• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

سیالکوٹ میں سری لنکن شہری، پریانتھا کمارا کی ہلاکت کے حوالے سے سعادت حسن منٹو کا ایک افسانچہ میرے الفاظ میں۔ ہندوستان کی تقسیم کے پس منظر میں چند سطروں پر مشتمل ایک قتل کا قصہ، جس میں نہ قاتل کا نام ہے، نہ مقتول کی شناخت۔ بلوائی ایک شخص کو چاقو سے قتل کرتا ہے۔ کٹے آزاربند کے ساتھ، زمین پر گرنے سے، لاش برہنہ ہو جاتی ہے۔ قاتل زیرِ ناف عریاں حصے پر نظر ڈال کر کہتا ہے ۔ ’’چ‘ چ مِشٹیک (غلطی، Mistake) ہو گیا۔‘‘ سیالکوٹ کے ، جنونی ہجوم سے بھی ایک ’’مِشٹیک‘‘ ہوئی۔ ہلاکت کے بعد، بے گناہ شخص کی لاش کو سرِ عام جلایا گیا ۔ اِس وحشت اور بربریت کے مظاہرے نے دُنیا بھر میں پاکستان کے تشخص کو مجروح کیا۔ قارئین سوچ سکتے ہیں کہ اِس پُر آشوب دور میں، ایک غیر مسلم انجینئر، وطن سے دُور، پاکستان میں کیا کر رہا تھا؟ اُسے خطرہ مول لینے کی کیا ضرورت تھی؟ جواب کی تلاش مجھے سیالکوٹ کی فیکٹری لے گئی جہاں یہ واقعہ شروع ہوا تھا۔

پریانتھا کمارا کو بڑی تنخواہ کا لالچ دے کر پاکستان لایا گیا۔ اِس ضرورت کا تعلق، تربیت یافتہ افرادی قوت کی عدم دستیابی سے جُڑا ہے۔ پاکستان اِس لحاظ سے ایک بدقسمت ملک ہے کہ گزشتہ ستر سال میں،حکومت چاہے سیاسی ہو یا فوجی، غیر یقینی حالات سے دوچار رہی۔ برآمدات کے فروغ سے متعلق، طویل المدت کی پالیسیاں نہ بن سکیں۔ تجارتی خسارے میں اضافہ، زرِ مبادلہ کے ذخائر پر بوجھ ڈالتا رہا۔ روپے کی قیمت کو سنبھالا دینے کے لیے، ہمیں بار بار اقتدر اعلیٰ پر سمجھوتہ کرتے ہوئے، ناپسندیدہ شرائط قبول کرنا پڑتی ہیں۔ یہ صرف حالات کا جبرہے ، ورنہ ہماری صنعتی پیداوار میں ترقی کے امکان کسی دُوسرے ملک سے نہ کم تھے ، نہ آج ہیں۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں مال بیچنے کا مقابلہ ہو تو خریدار کا سکہ چلتا ہے۔ اِس منڈی میں لاگت اور معیار پر سمجھوتہ نہیں ہوتا۔ اِس تناظر میں ایکسپورٹر کے لیے، ہُنرمند کاریگروں کی ضرورت سب سے اہم عنصر ہے۔

سیالکوٹ ایک زمانے میں ، کھیلوں کے سامان اور آلات جراحی کی ایکسپورٹ کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا۔ پھر چند دیدہ ور صنعت کاروں، جن میں کوہِ نور ہوزری، تھاپر انڈسٹری‘ وائٹل سپورٹس کے مالک مرزا اقبال مرحوم، سعید احمد برلاس، شیخ التان عظمت، پیک انڈسٹری کے شیخ محبوب مرحوم اور خواجہ انور مرحوم نے 1970-80کی دہائی میں بھانپ لیا کہ اسپورٹس گڈز اور کھلاڑیوں کا لباس ایک دُوسرے سے منسلک ہیں۔ پہلے پہل ٹریک سوٹ، پھر ٹی شرٹ، جوڈو کراٹے کی یونیفارم اور کھلاڑیوں کے لباس کی برآمد شروع ہوئی۔ اب سیالکوٹ کی ٹیکسٹائل اور گارمنٹس انڈسٹری ایک قدم آگے جا چکی ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں مرد و خواتین کے آرام دہ (Leisure wear) ، اعلیٰ کوالٹی کے لباس، دُنیا کے مشہور برانڈز کے لیے یہیں تیار ہوتے ہیں۔ بہت سے قارئین کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ اب سیالکوٹ کی ایکسپورٹ میں پہلا نمبر ٹیکسٹائل اور گارمنٹس اندسٹری کی مصنوعات کا ہے۔ سیالکوٹ کی فیکٹریوں کے لیے بزنس کو مزید ترقی دینا مشکل نہیں۔ مسئلہ تربیت یافتہ افرادی قوت کی دستیابی سے منسلک ہے۔ بے ہُنر کاریگر نوکری کے دوران، غلطیاں کرکے سیکھتے ہیں۔اُن کی کوتاہیوں سے پیداواری لاگت میں اضافہ، بہت سے صنعتی یونٹ بند کرنے کا باعث بنتا رہا ہے۔ صنعت کاروں کی نمائندہ تنظیموں کو اِس مشکل کا احساس ہے مگر وہ اِس مطالبے پر زور نہیں دیتیں۔ اُنہیں ادراک ہے کہ ہُنرمند افرادی قوت کی کمی ایک دو سال میں پوری نہیں ہو سکتی۔ اِسی لیے وہ کسی طویل مدتی منصوبے کی بجائے، فوری امداد کے لیے، مالیاتی مراعات مانگتے ہیں۔ تلخ حقیقت ہے کہ ٹیکسٹائل اور گارمنٹ فیکٹری میں درکار ہُنرمند کاریگروں کے لیے اشتہار دیا جائے تو اُمیدواروں کے پاس نہ ڈپلومہ ہو گا، نہ سند۔ کیونکہ ہم نے ابھی تک کوئی ادارہ قائم ہی نہیں کیا جہاں متعلقہ ایکسپورٹ انڈسٹری کے لیے ہُنر سکھایا جائے۔ پنجاب میں 1989-90 کے دوران ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی بنی تو توقع کے خلاف ایکسپورٹ سیکٹر کی طرف توجہ نہ ہوئی۔

ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کومواقع نہیں ملتے۔ افسوس ہے کہ ہم اُنہیں ضائع کرتے ہیں۔ چین میں کاریگروں کی بڑھتی تنخواہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا، تو فیکٹریاں دُوسرے ملکوں میں منتقل کرنے کا رُحجان شروع ہوا۔ سیکرٹری کامرس کی حیثیت سے، چینی ٹیکسٹائل کمپنیوں کے مالکان پر مشتمل، ایک تنظیم سے درخواست کی کہ منتقلی کے لیے، پاکستان سب سے مناسب جگہ ہے۔ اِس مشورے کو رد کرتے ہوئے، اُن کا جواب تھا کہ پاکستان میں ایک ڈائنگ ماسٹر کو تربیت دینے کے لیے بھی کوئی درسگاہ موجود نہیں۔ وہ فیکٹریاں پاکستان منتقل کریں تو ہُنرمند کاریگر چین سے لانے ہوں گے۔ لاگت میں کمی نہ ہو گی۔ اُن کا مشورہ تھا کہ پاکستان کو سب سے پہلے اپنے غیر تربیت یافتہ ورکرز کی ٹریننگ کا بندوبست کرنا چاہیے۔

پریانتھا کمارا ،راج کو فیکٹری میں پروڈکشن انچارج تھا جہاں دُنیا کے بہترین برانڈ کے لیے عُمدہ کوالٹی کا لباس تیار ہوتا ہے۔ خریدار مال کی کوالٹی پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ سلائی میں ذرا سی کوتاہی پر تیار مال رد ہو جاتا ہے۔ غیر تربیت یافتہ کارکنوں کو غلطیوں اور لاپروائی سے روکنا، برآمدی یونٹ کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ فیکٹری کے مالک، اعجاز بھٹی کا کہنا تھا کہ اِسی مجبوری کے تحت، سری لنکا سے پریانتھا کمارا کو پاکستان بلوایا۔ انجہانی فیکٹری میں پروڈکشن انچارج تھا۔ اُسے دفتر کے آرام دہ ماحول کی بجائے پیداواری عمل میں کاریگروں کے کام کی نگرانی میں عار نہ تھی۔ دلجمعی سے فرائض کی ادائیگی میں نہ کسی کی طرف داری کرتا اور نہ معیار پر سمجھوتہ ۔ شاید اِسی وجہ سے نااہل کارکن اُسے ناپسند کرتے تھے۔

سیالکوٹ کو انجینئرز کی اتنی ضرورت نہیں جتنی حاجت، ہُنر مند کاریگروں کی ہے، جو فیکٹری فلور پر کام کر سکیں۔ مگر ہمیں کم لاگت کے تربیتی مراکز کی بجائے عظیم الشان پروجیکٹ بنانے کا شوق ہے۔ اگست 2005 کے دوران، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ارباب اختیار سیالکوٹ تشریف لائے۔ اعلان ہوا کہ سیالکوٹ میں انجینئرنگ یونیورسٹی بنے گی۔ اور پہلے سمسٹر کا آغاز 2008میں ہو گا۔ کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، مگر یونیورسٹی نہ بن سکی۔ اربوں روپے کے پروجیکٹ کی فزیبلٹی تیار ہوئی اور سیالکوٹ چیمبر کے مطابق 9 دسمبر 2020 کو ،وزیرِ اعظم پاکستان کے دستِ مبارک سے سنگ بنیاد نصب کیا گیا، مگر تلخ حقیقت ہے کہ اُس خطۂ زمین پر، سنگ بنیاد بھی نظر نہیں آیا۔

تازہ ترین