تسلیم اشرف
اسسٹنٹ پروفیسر،سابق صدر
شعبہ ارضیات وفاقی اردویونیورسٹی
انیسویں صدی میں براعظموں کی حرکات اور علیحدگی سے منسلک ایک ’’مفروضہ‘‘ نے جنم لیا، جس کی بازگشت دنیا بھر کے سائنسی حلقوں میں سنائی دے رہی تھی۔ آواز کی اس گونج میں سب سے نمایاں آواز جرمنی کے ایک عظیم سائنسدان ’’الفرڈوینگر‘‘(Alfred Wegener) کو حاصل تھی،جس نے پہلی مرتبہ اس پوشیدہ حقیقت کو اجاگر کیا تھا کہ براعظم اور بحراعظم جو آج الگ الگ نظر آتے ہیں پیدائشی طور پر ایک تھے۔
اس خیال کو ایک ’’مفروضہ‘‘ (عملی طور پر غیر مستند) کے حوالے سے ایک عرصہ دراز تک ’’براعظمی علیحدگی‘‘ (Continental Drift) کے طور پر صرف قبول عام کی سند حاصل رہی، کیوں کہ عملی شواہد اور دلائل ناکافی تھیں لیکن سائنسی ’’جہدِ مسلسل‘‘ یعنی نت نئے تجربات ارضی نقشہ جات، اعداد وشمار، ارضی طبعی سروے اور میدانی مشاہدات کی بنیاد پر اہل سائنس نے انیسویں صدی کے پیش کردہ ’’مفروضہ‘‘ کو 1960ء کے عشرے میں ایک انقلاب آفریں دریافت قراردے کر) ’’نظریہ‘‘ عملی طور پر مستند)کے درجہ پر فائز کردیا۔
جسے جدید ارضی علوم نسبتاً جدید نظریہ ’’پلیٹ ٹیکٹونکس‘‘ یا ’’متحرک پلیٹس‘‘ کے نام سے مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس ہمہ گیر نظریہ نے زلزلے، آتش فشاں اور دیگر اراضیاتی سرگرمیوں کے بارے میں زمانہ قبل از تاریخ سے جو خیالات، مفروضے اور ابہام پائے جاتے تھے وہ ریت کی دیوار کی طرح ڈھیر ہوگئے۔ یہاں پلیٹ سے مراد یہ ہے کہ زمین کے نیچے تقریباً تیس یا چالیس مجموعی طور پر 100کلو میٹر کی گہرائی (لیتھوسفیر) میں ایسی چٹانی بلاکس موجود ہیں جو ایک مسلّم چٹانی اکائی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ٹھوس سخت ’’حرکی سِل‘‘ سے مشابہت رکھتی ہیں، جس کے اطراف دراڑ زدہ حاشیہ ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح جیسا کہ ایک اُبلے ہوئے انڈے کے خول میں پیدا ہوجاتے ہیں ۔
طبقات الارض کے ماہرین کے مطابق اب تک آٹھ بڑی پلیٹیں بشمول کچھ درجنوں چھوٹی پلیٹ دریافت ہوئی ہیں جن کی اجزاء ترکیبی یا تو پوری طور پر بحری (سمندری) فرش پر مشتمل ہوتی ہیں۔ مثلاً نازکا پلیٹ(Nazca Plate)یا پھر بری اور بحری چٹانی بلاک پر مثلاً شمالی امریکا پلیٹ اس پلیٹ کا مغربی حصہ براعظم شمالی امریکا جب کہ مشرقی نصف حصہ بحراوقیانوس کی ترائی پر مشتمل ہے لیکن بحرالکاہل پلیٹ پوری کی پوری سمندری (بحری) ہے۔ یاد رہے کہ سمندری پلیٹ سنگ سیاہ (بسالٹ) بھاری کثافت والی پلیٹ ہوتی ہے جب کہ بری پلیٹ سنگ صوان (گرینائٹ) ہلکی کثافت کی حامل ہوتی ہے۔
سنگ صوان، سنگ سیاہ کے اوپر ہے دونوں ٹھوس حالت میں ہوتی ہے جب کہ سنگ سیاہ کا زیریں حصہ گہرائی (استھینو سفر) میں پگھلے ہوئے گرم سیال (میگما) کی نوعیت کا ہے چوں کہ یہ سیال بھی بلند کثافت والی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے اس کے اوپر موجود دونوں ٹھوس چٹانی پلیٹ نہیں سنگ صواں اور سنگ سیاہ قالون غوتِ اچھال(bouncing effect)کے تابع ارتعاش میں ہوتی ہیں،جس طرح درخت کے تنے یا برف پانی پر تیرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ ان کی تیز ترین حرکت تقریباً 15سینٹی میٹر یعنی 6انچ اور سست ترین حرکت تقریباً 2.5سینٹی میٹر یعنی ایک انچ سالانہ کے قریب ہوتی ہے۔
جب کہ سمندری پلیٹ کی حرکت براعظمی پلیٹوں کی حرکت سے کوئی چھ گنا زیادہ ہوتی ہے۔ جن جن علاقوں میں پلیٹو ں کی حرکت ہوتی ہیں کوئی نا کوئی ارضی ساخت یا غیر معمولی زمینی سرگرمیاں وجود میں آتی ہیں، جس کا تعلق ’’ٹیکٹونکس‘‘ سے ہے، جس سے مراد پلیٹوں کی حرکات سے خارج ہونے والی توانائی سے پیدا ہونے والی بگاڑ (Deformation)اور ترتیب سے وابستہ بڑے اور چھوٹے سائنسی خدوخالی اور بعض ارضی سرگرمیاں مثلاً حمیدگی(Folding)،رخنہ زدگی(Faulting)، کوہ سازلی، چٹانی پٹی اور سلسلے براعظمی اور بحراعظمی زلزلے،آتش فشانی سرحدیں اور معدن و کچدھاتی سازی کا عملی مظاہرہ شامل ہیں،جس کی اصل وجہ ’’کنویکشن کرنٹ‘‘ کے ماتحت پیدا ہونے والی ’’پھندے‘‘ (Plume)اورگرم مقام (Hot spot)ہوتے ہیں۔ ’’پھندے‘‘ دراصل وہ سیال ہوتے ہیں جو بسالٹک پلیٹ کے ایک مرکز سے پگھلنے اور باقی جانب ٹھوس پلیٹ میں داخل ہونے کے لئے کھائی دراڑ یا شگاف کی تلاش میں اوپر آنے کا نام ہے۔
یہ عام طور پر مرکز سے اوپر کی جانب 500سے 1000کلو میٹر موٹائی تک ہوتی ہے۔ جب یہ اوپر کی جانب حرکت کرتے ہیں تو ایک وسیع علاقوں میں تپشی خانوں(Thermal cells) کی صورت میں مرکوز ہو جاتی ہیں۔ یہ گرم مقام (Hot spot) کہلاتی ہیں۔ اس کے اوپر سے جب بھی کوئی براعظمی پلیٹ سرکتی ہے تو آتش فشانی ایک طویل پٹی تشکیل پاتی ہے۔ مثلاً ’’ہوانی‘‘ کے مقام پر موجود ’’گرم مقام‘‘ یعنی ہاٹ اسپاٹ تقریباً 70ملین سال سے متحرک ہے۔
یہ شمالی مغربی بحرالکاہل کے اطراف 3750میل یعنی کوئی 600کلو میٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے آتش فشاں سلسلوں کا ایک حیران کن مظاہرہ ہے۔ یہ معلومات تصدیق شدہ ہے کہ کرئہ ارض پر جو ارضی سرگرمیاں ہوتی تھیں اور جو دور حاضر میں ہو رہی ہیں وہ دو پلیٹوں کے باہم قریب آنے سے (Convergence of Plate) یعنی باہمی تصادم (Collision) یا دو پلیٹوں کے ایک دوسرے سے دور جانے (Divergent of Plate) یا پھر ایک دوسرے کے متوازی حرکت کرنے کی وجہ سے معروضِ وجود میں آتی ہیں۔
چنانچہ ’’قوت دب ‘‘ کے ماتحت جب ’’سمندری پلیٹ‘‘ اور ’’بری پلیٹ‘‘ ایک دوسرے کے قریب آتی اور ان کے درمیان تصادم ہوتا ہے جو ایک پلیٹ اوپر اوردوسری نیچے چلی جاتی ہے۔ سنگ صوان (Granite)چونکہ کم کثافت (3.5)کی حامل پلیٹ ہوتی ہے جب کہ سنگ سیاہ (Basalt)بلند کثافت (5.5) والی پلیٹ کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’بحری پلیٹ‘‘ ، ’’بری پلیٹ‘‘ کے نیچے دھنس جاتی ہے، جس سے ایک ’’منہائی علاقہ‘‘ (Subduction Zone) کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔
یہ گہرائی میں پگھلائووالے حدود میں پہنچ کر اس میں ضم ہو کر اپنے حصے کے وجود کو کھو بیٹھتی ہیں۔ اس کی ایک مثال ’’آریگان‘‘کے ساحلوں نیز واشنگٹن اور الاسکا میں موجود آتش فشانی سلسلے ہیں جو ’’الاسکا‘‘ کی ایک چھوٹی پلیٹ کے براعظم شمالی امریکاکی بڑی پلیٹ کے نیچے کی جانب گھسنے کی وجہ سے وجود میں آئے تھے۔ اس قسم کی پلیٹوں کے تصادم، تصادم سے بننے والی سرحد کو ’’منہائی علاقہ‘‘ کہلاتی ہیں اور اس کی پہچان عموماً انتہائی شدت کے حامل زلزلے کی وجہ سے ہو جاتی ہے۔
جب دو ’’سمندری پلیٹ‘‘ ایک دوسرے کے مدِمقابل آتی ہیں اور ان کے درمیان تصادم ہوتا ہے تو دونوں پلیٹیں چونکہ نرم اور بلند کثافت کی حامل ہوتی ہیں۔ اس لئے ان میں سے زیادہ پرانی چٹانی پلیٹ زیادہ کثیف ہونے کی وجہ سے نسبتاً کم کثیف پلیٹ کے نیچے دھنس جاتی ہے اور اس مرحلہ پر بھی ’’منہائی علاقہ‘‘ بنتے ہیں اور ساتھ ہی آتش فشاں پہاڑیوں کے سلسلے زیر ِ آب وجود میں آتی ہیں۔ ایسے پہاڑی سلسلوں میں نئے جزائر وجود میں آتے ہیں۔ ’’جزیرہ نفوس‘‘(جاپان) اس کی ایک مثال ہے۔
تازہ ترین تحقیق (نیشنل جغرافیہ، میگزین2002) کے مطابق’’ فلپائن ‘‘سمندری پلیٹ کا حصہ ہے اور یہاں موجود 7000جزیرے دو سمندری پلیٹوں کے تصادم کے نتیجے میں معروضِ وجود میں آئی ہیں۔ ’’آلاسکا‘‘ میں جزیرہ الیوٹین(Aleution Pcnensuler) نامی انتہائی متحرک آتش فشانی سلسلے جزیرہ محراب (Psland Ares)کی بہترین مثال ہے۔ بعض اوقات بحری اور بری پلیٹس نہ تو ایک دوسرے کے قریب آتی ہیں اور نہ ہی دور جاتی ہیں بلکہ ایک دوسرے کو کناروں سے رگڑتے ہوئے متوازی پہلو بہ پہلو سرکتی یا پھسل جاتی ہیں،جس کا عملی مظاہرہ براعظم شمالی امریکا میں ’’سان آنڈریاس‘‘ (San Anders) پہاڑی کے اطراف کیا جاسکتا ہے۔ ’’سان آنڈریس‘‘ ارضیاتی پلیٹو ں کی حرکت کے نتیجے میں سطح زمین پر پیدا ہونے والی رخنہ(Fault) ہے جو1100کلو میٹر طویل شگاف ہے جوکیلیفورنیامیں بحرالکاہل اور شمالی امریکن پلیٹ کے درمیان حد بندی کرتی ہے۔
’’ٹیکٹونکس‘‘پلیٹ ناصرف ایک دوسرے کے قریب آتی ہیں بلکہ یہ ایک دوسرے سے دور بھی جاتی ہیں۔ اس قسم کی حرکت میں’’سمندری فرشی پھیلائو‘‘ یعنی افقی دوری پیدا ہوتی ہے۔ اگردیکھا جائے تو افریقن پلیٹ اور شمالی امریکن پلیٹ ایک دوسرے سے پرے ہوتی ہوئی نظرآتی ہیں۔ شمالی امریکن پلیٹ کے حرکت کرنے کی وجہ سے ’’نازکا‘‘ (Nazca) اور’’کوکس‘‘ (Cocos) پلیٹ متاثر ہورہی ہے، جس کی ایک مثال ’’بوگوٹا‘‘ کا آتش فشاں ہے جو جنوبی امریکا کے دارالحکومت ’’کولمبیا‘‘ میں موجود ہے۔
ان تمام پلیٹوں کی حرکات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن مجموعی طور پر کرئہ ارض کی تخلیق کے بعد جو ارضیاتی صورتِ حال نظرآتی ہے وہ ’’دوبراعظمی پلیٹوں‘‘کے تصادم کا ایک یقینی اور عملی مظاہرہ ہے۔ جب ماضی میں کرئہ جامدہ کی دو پلیٹوں کے درمیان تصادم ہوا تھا تو شکست وریخت کے عمل نے دنیا کی نا صرف بلند وبالا چوٹیو ں کو جنم دیا بلکہ آج دنیا کے نقشہ پر جو براعظم الگ الگ نظر آرہے ہیں تخلیقی طور پر صرف ایک ’’سپر براعظم‘‘ سے وجود میں آئی تھیں جسے ’’پن گئی‘‘ (Pangaea)کہا جاتا تھا۔ تقریباً 200ملین سال قبل ا س واحد براعظم نے حرکت کی اور دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔
جسے’’لوریشیا ‘‘(Laurasta) اور ’’گونڈوانالینڈ‘‘ (Glondwaaland)کا نام تجویز کیا گیا۔ ’’لوریشیا‘‘ شمالی امریکا، یوریشیا اور گرین لینڈ شامل تھے جب کہ گونڈوانالینڈ میں جنوبی امریکا، افریقا، بھارت، آسٹریلیا اور اینٹارٹیکا شامل تھے۔ علاوہ ازیں براعظم افریقا اور یوریشیا کے درمیان مزید حرکت کے نتیجے میں صحرائے عرب کا مغربی بازو بھی پہلے افریقا کا حصہ تھا۔ براعظمی حرکات کے دوران الگ ہوگیا، جس کے نتیجے میں ’’بحیرئہ قلزوم‘‘ وجود میں آیا، جس کے زیریں جانب عمل کٹائو کی وجہ سے محدب نما شکل پیدا ہوگئی ،جس نے’’ خلیج عدن‘‘ کو جنم دیا۔ ساتھ ہی صحرائے عرب کا مشرقی بازو براعظم ایشیاء یعنی ایران سے الگ ہوگیا۔
اس دوران سطح سمندر کے اُتاراور چڑھائو سے مغربی جانب کٹائو کے عمل سے ایک تنگ گزرگاہ کی تشکیل ہوتی گئی۔ ایران اور عرب کے اس خلاء کو بحیرہ عرب کے پانی نے پُر کر دیا۔ گویا یہ نظریہ درست ہے کہ براعظم اور بحراعظم ماضی میں ہر لحاظ (آب وہوا حیاتی و نباتاتی زندگی، براعظم کے حاشیوں کی بناوٹ) سے آپس میں بہت ہی گہرے ربط کو ظاہر کرتے ہیں، کیوں کہ اگردنیا کے نقشے کا مطالعہ کیاجائے تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ جنوبی امریکا اور افریقا کبھی ایک تھے، کیوںکہ اگر ان کے موجودہ نقشے کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے تو وہ ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ ایران، عرب اورافریقا، عرب کے درمیان بھی یہی کیفیت نظرآتی ہے۔ اگر عرب کو مشرقی افریقا کے قریب لایا جائے تو ’’بحیرئہ قلزم‘‘ اور’’خلیج عدن‘‘ درمیان سے اوجھل ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح ایران کو عرب کے نزدیک لایا جائے تو خلیج فارس کا وجود غائب ہو تا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
بحراوقیانوس کے دونوں ساحلی کناروں کی پٹی بھی ایک دوسرے میں فٹ ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مثلاً کاٹنے کا چھوٹا سا مشینی آرا (Jigsare- Puzzle)۔بھارت اور جزیرہ ’’مڈا گاسکر‘‘ بھی ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں۔ ابھی الگ ہیں لیکن قدیم زمانے میں منسلک تھے، کیوں کہ بھارت میں خالص دودھ دینے والے جانوروں کی مشابہت ’’مڈاگاسکر‘‘ میں موجود پرانی نسل سے ہوتی ہے۔انیسویں صدی کے دوران ’’پلیوزویک‘‘ (Paleozoic)عمرکے کوئلے کے ذخائر بھارت، جنوبی افریقا، آسٹریلیا اور جنوبی امریکا میں دریافت ہوئے ہیں، جس میں نباتاتی باقیات موجود پائے گئے ہیں’’جسے گلوسوپیٹریس‘‘ (Glossoptoris)کے نام سے شناخت کیاگیا ہے۔
انیسویں صدی کے بعد یہی نباتاتی نمونے ’’اینٹارٹیکا‘‘ میں دریافت ہوئے ،جس سے اس نظریہ کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے کہ قدیم دور میں براعظم اور بحراعظم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔آج سے صدیوں پہلے دو براعظموں کے درمیان ٹھیتس (Tethys) سمندر موجود تھا لیکن اب ان براعظموں کے درمیان الیائن اور ہمالیہ جیسے عظیم پہاڑی سلسلے موجود ہیں جو کرئہ ارض پر ممکنہ تصادم کی گواہی دیتے ہیں۔
جنوبی امریکا اور جنوبی افریقا میں ’’میسوساوزس‘‘ (Mesosaurus)نامی رینگنے والے جانور (Reptile) کے باقیات کی موجودگی ماضی میں براعظموں کے ایک ہونے کی پرزور حمایت کرتا ہے۔براعظموں میں لیسٹرو ساورس‘‘ (Lystrosaurus) اور ’’سائینوگناتھیس‘‘ کے باقیات قدیم دور ٹریبیسک(Triassic)کے چٹانوں میںموجودگی پلیٹوں کے حرکات کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔ یہ خشکی پر ڈونل رٹرائی(Land dwelling reptile)کے ماہر رینگنے والے جانور ہوتے ہیں۔
اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ سمندری کرسٹ براعظموں کی گہرائی (مینٹل) میں دائر ی کنویکشن پلیٹوں کی حرکت کا اہم محرک ہے۔جب براعظمی پلیٹ نےبحراعظم کی گہرائی تک رسائی حاصل کی تو سمندری فرش کا ایک ٹکڑا براعظمی پلیٹ کے اطراف پھنس کر قید ہو گیا۔ سمندری فرش کے یہ باقیات جسے اوفی لائٹ (Ophiolite)کہتے ہیں جب براعظمی پٹی کے اطراف پایاگیا تو اس نے قدیم سمندری اور خشکی کے پلیٹوں کے نظریئے کو بالکل درست قرار دیا۔
چنانچہ دورِ جدید میں دستیاب معلومات زیادہ جامع، مستند اور سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کے بعد یہ نتائج حتمی طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ تمام براعظم ماضی میں ایک تھے جو بعد میں پلیٹوں کی حرکات کی وجہ سے الگ الگ ہوگئے اور یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے، کیوںکہ سائنس اور اہل ِ سائنس نے اس خیال کا اظہار کر دیا ہے کہ افریقا سست رفتاری کے ساتھ یورپ کی طرف سرک رہا ہے، جس سے یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ برسابرس میں اگر براعظم افریقا اور براعظم یورپ کی تشری پلیٹیں ایک دوسرے سے ٹکراگئیں تو دنیا کے نقشے پر کوہ ہمالہ اور بحرقلزم جیسے ایک اور پہاڑی سلسلے اور خلیج بالترتیب وجود میں آئیں گی۔
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ براعظم اور ہنوز حرکت میں ہیں،کیوں کہ جدید تحقیق سے اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ زلزلہ، کوہ سازلی، ا ٓتش فشانی اور اسی قسم کے دو سرے تشری حرکات کی اصل وجہ پلیٹوں کی حرکات ہیں جو آج بھی یقیناً جاری ہے۔ اس حوالے سے ’’جزائر بحرالکاہل‘‘ (Circum Pacific Belt (وہ علاقہ ہے جہاں آتش فشانی، جزیرہ محراب، زیرِ آب آتش فشاں، کھائی اور ہاٹ اسپاٹی کا خصوصی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ ساحلی علاقے ہیں جن کے کناروں پر ایک طرف امریکا اور دوسری طرف جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک آباد ہیں۔ جدید سائنسی و ٹیکنالوجی کی روشنی میں یہاں پر زیرِ زمین بحرالکاہل بلند کثافت کی وجہ سے یوریشین پلیٹ کے نیچے جاری ہے، جس سے کئی گرم مقام کی بھی تشکیل ہوئی ہے۔ ان علاقوں کے اطراف موجود ’’کراکٹائو‘‘ (Kara-Katao) آتش فشاں لاوا اُگلتا رہتا ہے، جس کی اصل وجہ زیرِ زمین پلیٹوں کی حرکات ہیں 1883 ءمیں اس قسم کی ایک حرکت سے انڈونیشیا کے اطراف سندامحراب (sunda arc)کی تشکیل ہوئی، جس سے 1000فیٹ چوڑا اور 3000فیٹ لمبا شگاف پیدا ہو گیا جو بندہ بحیرہ (Bunda Sca) سے جا ملا۔
اس علاقوں میں تازہ ترین پلیٹوں کی حرکات کی وجہ سے وہی علاقے متاثر ہوتے ہیں۔ جہاں ماضی میں کئی بار ’’سونامی‘‘ یعنی سمندری زلزلے آچکے ہیں،کیوںکہ کرئہ ارض میں جہاں جہاں بھی پلیٹوں کی حرکات ہوتی ہیں تو نتیجے میں وہاںآتش فشاں کے طویل سلسلے پائے جاتے ہیں (جیسا کہ بحرالکاہل دائرے) امریکا میں جزیرہ نما الاسکا کے جنوب مغرب میں پھیلے ہوئے جزائر کے سلسلوں میں آتش فشاں پائے جاتے ہیں اور ان علاقوں کو ہر لمحہ سمندری زلزلے ’’سونامی‘‘(Tsunami)کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
کرئہ ارض کے ان علاقوں میں آتشی چٹان اور حرکات کے حوالے سے وسطی امریکا، جنوبی امریکا، چین، جزیرہ نما ملایا (ملائیشیا) نیوزی لینڈ، فلپائن، کوریا اور اس کے اطراف کے تمام ساحلی ممالک کے نام نمایاں ہیں۔26 دسمبر 2004 میں آنے والا ’’ایشیائی سونامی‘‘ شمال مغرب میں یوریشیں (Eurasian) پلیٹ، جنوب مغرب بحرالکاہل پلیٹ اور آسٹریلین پلیٹوں کی حرکات کے ردِعمل کا نتیجہ معلوم کیاگیا ہے۔
اگر ان تمام ممالک کو ارضیاتی نقشہ میں دیکھا جائے تو یہ تمام ریاستیں ’’اگن دائرہ(Ring of Fire)زد میں آتے ہیں۔ جہا ں پر اگن چٹانوں کی تشکیل اور پلیٹوں کی باہم حرکات کا جدید ترین مشاہدہ اور تجزیہ عالمی پیمانے پرمعلوم کیا جا رہاہے۔