• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے گزشتہ کالم میں فروری 2015 ء میں سینیٹ کے ممبران اور پارلیمنٹ کے دیگر ممبران کو سمندر کی سطح بلند ہونے کے سندھ اور بلوچستان کے علاوہ انڈس ڈیلٹا پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہونے کے بارے میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنو گرافی (این آئی او) کے سربراہ ڈاکٹر آصف انعام کی طرف سے خطرات سے متعلق تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا تھا۔ اس بریفنگ میں ان خطرات سے پارلیمنٹرین کو آگاہ کیا گیا کہ سندھ کے دو اضلاع بدین اور ٹھٹھہ تو 2050 ء تک سمندر برد ہوجائیں گے جبکہ کراچی، جس کی آبادی 2 کروڑ سے بھی زیادہ ہے، کے بارے میں امکان ظاہر کیا گیا کہ وہ بھی شاید 2060 ء تک سمندر برد ہوجائے۔ این آئی او کے سربراہ نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ سمندر کی سطح مسلسل بلند ہونے کی وجہ سے بدین اور ٹھٹھہ اضلاع کے کئی ساحلی علاقے پہلے ہی سمندر برد ہوچکے ہیں، یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ ٹھٹھہ اور بدین کے باشندے کافی عرصے سے کہتے آرہے ہیں کہ ایک وقت تھا جب ٹھٹھہ اور بدین کے ساحلی علاقے سمندر میں کافی آگے تھے،ان کی اطلاعات کے مطابق ٹھٹھہ اور بدین کے ان ساحلی علاقوں میں خاص طور پر سندھ میں کاشت ہونے والی کاٹن جسے سندھ میں پھُٹیّ کہا جاتا ہے، کے ایک سے زیادہ کارخانے تھے۔ یہ بات بھی کم دلچسپ نہیں کہ کسی زمانے میں سندھ میں پیدا ہونے والی پھُٹیّ تین رنگوں کی ہوتی تھی، ان میں سے ایک سفید رنگ کی تو اب تک موجود ہے جبکہ باقی دو میں سے ایک کا رنگ سنہری (گولڈن) ہوتا تھا، اس رنگ کی پھٹی کی بیرون ملک کافی طلب تھی،خاص طور پر مصر کے حکمران جو اس وقت فرعون ہوتے تھے وہ سال میں کئی بار سمندری جہاز ٹھٹھہ بھیجتے تھے جو ٹھٹھہ کی سنہری (گولڈن) رنگ کی پھٹی خرید تے تھے بعد میں جب فرعونوں میں سے کوئی مرد یا عورت انتقال کرجاتی تو ان کے جنازوں کو سندھ کی اس گولڈن پھٹی سے بنے ہوئے کپڑے میں لپیٹ کر رکھا جاتا تھا۔ بہرحال این آئی او کے سربراہ نے اپنی بریفنگ میں انکشاف کیا کہ کراچی کے علاقے ملیر کے کافی وسیع علاقے سمندر کے پانی کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے پہلے ہی کافی حد تک سمندر برد ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اس بریفنگ میں خبردار کیا کہ اس صورتحال کو درست کرنے کے لیے ضروری اقدامات کئے جائیں مگر بڑا افسوس کہ ملکی اور غیر ملکی ماحولیاتی ماہرین کی طرف سے ظاہر کئے گئے ان اندیشوں کے باوجود نہ ہمارے حکمرانوں نے اور نہ ہی پاکستان کے ماحولیاتی اداروں نے کوئی ضروری اقدامات کئے شاید یہی وجہ تھی کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے اس بات کا نوٹس لیا اور کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر ساجد میر، جو سینیٹ کے ممبر ہونے کے ساتھ مرکزی جماعت اہلسنت پاکستان کے صدر بھی تھے، نے ملک کے اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو ایک لیٹر لکھاکہ ’’میں یہ خط ایک انتہائی اہم ایشو آپ کے علم میں لانے کے لیے لکھ رہا ہوں، اس ایشو پر آپ کی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ آپ کی طرف سے اس ایشو میں دلچسپی لینے اور آپ کے احکامات کے تحت اس صورتحال کو درست کرنے کے لیے فوری اقدامات کئے جائیں۔ میں آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نےاپنے اجلاس میں سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں سمندری جارحیت (Sea Intrusion) کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں اگلے 30 سال کے دوران بدین اور ٹھٹھہ سمندر میں ڈوبنے لگیں گے اور بعد میں سمندر میں ڈوبنے کا نمبر کراچی کا ہوگا‘‘۔ لیٹر میں کہا گیا کہ اس کمیٹی نے اس ایشو پر جو سفارشات تیار کی ہیں وہ بھی خط کے ساتھ بھیجی جارہی ہیں۔ وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا گیا کہ ’’ایکسیلنسی ! اس ایشو میں آپ کی مداخلت کی شدید ضرورت ہے تاکہ آپ متعلقہ حکام کو ہدایات دیں کہ وہ اس کمیٹی کی سفارشات پر عمل کریں اور اس مسئلے کو حل کریں جس پر پاکستان کے عوام خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کے عوام کو شدید تشویش ہے‘‘۔ کمیٹی کی سفارشات میں کہا گیا کہ پانی اور بجلی کی وفاقی وزارت، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنو گرافی (این آئی او) اور دیگر متعلقہ اداروں کی طرف سے تحقیقاتی اسٹیڈی شروع کی جائے تاکہ جلد از جلد سندھ اور بلوچستان کے ساحلی ترقیاتی ادارے اور دونوں صوبوں کے ریونیو بورڈ اور آب وہوا کی تبدیلی والی وزارت سے مل کر اس Sea Intrusion کا جائزہ لیں،سمندری مداخلت کی وجہ سے کسی بھی غیر متوقع صورتحال کو روکنے کے لیے این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے سی کی مدد حاصل کی جائے، کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی کہ پاکستان میں کوئلے کے پھٹنے کے بارے میں ڈبلیو ڈبلیو ایف،سی آئی یو سی این، یو این ای پی وغیرہ سے اس سلسلے میں قومی جائزہ رپورٹ تیار کرائی جائے اور یہ معلومات این آئی او و دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مشترکہ طور پر استعمال کی جائیں۔

تازہ ترین