کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں مشترکہ ٹی او آرز پر قائم ہیں، مجھے یقین ہے کہ اعتزاز احسن کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی، خورشید شاہ اسمبلی میں پیش کیے گئے موقف پر قائم ہیں اوربلاول بھٹو نے عوامی جلسوں میں جو خطابات فرمائے ہیں وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کی آصف زرداری سے ملاقات پر گھبراہٹ کا شکار نہیں ہیں، پی ٹی آئی کو اپنے موقف پر اعتماد ہے، پی ٹی آئی کو اکیلے کرپشن کیخلاف جنگ لڑنی پڑی تو بھی تیار ہیں، متفقہ ٹی اوآرز کی بنیاد پر چیف جسٹس کی سربراہی میں نئے قانون کے تحت بااختیار جیوڈیشل کمیشن چاہتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت کی ٹیم اور رویے سے مایوسی ہوئی ہے، اسحاق ڈارمثبت سوچ رکھنے والے اور بات کو آگے لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، توقع ہے خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق بھی مثبت رویہ رکھیں گے اور بات کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا شارٹ کٹ کا نہ کوئی ارادہ تھا اور نہ ارادہ ہے، عمران خان نے بیس سال جدوجہد کی ہے ایک دو سال مزید انتظار میں کوئی قباحت نہیں ہے۔سینئر صحافی طاہر خان نے کہا کہ افغان امن مذاکرات میں مشکلات کی ذمہ دار افغان حکومت اور امریکا ہے، افغان صدر نے پالیسی تبدیل کرتے ہوئے جنگ پر توجہ مرکوز کردی ہے،ملا اختر منصور پر ڈرون حملہ ظاہر کرتا ہے امریکا اور افغان حکومت امن عمل کو آگے نہیں بڑھانا چاہتے ہیں، افغان حکومت طالبان کے علیحدہ ہونے والے دھڑے کی حمایت کررہی ہے، طالبان کے اس نئے دھڑے ترجمان عبدالمنان نیازی کابل میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ طاہر خان کا کہنا تھا کہ طالبان سربراہ کیلئے سراج الدین حقانی کا نام بھی زیرغور ہے، طالبان ذرائع کے مطابق ملا یعقوب طالبان کے نئے امیر بنے تو بھی اختیارات سراج الدین حقانی کے پاس ہوں گے، گزشتہ چند مہینے سے ملا اختر منصور کی موجودگی میں بھی تمام اختیارات سراج الدین حقانی کے پاس تھے، طالبان شوریٰ کے اس اہم اجلاس کی سربراہی بھی سراج الدین حقانی کی تھی جس میں ملا عمر کے بیٹے،بھائی اور عبدالقیوم ذاکر کو پوزیشن دی گئی تھی۔پاکستانی خارجہ پالیسی کے حوالے سے تجزیے میں شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ خارجہ پالیسی وزیراعظم نواز شریف کے کنٹرول سے باہر نکل رہی ہے، رواں سال کے اختتام تک پاکستان خطے میں دوستی کا پیغام پھیلارہا تھا، بھارت، ایران، افغانستان، روس اور امریکا سب ممالک سے پاکستان کے تعلقات میں نیا جذبہ نظر آرہا تھا، پاکستان چند ماہ پہلے تک خطے میں سفارتی سطح پر کلیدی کردار ادا کررہا تھا مگر اب عالمی سطح پر تنہا کھڑا نظر آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کروانے میں ناکام ہورہے ہیں، نواز شریف ذمہ داری کسی پر بھی ڈالیں بطور وزیراعظم ذمہ داری انہی پر ہوگی، خارجہ پالیسی کی کامیابی اور ناکامی کا ذمہ دار وزیراعظم کو ہی ٹھہرایا جائے گا، پاکستان کا کوئی کل وقتی وزیرخارجہ نہیں ہے جس کی ذمہ داری نواز شریف پر ہے، وزیراعظم کے پاس خارجہ امور کے دو مشیر ہیں لیکن وہ بھی کوئی پالیسی دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں، پا کستا ن کی خارجہ پالیسی اور دفتر خارجہ کمزور ہوتا نظر آرہا ہے۔میزبان نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس بات سے انکار نہیں کہ ڈرون حملے ہماری خودمختاری پر حملہ ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جب تک ہماری سرزمین دہشتگرد چھپنے کیلئے استعمال کرتے رہیں گے امریکا کو ڈرون حملوں کا جوازملتا رہے گا،وزیرداخلہ چوہدری نثار کا پریس کانفرنس میں یہ کہنا بہت اہم ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد امریکی ڈرون حملوں کا جواز نہیں بنتا ہے، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپریشن ضرب عضب سے پہلے امریکا کے پاس پاکستان میں ڈرون حملوں کا جواز موجود تھا، اس کے علاوہ جب تک پاکستانی حدود سے دہشتگرد ملتے رہیں گے امریکا کو ڈرون حملوں کا جواز ملتا رہے گا، پاکستان کو ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے تاکہ ہماری خودمختاری کی نہ ڈرون حملے خلاف ورزی کریں اور نہ ہی وہ انتہائی مطلوب دہشتگرد جن پر ڈرون حملہ ہوتا ہے، القاعدہ اور افغان طالبان کے علاوہ پاکستانی ریاست کیلئے خطرہ بننے والے بیت اللہ محسود، الیاس کاشمیری اور حکیم اللہ محسود بھی ڈرون حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ صدر اوباما نے ملا اختر منصور کو مذاکرات کے راستے میں رکاوٹ قرار دیا لیکن وزیر داخلہ چوہدری نثار نے یہ کہہ کر امریکی صدر کے موقف کو ہوا میں اڑادیا کہ افغان امن عمل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود امریکا ہے ۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ معتبر امریکی میڈیا بھی امریکا اور افغان حکومت کی دہری پالیسی کی نشاندہی کررہا ہے،امریکا خطے میں ایک طرف مذاکرات کی میز سجارہا ہے تو دوسری طرف مذاکرات کے راستے میں رکاوٹیں بھی کھڑی کررہا ہے، کبھی ملا عمر کے مرنے کی خبر تو کبھی ملا اختر منصور کو ڈرون حملے میں مار دینا، اس کے علاوہ طالبان کے درمیان انتشار پھیلانے کی کوششیں ایک واضح اشارہ ہیں۔ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تجزیہ کرتے ہوئے شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ پاناما لیکس پر بننے والی متحدہ اپوزیشن کے مستقبل پر سوالات اٹھ رہے ہیں، پیپلز پارٹی اپنی مفاہمتی سیاست جبکہ دھرنوں اور احتجاج کیلئے مشہور پی ٹی آئی ایک دفعہ پھر مزاحمت کا راستہ اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہے،پیپلز پارٹی حکومت پر دباؤ برقرار رکھتے ہوئے سسٹم کو چلتے رہنے دینے کی راہ پر نظر آرہی ہے جس کے اشارے لندن سے سامنے آرہے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن ، وزیراعظم نواز شریف اور آصف زرداری کی ملاقات کروانے کیلئے کوشاں ہیں، آصف زرداری نے مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات میں واضح کیا ہے کہ پیپلز پارٹی جمہوریت کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنے گی اور ان لوگوں کی سازش کا بھی حصہ نہیں بنے گی جو شارٹ کٹ کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بیانات سے اندازہ ہورہا ہے کہ پی ٹی آئی نے متحدہ اپوزیشن کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی سولوفلائٹ کا آپشن کھلا رکھا ہے، شاہ محمود قریشی نے بھی ٹی او آرز کمیٹی سے ناامیدی ظاہر کردی ہے۔