بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا اور آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ اسے قدرتی وسائل کے سبب پاکستان کا امیر ترین صوبہ کہا جاتا ہے، مگر قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ وسائل بروئے کار نہ لانے کے باعث یہاں کے باسی پس ماندگی کا شکار ہیں۔ سرزمینِ بلوچستان اپنی مخصوص آب و ہوا، گرم ترین و سرد ترین موسم، صحرائوں، پہاڑوں، خشک میدانوں، سرسبز باغات، مویشیوں کی بہتات اور جنگلات کی وجہ سے ایک نمایاں و منفرد مقام کی حامل ہے۔
یہ سرزمین پھلوں اور خشک میوہ جات کی ٹوکری بھی کہلاتی ہے کہ یہاں تقریباً ہر موسم کے پھل اور خشک میووں کے باغات موجود ہیں، جب کہ یہاں گندم، چاول اور دالوں کی بہترین فصلیں بھی کاشت کی جاتی ہیں، تو صاف پانی کی سبزیاں بھی یہاں کی زراعت میں اپنا حصّہ ڈالتی ہیں۔ بلوچستان میں تقریباً آٹھ لاکھ ہیکڑ رقبے پر پھلوں اور خشک میووں کے باغات ہیں، جن سے ایک اندازے کے مطابق سالانہ 5لاکھ ٹن پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ یہاں کے سیب، انگور، آڑو، چیری، آلو بخارا، انار، تربوز، کیلا، خربوزہ، خوبانی، کھجور، آم، امرود، پپیتا، ناشپاتی، لوکاٹ، ناریل، زیتون، شہتوت، بادام، کشمکش، پستہ، چلغوزہ اور انجیر اپنے بہترین ذائقے کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک الگ ہی پہچان رکھتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق بلوچستان انگور، چیری اور بادام کی پیداوارمیں مُلک کی مجموعی قومی پیداوار میں 90فی صد حصّہ ڈالتا ہے، جب کہ آڑو، انار اور خوبانی میں 34فی صد اور سیب اور کھجور کی پیداوار میں اس کا 70فی صد حصّہ ہے۔ ڈیڑھ، دو دہائیوں سے یہاں جاپانی فروٹ، اسٹرابری کی بھی کاشت ہورہی ہے، جو بہتر نتائج دے رہی ہے۔ اسی طرح سیٹرس فیملی (کھٹ مٹھے، رسیلے پھلوں کی فیملی) سے تعلق رکھنے والے پھلوں کی بھی ایک بڑی تعداد بلوچستان کے علاقوں سبّی، کچی، تربت، ہرنائی، نصیر آباد، جعفر آباد، خضدار، لسبیلہ، جھل مگسی اور گوادر میں پیدا ہوتی ہے۔ بلوچستان کے پھلوں سے متعلق چیدہ چیدہ معلومات قارئین کی نذر ہے۔
٭سیب:بلوچستان کے مختلف علاقوں کوئٹہ، پشین، زیارت، قلّات، مستونگ، کولپور، قلعہ سیف اللہ، لورالائی، ژوب، بارکھان، ہرنائی، شیرانی، قلعہ عبداللہ، موسیٰ خیل، خضدار، آواران اور کوہلو میں سیب کے بڑے بڑے باغات ہیں، جو مُلک کی مجموعی پیداوار میں 70فی صد حصّہ ڈالتے ہیں۔ یہاں کے سیب نہ صرف اندرونِ مُلک، بلکہ بیرونِ ممالک میں بھی بے حد پسند کیے جاتے ہیں اور یہاں سیب کی تقریباً تمام ہی اقسام کے باغات موجود ہیں۔ ٭انگور:کوئٹہ، چاغی، ژوب، شیرانی، نوشکی، قلعہ سیف اللہ، بارکھان، قلعہ عبداللہ، پشین، قلّات، لورالائی، مستونگ، خضدار، آواران، پنج گور، ہرنائی، واشک، کوہلو اور خاران کے اضلاع میں انگور کاشت کیا جاتا ہے۔
جب کہ مُلک کی مجموعی پیداوار کے 90فی صد انگور انہی علاقوں سے حاصل ہوتے ہیں اور یہ بہت اعلیٰ معیار کے بھی تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ٭چیری:کوئٹہ، پشین، لورالائی، قلات، زیارت اور مستونگ میں وسیع و عریض رقبے پر چیری کی مختلف اقسام کے باغات ہیں، جن کا ملک کی مجموعی پیداوار میں 90فی صد حصہ ہے۔ ٭آلو بخارا: آلو بخارے کے باغات ژوب، بارکھان، قلعہ عبداللہ، کوئٹہ، پشین، قلات، خضدار، مستونگ، ہرنائی اور اطراف کے علاقوں میں موجود ہیں۔ ٭انار:ژوب، بارکھان، شیرانی، لورالائی، موسیٰ خیل، نوشکی، کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ، پنج گور، خضدار، قلات، واشک، آواران، خاران، ہرنائی، تربت اور کوہلو میں جابجا انار کے درخت ہیں۔ نیز، یہاں سفید انار کے درخت بھی وسیع رقبے پر موجود ہیں۔ ٭تربوز: تربوز کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، چاغی، نوشکی، لورالائی، ژوب، سبی، ہرنائی، کوہلو، ڈیرہ بگٹی، نصیر آباد، جعفر آباد، کچی، جھل مگسی، قلات، مستونگ، خضدار، آواران، خاران، واشک، لسبیلہ، تربت، پنج گور میں کاشت کیے جاتے ہیں۔ ٭کیلا: کیلے کے بڑے بڑے کھیت بیلہ وندر، گوادر، خضدار اور تُربت میں ہیں۔ یہاں کے کیلے اپنے ذائقے اور سائز کی وجہ سے مقبول ہیں۔ ٭خربوزہ: خربوزہ کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ قلعہ سیف اللہ، چاغی، نوشکی، لورالائی، ژوب، سبی، ہرنائی، کوہلو، ڈیرہ بگٹی، نصیر آباد، جعفر آباد، کچی، مستونگ، خضدار، آواران، خاران، واشک، لسبیلہ اور تربت میں کاشت کیا جاتا ہے۔ ٭خوبانی:شیرانی، ژوب، بارکھان، موسیٰ خیل، قلعہ عبداللہ، نورالائی، سیف اللہ، خضدار، قلات، زیارت، ہرنائی، مستونگ اور کوہلو میں خوبانی کے بے شمار باغات ہیں۔ ٭کھجور:بلوچستان میں کھجور کی 130اقسام پائی جاتی ہیں۔ پنج گور، لسبیلہ، واشک، تربت، خضدار، کچی، گوادر، جعفر آباد، آواران، نوشکی اور چاغی کھجوروں ہی کے لے مشہور ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف مکران سے سالانہ 0.5ملین ٹن کھجوریں حاصل ہوتی ہیں۔ کھجور کی مشہور اقسام بیگم جنگی، موزاوتی اور سبزو تُربت اور پنج گور میں ہوتی ہیں۔
٭شہتوت:کوئٹہ، پشین، زیارت، قلات، مستونگ، ہرنائی، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں سیاہ اور سفید شہتوت کے درخت پائے جاتے ہیں۔ ٭آڑو:آڑو کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ، لورالائی، بارکھان، قلعہ سیف اللہ، ژوب، شیرانی، خضدار، زیارت، قلات، مستونگ، ہرنائی اور کوہلو میں پایا جاتا ہے۔ ٭ناشپاتی:ناشپاتی کے درخت ژوب، کوئٹہ، مستونگ اور ہرنائی میں پائے جاتے ہیں۔ ٭چیکو:بیلہ، گوادر، واشک، تربت اور پنج گور میں چیکو کے کئی باغات ہیں۔ ٭پپیتا:اس کے درخت بیلہ، گوادر اور تربت میں موجود ہیں جب کہ کئی کاشت کاروں کا پپیتے کے درخت لگانے کی جانب رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ٭امرود:خضدار، جھل مگسی، بیلہ، کچی، جعفر آباد، ہرنائی، گوادر، نصیر آباد میں امرود کے بڑے بڑے باغات ہیں۔ ٭ناریل: بیلہ اور گوادر کے وسیع رقبے پر ناریل کے درخت موجود ہیں۔ ٭آم:نصیر آباد، لسبیلہ، تربت اور گوادر میں آم کے باغات لگائے گئے ہیں۔ ٭زیتون:زیتون کے درخت موسیٰ خیل، لورالائی، خضدار، بارکھان اور قلعہ سف اللہ میں ہیں۔ ٭لوکاٹ:یہ زیادہ تر ہرنائی اور گوادر میں کاشت کیا جاتا ہے۔
گرچہ بلوچستان میں متعدد اقسام کے پھل خاصی بڑی تعداد میں پیدا ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود پھلوں کی پیداوار میں اضافے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سولر ٹیوب ویلز فعال کرکے خشک زمین کو قابلِ کاشت بنایا جاسکتا ہے، تو دوسری طرف، پھلوں کو محفوظ بنانے کے لیے کولڈ اسٹوریجز، فروٹ پراسیسنگ اور پیکیجنگ سینٹرز کا قیام بھی عمل میں آنا چاہیے۔ کیوں کہ محض پھلوں کی مناسب پیکنگ اور پراسیسنگ نہ ہونے کے سبب کاشت کاروں کو سالانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ سابق دورِ حکومت میں فروٹ پراسیسنگ اور پیکیجنگ سینٹر قائم کرنے کے لیے سمیڈا کو خصوصی ٹاسک دیا گیا تھا، جس نے اس سلسلے میں کاشت کاروں اور تاجروں سے مشاورت بھی کی، تاہم یہ منصوبہ التوا کا شکار ہے۔
خشک میوے اپنے منفرد ذائقوں کی وجہ سے دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں اور یہ محض خوش ذائقہ ہی نہیں، صحت کے لیے بھی ازحد مفید ہیں۔ خشک میوے جلد خراب نہیں ہوتے، یوں انہیں لمبے عرصے تک محفوظ بھی رکھا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کے خشک میوے اپنے ذائقے کی وجہ سے الگ ہی پہچان رکھتے ہیں۔ بہرحال، ان کی مختصر تفصیل یہ ہے۔ ٭بادام:بلوچستان کا بادام ملک کی 90فی صد ضرورت پوری کرتا ہے۔ یہاں شیرانی، قلعہ سیف اللہ، موسیٰ خیل، ژوب، لورالائی، ہرنائی، بارکھان، پشین، خضدار، زیارت، مستونگ اور کوہلو میں بادام کے کئی باغات ہیں۔ ٭کشمش:بلوچستان کے کئی اضلاع میں انگوروں کو پراسیسنگ کے بعد کشمکش میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ ٭پستہ: پستے کے باغات پشین، قلات اور مستونگ میں ہیں۔ یہاں کا پستہ بہت اعلیٰ کوالٹی کا ہوتا ہے۔ ٭چلغوزہ: اسے ڈرائی فروٹ میں سب سے منہگا تصوّر کیا جاتا ہے۔ یہ ژوب اور شیرانی کے کوہِ سلیمان رینج میں پایا جاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارۂ خوراک کے اعداد و شمار کے مطابق، کوہِ سلیمان میں 26ہزار ہیکڑز پر پھیلا جنگل سالانہ چھے لاکھ 40ہزار کلو گرام چلغوزہ پیدا کرتا ہے۔ دنیا میں چلغوزے کی مانگ کا 15فی صد حصّہ پاکستان پورا کرتا ہے اور کوہِ سلیمان میں پیدا ہونے والا چلغوزہ پورے ملک کا 74فی صد ہے۔ یاد رہے، پاکستان میں خالص چلغوزے کا جنگل صرف کوہِ سلیمان رینج، بلوچستان ہی میں ہے۔ ٭انجیر:انجیر کو خشک اور تازہ دونوں حالتوں میں کھایا جاتا ہے۔ بلوچستان میں تربت اورپنج گور میں بڑی تعداد میں انجیر کے درخت موجود ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں خشک میووں کی پیداوار میں مسلسل کمی آرہی ہے اور اسی وجہ سے ان کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ ہوا ہے۔ اب یہ غریب اور متوسّط طبقے کی پہنچ سے تقریباً باہر ہوچکے ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ دکان دار من مانے نرخوں پر خشک میوے فروخت کرتے ہیں، جب کہ اس ضمن میں دکان داروں اور خشک میوے کے کاروبار سے منسلک دیگر افراد کا کہنا ہے کہ ’’پیداوار میں کمی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ باغات کے مالکان کی جانب سے منہگے داموں ڈرائی فروٹ ملتا ہے، جس کی وجہ سے مجبوراً ہم بھی قیمت بڑھا کر بیچتے ہیں۔ تاہم، ریٹ اب بھی مناسب ہیں‘‘۔
سچ تو یہ ہے کہ زراعت کا شعبہ حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران اس شعبے میں ہونے والی سرمایہ کاری میں 20فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ زمین داروں کو سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ مفت پودے، بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویہ فراہم کی جانی چاہئیں۔ اِس ضمن میں زرعی ماہرین کا موقف ہے کہ رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود بلوچستان کا زراعت میں حصہ سب سے کم ہے، جس کی بڑی وجہ پانی کی قلّت اور زمین کا بنجر ہونا ہے۔ اگر صوبے کے طول و عرض میں شمسی بور نصب کرکے پانی کی فراہمی کا بندوبست کردیا جائے، تو یہاں بھی فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ممکن ہے۔
ایوانِ صنعت و تجارت کوئٹہ، بلوچستان کے سابق سینئر نائب صدر، صلاح الدّین خلجی کا اِس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’بلوچستان کا موسم اور یہاں کی آب و ہوا قدرت کا ایک حسین تحفہ ہے، جو اس خطے کو عطا ہوا ہے، مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم زرعی شعبے پر توجہ ہی نہیں دے پارہے، جب کہ یہاں کی زمین ہر موسم کے پھل کاشت کرنے کے لیے موزوں ہے۔ عام پھل منڈی اور ڈرائی فروٹ انڈسٹری دونوں حکومتی توجہ کی متقاضی ہیں اگر جدید طرز پر کاشت کاری، پھلوں کی پیکنگ، گریڈنگ اور کولڈ اسٹوریجز کا انتظام ہو جائے، تو یہاں سے، محض اسی سیکٹر سے خطیر ریونیو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ نیز، اسی حوالے سے ایک افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ سیزن کے دَوران پڑوسی ممالک سے پھل درآمد کرکے بھی یہاں کی بزنس کمیونٹی کی کمر توڑ دی جاتی ہے‘‘۔