• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت نے رواں ماہ 3مارچ کو صنعتی شعبے کے فروغ کیلئے ’’انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس2022ء‘‘ کے ذریعے نئی ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 5فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر کالے دھن کو سفید کیا جاسکے گا جب کہ آمدنی کے ذرائع کے متعلق بھی نہیں پوچھا جائے گا اور ظاہر کئے گئے اثاثے اور معلومات ایف بی آر، نیب، ایف آئی اے یا کسی ادارے کو فراہم نہیں کی جائیں گی۔ سرمایہ کار کو اس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے کیلئے دسمبر 2022ء تک نئی کمپنی بنانی ہوگی اور جون 2024ء تک لگائی گئی صنعت سے پیداوار شروع کرنا لازمی ہوگا۔ اسکیم کے تحت بنائی گئی کمپنی اور اس کے اثاثوں کی ملکیت کو 30 جون 2026ء تک فروخت نہیں کیا جاسکے گا۔

ایمنسٹی اسکیم کے تحت بیمار صنعتی یونٹوں کو خرید کر منافع بخش بنانے کیلئے سرمایہ کاروں کو 3سال تک ٹیکس استثنیٰ حاصل ہوگا جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اس اسکیم کے تحت سرمایہ کاری کرنے پر 5سال تک ٹیکس کی چھوٹ حاصل ہوگی۔ ایمنسٹی اسکیم، جس کو انڈسٹریل پیکیج 2022ء بھی کہا گیا ہے، میں سرمایہ کاری کی کم از کم حد 5کروڑ روپے ہے۔ 2018ء اور 2019ء کی سابقہ ایمنسٹی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والے اس صنعتی پیکیج کے اہل نہیں ہوں گے جب کہ گزشتہ 3سال میں بینک کے ڈیفالٹرز، پبلک آفس ہولڈرز اور اُن کے اہل خانہ، شوگر اور فلور ملز جیسی صنعتیں بھی اس صنعتی پیکیج سے مستفید نہیں ہوسکیں گی۔ ایمنسٹی اسکیم کے تحت وہ کمپنیاں جو گزشتہ 3 سال سے خسارے میں ہیں، انہیں منافع کمانے والی کمپنیوں میں ضم کیا جاسکے گا اور منافع کمانے والی کمپنی آئندہ 3سال میں خسارے میں چلنے والی کمپنی کے ٹیکس نقصانات ایڈجسٹ کرسکے گی۔ ملک اور بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے بیرون ملک اثاثوں کو صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کیلئے اگر پاکستان منتقل کرتے ہیں تو وہ آئندہ 5 سال کیلئے 100 فیصد ٹیکس کریڈٹ کے حق دار ہوں گے جبکہ اس اسکیم کے تحت صنعتکار اپنی موجودہ صنعتوں کو بھی BMR کے ذریعے متوازن یا جدید بنانے کی سہولت سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔کالے دھن کو سفید کرنے کی پی ٹی آئی حکومت کی یہ تیسری ایمنسٹی اسکیم ہے۔ پہلی دو اسکیمیں 2018ء اور 2019ء میں لائی گئی تھیں جس میں آخری ایمنسٹی اسکیم تعمیراتی شعبے کیلئے تھی۔ IMF اور FATF کالے دھن کو سفید کرنے کی ترغیب کے سخت مخالف ہیں۔ حکومت نے ابھی تک یہ بات واضح نہیں کی کہ اس نئی صنعتی ایمنسٹی اسکیم میں آئی ایم ایف کی رضا مندی شامل ہے یا نہیں کیونکہ ان کے مطابق ایمنسٹی اسکیمیں ناجائز اور ٹیکس چوروں کے کالے دھن کو معمولی ٹیکس کی ادائیگی پر قانونی حیثیت دیتی ہیں جبکہ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اس ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں (SMEs) میں سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا جس سے ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم ملک میں صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کی دولت میں اضافےکے خواہاں ہیں جبکہ ایک وقت تھا جب زیادہ دولت کمانا جرم تصور کیا جاتا تھا جو کہ ایک غلط تاثر تھا۔ مجھ سے نئی ایمنسٹی اسکیم پر بے شمار قارئین نے اپنی رائے دینے کی درخواست کی ہے۔ میں ہمیشہ سے معیشت کو دستاویزی شکل دینے، صنعتوں بالخصوص SMEs کو فروغ دینے، ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے اور ایکسپورٹ میں اضافے کا حامی رہا ہوں لیکن بار بار ایمنسٹی اسکیمیں لانے، 24فیصد انکم ٹیکس اور 29فیصد جرمانے کو معاف کرکے 5فیصد ٹیکس پر اپنے کالے دھن کو سفید کرنے سے ایماندار اور فرض شناس ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے جو باقاعدگی سے ہر سال ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ صنعتی شعبے پر پہلے ہی ٹیکس کا اضافی بوجھ ہے جس کیلئے ٹیکس اصلاحات کا لانا ضروری ہے۔ میرے نزدیک صرف ٹیکس کی چھوٹ دینے سے ملک میں صنعت کاری کا فروغ ممکن نہیں بلکہ اس کیلئے ہمیں انفرااسٹرکچر، بجلی، گیس اور پانی کی مسابقتی نرخوں پر مسلسل فراہمی، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو قرضوں اور سستے انڈسٹریل پلاٹس کی دستیابی کو بھی اس انڈسٹریل پیکیج میں شامل کرنا ہوگا کیونکہ گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ، پانی کی عدم دستیابی اور صنعتی علاقوں میں انتہائی مہنگے انڈسٹریل پلاٹس دراصل ملک میں صنعتکاری کے فروغ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

ملکی معیشت میں اس وقت صنعت کا حصہ 20فیصد، زراعت کا 20فیصد اور سروس سیکٹر کا 60 فیصد ہے۔ وزیراعظم کا ملکی معیشت میں صنعتی شعبے کا حصہ بڑھانے کا اعلان خوش آئند قدم ہے لیکن گزشتہ ساڑھے تین سال میں زراعت کے فروغ کیلئے کوئی ریلیف پیکیج یا عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔ جدید بیجوں کی عدم دستیابی کے باعث کاٹن سمیت ہماری کئی اہم فصلوں کی پیداوار میں مسلسل کمی آرہی ہے ، آج ہم 8ارب ڈالر مالیت کی زرعی اجناس گندم مثلاًچینی، دالیں اور خوردنی تیل وغیرہ امپورٹ کررہے ہیں جبکہ ایک زمانےمیں ہم انہیں ایکسپورٹ کرتے تھے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ زراعت کے شعبے کیلئے بھی عملی اقدامات کرے جس سے ملک میں مہنگائی اور غربت میں کمی آئے گی۔

تازہ ترین