے دیتے ہیں۔ ایک اہلِ علم نے فرمایا کہ مہنگائی کے اپنے فوائد ہیں۔ لوگ کم کھائیں گے اور کم چیزیں استعمال کریں گے، اس طرح ماحولیاتی آلودگی کم ہو گی۔ ہائے او رباّ!
مری میں 22ہلاکتوں سے ایک روز قبل ایک وزیرِ بےتدبیر نے کمال بےحسی سے مری میں ہزاروں گاڑیوں کی موجودگی کو خوشحالی کے ثبوت کے طور پر شد و مد سے پیش کیا۔ موصوف اس گرمئی گفتار میں یہ حقائق یکسر نظر انداز کرگئے کہ پاکستان کی آبادی 22کروڑ سے زیادہ ہے۔ ان میں سے چند لاکھ متمول اور مالدار بھی ہیں۔ 20فیصد پاکستانی ایسے ہیں جن کے پاس پاکستان کی 50فیصد دولت ہے۔ کوئی اگر 80فیصد غربا میں سے پیٹ کاٹ کر دل پشوری کرنے جیسے تیسے مری پہنچ گیا تو سنگدل ہوٹل والوں کے چند ہزار زیادہ کرایہ دینے کی سکت نہیں رکھتا تھا اور وہ مجبوری سے اپنی پرانی مانگی تانگی گاڑیوں میں محبوس ہو کر خاموشی سے موت کی وادی میں اتر گیا۔
اب یہ 80فیصد غربا اور کم آمدن والے زندگی کی گاڑی کو جیسے تیسے دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں تو پھر بھی بے حس لوگ لاہور اور کراچی کے با رونق بازاروں، بھرے ریستورانوں اور سڑکوں پہ رواں گاڑیوں کو دلیل بنا کر انہیں ذلیل کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہاں ہے مہنگائی؟ ہر کوئی شفیق و حلیم تو نہیں ہوتا۔ کوئی بھی سوال کر سکتا ہے کہ تمہارا پیٹ بھرا ہوا ہے تو پھر مہنگائی کی دہائی کیوں دے رہے ہو؟ شاید اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کے پیٹ بھرے ہوں تو احساس ہی نہیں رہتا کہ اس ملک میں، شہر میں، گاؤں میں مہنگائی کے ہاتھوں کوئی بھوکا ہے یا کھانے کی مقدار کم کرنے پہ مجبور ہو گیا ہے۔
ایک اور وزیر صاحب نے قیمتی مشورہ دیا کہ اگر پٹرول مہنگا ہے تو استعمال کم کر دو۔ ٹھیک ہے لیکن اس سے جو ادویات اور اشیائے خورونوش مہنگی ہوئی ہیں وہ بھی کم کر دیں؟ یقین کیجئے ایسی مثالیں بھی موجود ہیں۔ ایک 65سالہ دوست نے بتلایا کہ اس کی ادویات 500گنا مہنگی اور اس کی قوتِ خرید سے باہر ہو گئی ہیں۔ وہ اب کم خوراکی اور کئی کلو میٹر واک کر کے شوگر کو قابو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نتیجتاً وزن گرتا جا رہا ہے اور ضعف بڑھتا جا رہا ہے۔
مہنگائی کے فوائد بتانے والے بزرجمہروں نے یہ بھی آگاہی دی کہ پاکستان میں اب بھی مہنگائی کم ہے اور پٹرول کی قیمت بھی باقی ممالک سے کم ہے لیکن یہ نہ بتایا کہ پاکستانیوں کی قوتِ خرید بھی تمام ایشیائی ممالک سے کم ہے۔ آپ کے پاس اگر 100روپے ہوں اور کسی شے کی قیمت 500روپے ہو تو یہ قوتِ خرید سے باہر ہو گی۔ آپ کے پاس اگرہزار روپے ہوں تو آپ یہ چیز فوراً خرید سکتے ہیں۔ بزرجمہرو عوام کی جیب میں پیسے کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ مہنگائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔