• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چولستان میں صدیوں پرانے تاریخی قلعے

پاکستان میں سیکڑوں پُرکشش اور تاریخی مقامات موجود ہیں ، جن میں سے ایک چولستان بھی ہے۔ تقریباً 5ہزار سال قبل دنیا فتح کرنے کی مہم کے دوران سکندر اعظم نے پاکستان کے علاقے چولستان میں اوچ قلعہ فتح کیا اور یہاں کئی روزقیام بھی کیا۔ 

ویسے تو پاکستان کے ہر علاقے میں ہی قلعے موجود ہیں لیکن صرف چولستان میں ہی 29قلعے موجود ہیں، جن میں قلعہ پھلڑافورٹ عباس، قلعہ مروٹ، قلعہ میر گڑھ، قلعہ دراوڑ، ،قلعہ بجنوٹ، قلعہ اسلام گڑھ قابل ذکر ہیں۔ بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان سے راستے صحراکی طرف تعمیر شدہ ان قلعوں تک جاتے ہیں۔ 

اس کے علاوہ محلات، مساجد، خانقاہیں، مزارات اور دیگر تاریخی عمارتیں بھی موجود ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ عدم توجہی اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے کئی شکست و ریخت کا شکار ہو کر مٹی اور ریت کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

قلعہ اسلام گڑھ

صحرائے چولستان میں ضلع رحیم یار خاں کی تحصیل خانپور کے مشرق میں اس قلعے کی تعمیر 1665ء میں راجہ راول نے بھیم ور کے نام سےکروائی تھی۔ تاہم، 1766ء میں اختیار خان مندھانی جو گڑھی اختیار خان کا سردار تھا، اس نے قلعہ فتح کرکے اس کا نام تبدیل کر کے اسلام گڑھ رکھ دیا۔ انہوں نے قلعہ کے اندر پختہ کنواں اور ایک مسجد بھی تعمیر کروائی تھی۔ یہ قلعہ پاک بھارت سرحد کے بالکل قریب (10کلومیٹر دور کی دوری) واقع ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران یہ قلعہ گولہ باری کا بھی نشانہ بنا۔

قلعہ نواں کوٹ

چولستان میں واقع قلعہ نواں کوٹ 156مربع میٹر پر اندر کی طرف پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تعمیر میں گارے کے ساتھ کچی اینٹوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے چاروں کونوں پر 45ڈایا میٹر کے برج بنائے گئے تھے مگر عدم توجہی کے باعث یہ تاریخی ورثہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ 

اس کا داخلی دروازہ 10فٹ چوڑا ہے اور اس کے دونوں اطر اف ایک قطار کی صورت میں محافظوں کے کمرے بنائے گئے تھے۔ ان کمروں کی تعمیر میں پختہ اینٹوں کا استعمال کیا گیا۔ قلعہ کے وسط میں مغربی دیوار کے ساتھ پانچ کمروں کے آثا ر ملتے ہیں۔

قلعہ بجنوٹ

یہ قلعہ راجہ ونجھا نے 1178ء میں تعمیر کروایا تھا لیکن اسے شہاب الدین غوری نے مسمار کردیا تھا۔ بعد میں راجہ کہڑ کے بیٹے راجہ تنو نے اسے ازسرنو تعمیر کیا۔ اس قلعے کا نام بیجا نوٹ رکھا گیا جو وقت کے ساتھ ساتھ بجنوٹ بن گیا۔ 1757ء میں موریا داد پوترہ نے اس کی ازسر نوتعمیر کروائی۔ 

چاروں اطراف 300فٹ تک پھیلے اس قلعے کی تعمیر میں چونے کا پتھر استعمال ہوا۔ اس کی دیواریں 21فٹ تک بلند ہیں جبکہ شمال کی طرف 11فٹ چوڑا داخلی دروازہ ہے، جس کے اردگرد 3کمرے بنائے گئے تھے۔ یہ اب کھنڈرات کی صورت میں موجود ہے مگر اپنے ماضی کی شان بیان کرتا ہے۔

قلعہ خیر گڑھ

صحرائے چولستان میں آبادی سے میلوں دور اس قلعے کی تعمیر 1775ء میں کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قلعہ اختیار خان کے بیٹے حاجی خان مندھانی داؤد پوتہ نے تعمیر کرایا۔ اس قلعے کو بھی چولستان کے دیگر چھوٹے قلعوں کی طرح دفاعی نقطہ نظر سے بنایا گیا تھا۔ یہ چاروں اطراف سے 170فٹ تک اندر کی طرف پھیلا ہوا ہے۔ 

یہ قلعہ کچی اور پکی اینٹوں سے بنایا گیا تھا، جس میں ایک تالاب بھی تھا۔ قلعے کی فصیل کے کچھ حصے پکے بھی کیے گئے تھے جبکہ داخلی دروازے کو پختہ بنایا گیا تھا اور اس کے اوپر رہائشی حصہ بھی تھا۔ اس داخلی دروازے پر پکی اینٹوں سے خوبصورت ڈیزائن بنا ہوا ہے۔ اس قلعے کے چاروں کونوں میں مٹی اور اینٹوں سے برج بنائے گئے تھے۔