اگر تُم نہ ہوتے تو قوم کو آٹے دال کا بھاؤ کبھی پتا نہ لگتا!
اگر تُم نہ ہوتے تو علم ہی نہ ہوتا کہ پاکستان کو کون کون کیسے کیسے لوٹ اور نوچ رہا ہے!
اگر تُم نہ ہوتے تو عوام کو یہ ادراک ہی نہ ہوتا کہ یہ فارن فنڈنگ کیا ہوتی ہے اور فنڈز میں خورد بُرد کیسے ہوتی ہے!
اگر تُم نہ ہوتے تو روس ہمارا دوست کیسے بنتا؟ یہ امریکہ، یورپ، سعودی عرب، خلیجی ممالک اور چین ہم سے ناراض ہوتے ہیں تو کیا!
اگر تُم نہ ہوتے تو پاکستانی یوٹرن کی مہارت سے نابلد ہی رہتے!
اگر تُم نہ ہوتے تو ’’پی ٹی آئی‘‘ اپنی بقا کی جنگ نہ لڑ رہی ہوتی!
اور ہاں! اگر تُم نہ ہوتے تو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا منصوبہ بند کیسے ہوتا!
اگر تُم نہ ہوتے تو پاکستان کی ”شہ رگ“ اتنی آسانی سے کیسے کٹ جاتی!
حقیقتاً اگر عمران خان وزیراعظم نہ بنتے تو پاکستان کے عوام ان ثمرات سے محروم رہ جاتے جن کا تجربہ انہیں آنے والے اپریل اور اس کے بعد متوقع طور پر ہوگا کیونکہ عمران خان نے اس ملک کے لیے وہ ’’کار ہائے نمایاں‘‘ انجام دیے ہیں جو ان سے پہلے والے حکمران نہیں سے سکے تھے۔ خان صاحب نے وچ ہنٹنگ کے ایسے نمونے متعارف کرائے جو قبل ازیں پاکستان کی سیاست میں دیکھنے سننے میں نہیں آئے تھے۔ 2018میں جب ’’پی ٹی آئی‘‘ حکومت ایک ’انتظام‘ کے تحت وجود میں آئی تو زیادہ اچنبھے کی بات اس لیے نہیں تھی کہ بعض تجزیہ کار 2011میں یہ پیش گوئی کر چکے تھے کہ آئندہ ’باری‘ عمران خان کو دی جائیگی! آج کوئی ساڑھے تین سال بعد پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو گزشتہ حکومتوں کیساتھ ہوتا رہا ہے، رواں ماہ 28مارچ کو متحدہ اپوزیشن نے اگر 172نمبر پورے کر لیے تو سمجھ لیں کہ پاکستان تاریخ کے اس سنہری دور میں داخل ہو جائیگا جس کی تمنا پچھلے 73سال سے ہر مُحب وطن پاکستانی کر رہا ہے۔ فرض کریں اگر متحدہ اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے توملک کی سیاسی بساط کیسی ہوگی؟ مثلاً اگر صدر پاکستان آصف علی زرداری، وزیراعظم میاں شہباز شریف، چیئرمین سینیٹ مولانا فضل الرحمٰن، ڈپٹی چیئرمین بلوچستان کی کسی اتحادی جماعت سے پنجاب کا وزیراعلیٰ یا گورنر مسلم لیگ ن یا ق سے، اسپیکر پنجاب اسمبلی ’’پی ٹی آئی‘‘ کے فارورڈ بلاک سے، سندھ کا وزیراعلیٰ پاکستان پیپلز پارٹی سے، اسپیکر سندھ اسمبلی ایم کیو ایم پاکستان سے، گورنر سندھ یا گورنر بلوچستان اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے لیے بھی ایسی ہی ملی جلی صورتحال ہو اور اسی طرح پاکستان کی وہ تمام سیاسی جماعتیں جو حالیہ متحدہ اپوزیشن میں شامل ہیں یا 28مارچ کو حکومت کیخلاف ووٹ دیں گی اُنہیں آئندہ کی حکومت سازی میں ’’حصہّ بقدر جثہ‘‘ دیا جائے تو یہ ایک ایسی آئیڈیل سچوایشن ہو گی جس میں بغیر کسی سیاسی اکھاڑ بچھاڑ کے پاکستان حقیقی عوامی جمہوریت، سیاسی استحکام اور تعمیر و ترقی کی نئی منزلوں کی طرف بڑھ سکے گا اور اگر قومی حکومت کا یہ ماڈل چل نکلا جس کا اشارہ اب تو میاں شہباز شریف نے بھی دیا ہے، چنانچہ اس کے بعد یہ تصور بھی کیا جا سکے گا کہ آئندہ پاکستان میں پولیٹکل انجینئرنگ نہیں ہو گی، شفاف الیکشن ہوں گے اور سیاسی مخالفین کے لیے چور ڈاکو، چھوڑیں گے نہیں، جیلوں میں ڈالیں گے وغیرہ کے نعروں والا کلچر نہیں دہرایا جائے گا، کیونکہ اُمید تو یہی ہے کہ دستیاب تمام سیاسی پلیئرز ہر قسم کے اسباق حاصل کر چکے ہیں! لہٰذا یہ ’سہرا‘ بھی عمران خان کے سر جاتا ہے کہ انہوں نے صورتحال کو اس نہج تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، کہنا پڑتا ہے کہ ایسا کبھی نہ ہوتا اگر تم نہ ہوتے۔
ماضی کی بہت سی غلطیوں سے سبق سیکھ کر میاں نواز شریف نے کئی سال پہلے پاکستان کے پولیٹکل سسٹم کیلئے’’آزاد جمہوریت‘‘ کا جو بیانیہ اپنایا اور اس ’ جرم ‘ کی طویل سزا بھی بھگتی لیکن وہ آخری دفعہ جب اپنے علاج کے سلسلہ میں لاہور سے لندن آئے تو انہوں نے اپنے اس مخصوص بیانیے کو پوری شدت سے آگے بڑھایا اور اس کا اظہار بھی شروع کر دیا یقیناً یہ بیانیہ ’’اسٹیٹس کو“ سے قدرے ہٹ کر انتہائی سخت تھا چنانچہ عام پاکستانیوں کے لیے اس کی روح کو سمجھنا اور ہضم کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ پاکستان کی حالیہ سیاسی صورتحال کے دو ’معمار ‘ ہیں ایک عمران خان اور دوسرے نواز شریف کیونکہ ان دونوں شخصیات کیوجہ سے ہی مستقبل میں جو سیاسی بساط بچھنے جا رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے اُمید کی جا سکتی ہے کہ آنے والا وقت پاکستان کے عوام کیلئے قدرے خوش آئند ثابت ہو گا لہٰذا نواز شریف کا بھی شکریہ کہ ان کی وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب ہوا کیونکہ ایسا نہ ہوتا اگر تُم نہ ہوتے!
پاکستان میں یوں لگتا ہے کہ آصف علی زرداری حالیہ سیاسی بازیگری کے سرخیل ہیں، یہ بات قدرے درست بھی دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت میں حالیہ سیاست کی باگ ڈور نواز شریف کے ہاتھ میں ہے خصوصاً پچھلے تین مہینوں میں بیسیوں سیاسی لوگ نواز شریف سے لندن میں ملاقاتیں کر چکے ہیں کچھ خفیہ اور بعض ظاہری جو کہ ’’پی ٹی آئی‘‘ حکومت کیخلاف کسی بھی قسم کی تحریک میں اپنی حمایت کا ’’بلیک اینڈ وائٹ‘‘ میںیقیں دلا چکے ہیں ان سیاست دانوں میں جہانگیر ترین اور علیم خان بھی شامل ہیں خصوصاً وہ طاقتور لوگ بھی گزشتہ دو اڑھائی سال سے نواز شریف کیساتھ رابطے میں تھے لیکن جن کے نام سامنے نہیں آ سکتے، صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ایک انتہائی سوچے سمجھے دیرینہ انتظامات کے تحت حالیہ تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جس میں آخری Go-Aheadنواز شریف کا تھا۔
پاکستان کی آئندہ سیاست صاف و شفاف ہو گی، بازاری جملہ بازی نہیں ہو گی، ہر ایک کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے گا، ایسا تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت کم ازکم اس وقت تک تو یقینی ہے جب تک اوپر ذکر کی گئی سیاسی صورت حال قائم رہی لیکن ایسا آئیڈیل سسٹم پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ کیلئے بھی اپنایا جا سکتا ہے، اگر دو ایک سال کیلئے اوپر فرض کیا گیا یہ سسٹم قائم رہ گیا۔ بہر کیف آنے والے دو ہفتے پاکستان کے مستقبل کی سیاسی صورتحال کو واضح کریں گے لیکن یہ امر اطمینان بخش ہے کہ آ ئندہ جو بھی ہو گا وہ حالیہ سے بہتر ہو گا اور اس ’بہتری‘ کی ذمہ دار دو شخصیات ہیں عمران خان اور نواز شریف، چنانچہ یہ کہنے اور سمجھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ایسا کبھی نہ ہوتا اگر تم دونو ں نہ ہوتے!