کے ایچ خورشید اِس سرزمین کے ایک ایسے سپوت ہیں جو اپنی بلند نگاہی اور دلنواز سخن وری کے باعث لیڈر شپ کے آسمان پر خورشید بن کر چمکے۔ ایسا خورشید جس کی آب و تاب 34سال بعد بھی معدوم نہیں ہو سکی۔ اُنہیں لوگ محبت سے خورشیدِ ملت بھی پکارتے ہیں۔ 1924میں سرینگر کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ خورشید کے گھر میں جس چیز کی سب سے زیادہ اہمیت تھی، وہ تعلیم اور تہذیب تھی۔ یہ ہندوستان میں سیاسی افراتفری کا دور تھا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست سے متاثر تھے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ خورشید قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں پروان چڑھے۔ انہیں اس تحریک کا حصہ بننے کا اعزاز حاصل ہوا جس کی تکمیل پاکستان کی شکل میں ہوئی۔ وہ ایک ایسے کشمیری ہیں جنہوں نے تحریکِ پاکستان کے دوران پیش آنے والے واقعات سب سے زیادہ قریب سے دیکھے۔ قائد سے خورشید کی پہلی ملاقات جالندھر میں ہوئی، دوسری مرتبہ ان کے دورۂ کشمیر کے دوران اورینٹ پریس کے نمائندے کی حیثیت سے ہوئی۔ ان ملاقاتوں میں قائد نے خورشید کی ذہانت، متانت اور قابل بھروسہ ہونے کی صلاحیتیں جانچ لی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگلے دورہ سرینگر میں انہوں نے خورشید کی طرف سے اپنی تقاریر کے اردو ترجمہ میں مدد کرنے کی پیشکش بخوشی قبول کی۔ اس دورے کے اختتام تک باہم اعتماد کا تعلق اور ذہنی ہم آہنگی اتنی بڑھ چکی تھی کہ کہ قائد نے اس 20سالہ کشمیری نوجوان کو اپنے اسٹاف میں شامل کرنے کی پیشکش کر دی۔ یہاں سے گویا خورشید کی زندگی کا رُخ ہی بدل گیا۔ جناح صاحب کے ساتھ گزرے چند سال نے نوجوان خورشید کو دیانتداری، مضبوط ارادے اور مقاصد میں یقین کے ساتھ ساتھ سیاسی پختگی بھی عطا کی۔ قائداعظم جیسے عالمی سطح کے رہنما کی طرف سے اتنے اہم کام کے لیے ایک کشمیری نوعمر نوجوان کا انتخاب بجائے خود کشمیر کیلئے ایک اعزاز تھا۔
کے ایچ خورشید کی قائداعظم اور ان کے خاندان کے ساتھ قربت کا یہ عالم تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد سرینگر میں قید کیے گئے تو قائد نے ہندوستان کے وزیراعظم کو خط لکھ کر آپ کی رہائی کیلئے کوشش کی۔ قائد کی وفات کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے آپ کو ہمیشہ اپنے قریب رکھا۔ وہ آپ کو اپنا بیٹا کہا کرتی تھیں۔ خورشید کی شادی اپنی کزن بیگم ثریا سے ہوئی۔ آپ معروف صحافی اور لکھاری خالد حسن کی بہن تھیں جو سعادت حسن منٹو کے افسانوں اور فیض احمد فیض کی شاعری کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کے باعث مشہور ہیں۔ معروف بیوروکریٹ فواد حسن فواد، معروف بیوروکریٹ بھی آپ کے بھائی اور خورشید کے برادر نسبتی تھے۔ خورشید ازدواجی بندھن میں بندھے تو محترمہ فاطمہ جناح کے فلیگ اسٹاف ہائوس کراچی میں ہی رہائش پذیر تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن 1965لڑا تو خورشید ان کی الیکشن مہم کے سربراہ تھے۔ بانیٔ پاکستان کے خاندان سے اس قدر قربت اور پاکستانی سیاسی شخصیات میں اس قدر با اثر ہونے کے باوجود آپ نے کبھی پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی کی بیساکھی استعمال کرنے کو شایانِ شان نہ سمجھا اور نہ کبھی قومی سیاست میں مداخلت کی۔خورشید ملت ایک صاحب الرائے اور صاحبِ نظر آدمی تھے۔ وہ جس منصب پر بھی رہے، جس عہدے پر بھی کام کیا اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔آپ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے لیگل ایڈوائزر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ آزادکشمیر کے صدربنائے گئے تو یہاں کے لوگوں اور پاکستان میں آباد کشمیری مہاجرین کو ووٹ کا حق دیا، بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت انتخابات کے ذریعے پہلے منتخب صدر ریاست ہونے کا اعزاز حاصل کیا، پہلی بار قانون ساز کونسل قائم کی جسے بعد میں آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں تبدیل کر دیا گیا۔
خورشید ملت صاحب فکر و دانش سیاست دان تھے۔ ان کی بصیرت مستقبل میں پیش آنے والی مشکلات اور پیچ و خم کو دیکھ سکتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے 1962 میں لبریشن لیگ کے نام سے سیاسی پارٹی بناتے وقت مسئلہ کشمیر کا ایک ایسا سیاسی حل تجویز کیا جو آج بھی قابلِ غور، قابلِ بحث اور قابلِ عمل ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ناقابلِ تقسیم اکائی ہے۔ اور جموں و کشمیر کے عوام کے اجتماعی مقصد کے حصول کے لیے آزاد کشمیر کی حکومت کو، پوری ریاست (بشمول گلگت بلتستان اور مقبوضہ جموں و کشمیر) کی نمائندہ حکومت کے طور پر تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔ نیز یہ کہ ریاستی عوام کو، ریاست کے مستقبل کے بارے میں، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق، آزادانہ طور پر فیصلہ کرنے کا حق دیا جانا ضروری ہے۔ یہی وہ نکات تھے جن پر 5 اگست 1968کو آزادکشمیر کی تینوں اہم سیاسی پارٹیوں کے مابین مشترکہ جدوجہد کا عزم کیا گیا۔ اس مشترکہ جدوجہد کو اتحاد ثلاثہ کا نام دیا گیا۔ اس اتحاد میں مسلم کانفرنس کی طرف سے مجاہدِ اول سردار عبدالقیوم خان، آزادمسلم کانفرنس کی طرف سے غازی ملت سردار ابراہیم خان اور لبریشن لیگ کی طرف سے خورشیدِ ملت شامل تھے۔ گو کہ یہ اتحاد تادیر اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا، تاہم خورشید کا نظریہ آج نصف صدی گزرنے کے باوجود اپنا مقام رکھتا ہے۔ آج جب مسئلہ کشمیرپہلے سے زیادہ پیچیدہ صورتحال اختیار کر چکا ہے تو مختلف سیاست دان انہی کے نظریے کی ظاہراً یا ڈھکے چھپے الفاظ میں تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ خورشید کا نظریہ ان کے نام کی طرح روشن اور واضح ہے، اور وقت کی گرد یا الزامات کی ظلمت اسے دھندلا نہیں سکی۔اپنے نظریے پرڈٹ کر کھڑے رہنے والے خورشید نے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کا جو سبق قائد اعظم سے لیا تھا، اسے کڑے سے کڑے وقت میں بھی نہ بھلایا۔ یہ مرد درویش جب 11 مارچ 1988 کوایک پبلک بس میں سفر کرتے ہوئے بظاہر ایکسیڈنٹ کا شکار ہو کر خالقِ حقیقی سے جا ملا تو جیب میں 37 روپے 4 آنے تھے۔ کرائے کا بوسیدہ مکان، پبلک بس پر سفر اور پھٹے ہوئے موزے اس بات کا ثبوت تھے کہ اس شخص کی اصل دولت اپنی ریاست کے عوام کے حقوق کی جدوجہد تھی۔