• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پلاسٹک کی آلودگی دنیا بھر کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں برازیلی سائنسدانوں نے جراثیم کُش، ازخود تلف ہونے بلکہ کھانے کے قابل پلاسٹک تیار کیا ہے۔ برازیل کی ساؤپالویونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر مارسیا ریگینا ڈی مورا نے حیاتیاتی پالیمر سے یہ سبز پلاسٹک بنایا ہے۔ جسے ’’بایوپلاسٹک‘ ‘کا نام دیا گیا ہے۔ ماہرین نے پہلے سے تیار کردہ مویشیوں کے جیلاٹن پر مبنی پلاسٹک لیا، جسے ٹائپ بی بووائن جیلاٹن بھی کہا جاتا ہے۔ 

یہ بے رنگ ، بے بو اور بے ذائقہ پاؤڈر کی شکل میں بھی ملتا ہے۔لیکن اس میں مضبوطی اور لچک ویسی نہیں ہوتی جو عام پیٹرولیئم پلاسٹک میں ہوتی ہے۔ ڈاکٹر مارسیا نے اس کے لیے ایک خاص قسم کا گارا یعنی نینو کلے ملایا ،جس میں سوڈیئم Na+ بھی شامل کیا گیا۔ 

اس طرح پلاسٹک میں لچک اور مضبوطی بڑھی ،جس کی ٹینسائل اسٹرینتھ 70 میگاپکسل تک چلی گئی۔ لیکن اس میں سیاہ مرچ سے اخذکردہ نینو ایملشن بھی شامل کیا تھا،جس کے بعد پلاسٹک میں بو آگئی اور ذائقہ بھی پیدا ہوگیا۔ اس مرکب سے پلاسٹک کو ذخیرہ کرنے کی مدت بھی بڑھ گئی۔

لیکن ماہرین کو آخر میں معلوم ہو اکہ یہ پلاسٹک اینٹی آکسیڈنٹ اور اینٹی مائیکروبئیل خواص بھی رکھتا ہے۔ ماہرین کو اُمید ہے کہ یہ کم خرچ اور ماحول دوست پلاسٹک کم ازکم تھیلیوں اور پیکنگ میں استعمال ہوسکتا ہے۔ اس طرح یہ روایتی پلاسٹک کے مقابلے میں بہت مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید