پاکستان میں ایک جملہ عدالتی اور جائیداد کی خرید و فروخت کے معاملات میں بہت مستعمل ہے ۔ یعنی ؛ ’’مشتری ہوشیار باش‘‘ اب چونکہ یہ فارسی سے متعلقہ ہے ، اور فارسی کا چلن ہمارے دادا اور نانا کے دور میں تھا جو فارسی سے شناسا تھے تو اِس جملے کے معنی کیا ہوئے ؟ یہ سوال اکثر آج کے لوگوں کو پریشان کرتا ہے۔ بچپن میں ہمیں بھی احساس تو تھا کہ اِس سے کیا مراد ہے ، تاہم درست مفہوم قطعاً علم میں نہ تھا۔ و ہ تو ایک دانا دوست سے پوچھا کہ اِسکا کیا مطلب ہے، تو ہمیں سمجھ آئی کہ جِس شخص کی مشت یعنی مٹّھی میں کِسی بھی شئے کی خریداری کے لیے پیسے ہیں ، وہ ہوا مشتری بس خریدار کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ آخِر وہ رقم دینے جا رہا ہے تو پہلے تَسَّلی کر لے کہ چیز ہر طرح سےٹھیک ہے۔ اگلے روز برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ہے کہ’’ برطانیہ میں موجود منی لانڈرنگ کرنے والے غیر ملکی ہوشیار ہو جائیں انہیں یہاں چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی ‘‘ ۔ ایسا نہیں ہے کہ برطانیہ میں اکنامک کرائمز یا منی لانڈرنگ سے متعلق قوانین موجود نہیں ہیں لیکن روس یوکرین حالیہ جنگ کے تناظر میں امریکہ اور یورپی یونین کا شدید دباؤ تھا کہ برطانوی حکومت ایسے روسی کھرب پتیوں کیخلاف کوئی سخت کارروائی یا پابندیاں نہیں لگا رہی جن کی ہمدردیاں روسی صدر پیوٹن کے ساتھ ہیں ، چنانچہ بورس جانسن کی یہ مجبوری بن گئی کہ وہ مذکورہ بیان دیں۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی پارلیمنٹ میں یکم مارچ کو 55نکات پر مشتمل اکنامک کرائمز بل بھی پاس کروا لیا گیا ہے اس بل کے تحت ایسے اوورسیز کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائیگا جنہوں نے برطانیہ کے بینکوں میں اربوں پاؤنڈ جمع کر رکھے ہیں یا پراپرٹی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ لگا رکھا ہے اور اگر ثابت ہوا کہ انہوں نے منی لانڈرنگ کی ہے تو ان کی پکڑ ہو گی۔ چنانچہ انتہائی سرعت سے منظور کیا جانے والا یہ بل یا قانون اصل میں روس اور اس کے شہریوں کیخلاف استعمال کیا جائیگا۔ اسی تناظر میں لندن کے ایک بڑے فٹبال کلب ’’چیلسی‘‘ کے روسی مالک Roman Abramovich نے کلب فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی ٹیگ پرائس ہی تین ارب پاؤنڈ ہوگی۔
وزیر اعظم بورس جانسن نے مذکورہ بل میں ترامیم کر کے اگرچہ یورپی یونین اور امریکہ کی طرف سے طے شدہ سزاؤں کیساتھ ہم آہنگی تو پیدا کر لی ہے لیکن اپوزیشن ’’لیبر پارٹی‘‘ نے حکومت کی اس پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے دباؤ میں آ کر یو ٹرن لیا ہے حزبِ اختلاف کی دوسری جماعتوں نے بھی اس حکومتی اقدام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا لیکن توقع کی جا رہی ہے کہ اس ماہ کے وسط تک یہ بل قانون بن جائیگا۔ گزشتہ صرف ایک ہفتہ میں وزیراعظم جانسن نے پانچ بینکوں کے علاوہ تین ارب پتی روسی افراد پر بھی پابندیاں لگائی ہیں جن میں گنیڈی تمشینکو، بورس روٹنبرگ اور ایگور روٹنبرگ شامل ہیں۔
ان افراد کے برطانیہ میں موجود تمام اثاثے منجمد کر دئیے جائیں گے اور ان پر برطانیہ آنے کی پابندی لگا دی جائے گی۔ وزیراعظم بورس جانسن کے مطابق تمام برطانوی شہریوں پر پابندی ہوگی کہ وہ ان افراد اور بینکوں سے کسی قسم کا لین دین نہ کریں۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ برطانیہ میں کتنی روسی دولت موجودہے ، روس اور د نیا بھر سے تعلق رکھنے والی امیر شخصیات اور کمپنیاں برطانیہ کی مالیاتی اور پراپرٹی مارکیٹ میں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے سرمایہ کاری کرتی رہی ہیں تاہم انسدادِ بدعنوانی کے بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے برطانیہ میں پانچ ارب پاؤنڈ مالیت کی ایسی پراپرٹی کی نشاندہی کی ہے جو ان کے مطابق ’مشکوک دولت‘ سے خریدی گئی اور اس کا پانچواں حصہ روس سے برطانیہ آیا۔ محکمہ داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ’روسی یا روس سے منسلک مشکوک دولت کی ایک بڑی تعداد‘ دیکھنے کو ملی ہے اور یہ سرمایہ عام طور پر مہنگی جائیدادوں، گاڑیوں اور کبھی کبھار ثقافت کے لیے کام کرنے والے اداروں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس سے کچھ افراد کو اپنی ’ساکھ بحال کرنے میں مدد ملتی ہے۔‘ جہاں تک بات پراپرٹی کی ہے تو ضروری نہیں کہ اسے کوئی فرد ہی خریدے بلکہ کوئی کمپنی بھی خرید سکتی ہے، اس لیے اس سے متعلق معلومات ڈھونڈنا آسان نہیں ہوتا۔ انگلینڈ اور ویلز کے اوورسیز کمپنی اونرشپ ڈیٹا بیس کے مطابق 94 ہزار پراپرٹیوں میں سے صرف چار روسی کمپنیوں کی ملکیت بتائی گئی ہیں تاہم یہ ممکن ہے کہ روسی شہری مزید پراپرٹی کے مالک بھی ہوں اور انھوں نے اس کی ملکیت برٹش ورجن آئی لینڈز جیسی جگہوں پر موجود آف شور کمپنیوں کے ذریعہ حاصل کی ہو ۔ 2018 میں برطانوی حکومت نے ایک ایسا نظام بھی متعارف کروایا تھا جس کے تحت کسی شخص کو مجرم ثابت کرنے سے قبل ہی اس کی پراپرٹی ضبط کی جا سکتی ہے۔مشکوک دولت سے متعلق بنائے گئے نظام (یو ڈبلیو او) کے تحت اس فرد کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اس کے پاس مذکورہ پراپرٹی خریدنے کے لیے رقم کہاں سے آئی۔ تاہم یہ نظام صرف چار مرتبہ استعمال کیا گیا اور صرف ایک مرتبہ ہی اس کے نتیجے میں پراپرٹی ضبط کی گئی۔ ٹوری حکومت کی جانب سے 2016 میں کہا گیا تھا کہ وہ منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے اور ایسا برطانیہ میں ان مالکان کا ریکارڈ رکھنے سے ممکن ہو سکے گا جو اس پراپرٹی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ برطانیہ نے حالیہ پابندیوں سے پہلے اعلان کیا تھا کہ روس نے اگریوکرین کے خلاف کارروائی کی تو اس کی جانب سے روس پر موجودہ پابندیوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
اور ایسے افراد جن کا براہِ راست کریملن سے تعلق ہے ان کو نشانہ بنایا جائے گا اور ان کے برطانیہ میں موجود اثاثے منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے برطانیہ میں داخلے پر بھی پابندی عائد ہو گی اور وہ کسی بھی برطانوی کمپنی کے ساتھ کاروبار نہیں کر پائیں گے۔ عموماً جتنے اوورسیز سرمایہ کار برطانیہ میں سرمایہ کاری کرتے ہیں زیادہ تر لندن میں ہی کرتے ہیں اور وسطی لندن میں دو تین میل کا ہی ایریا ہے جہاں دوسروں کی طرح پاکستانی سیاستدانوں، بیوروکریٹس، اعلیٰ فوجی افسر، سرمایہ کاروں اور بعض صحافیوں کی بھی جائیدادیں موجود ہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ ہمارے یہ تمام ’’امرا‘‘ اس نئے اکنامک کرائمز بل کی زد میں نہیں آئیں گے کیونکہ اپنے تئیں ان سب نے منی لانڈرنگ تھوڑا ہی کی ہے لیکن ہمارے ان تمام ’’شفاف‘‘ لوگوں کو بھی نوید ہو کہ ’’ مشتری ہوشیار باش‘‘!