یہ رتبہ بلند ایسے ہی نہیں مل جاتا۔جہاں جہاں اُردو بولی پڑھی لکھی اور سنی جاتی ہے وہاں وہاں روزنامہ جنگ کا مطالعہ لازمی ہے۔ کہیں ناشتے کی میز پر۔ کہیں آن لائن۔ کہیں موبائل فون پر جلدی جلدی۔ مجھ جیسے پاکستان کے ہم عمر قاری تو اخبار کو چاٹتے ہیں ۔ کسی بھی اخبار کی معراج ہوتی ہے وہ اگر اپنی زبان کے فروغ میں سب سے آگے نکل جائے۔ جنگ کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ آپ کسی بھی اسٹال پر جاکر کہیں آج کا اخبار چاہئے۔ وہ ’جنگ‘ ہی اٹھاکر دیتا ہے۔
ابلاغ عامہ کی تدریس کا سلسلہ تو 1964 سے شروع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے اُردو اخبارات سے زیادہ تر وہی حضرات وابستہ ہوتے تھے جن کا اُردو ادب سے کوئی نہ کوئی واسطہ ہوتا تھا۔ شاعری کرنے، افسانہ لکھنے والے یا پھر نقاد۔ اس لیے ان برسوں میں زبان کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا تھا۔ شاعری میں وزن نہیں گرتا تھا۔ جملوں کی ساخت اُردو گرائمر کے اصولوں کے مطابق ہوتی تھی۔ اخبار کا ایڈیٹر اُردو ادب کی کوئی نادر شخصیت ہوتا تھا۔
روزنامہ ’جنگ‘۔ پاکستان سے تین چار سال ہی بڑا ہے۔ اُردو زبان بہت قدیم ہے مگر اسے قومی زبان کا درجہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہی نصیب ہوا ۔ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پہلے سال ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہوگی۔ اس حوالے سے پاکستان کے شاعروں ۔ ادیبوں۔ صحافیوں اور شعبۂ اُردو کے اساتذہ و طلبہ نے یہ اپنا فرض جان لیا تھا کہ اُردو زبان کے فروغ مقبولیت اور تشکیل و ترجیج کے لیے خصوصی محنت کرنا ہوگی۔
اس تناظر میں ہم جب پاکستان کے اُردو اخبارات کا جائزہ لیں گے تو اس میں ’جنگ‘ سب سے پیش پیش ہوگا کہ ’جنگ‘ کے بانی اور میر کاروان صحافت میر خلیل الرحمن نے پاکستان کے پہلے سال سے ہی یہ عزم کرلیا تھا کہ اُردو کے ہر نامور مسلّمہ ادیب کو روزنامہ ’جنگ‘ سے کسی نہ کسی طور وابستہ کیا جائے گا۔ تاکہ اُردو خواں طبقے میں ’جنگ‘ اُردو کے فروغ کے نقیب کی حیثیت سے پہچانا جائے۔
ہندوستان کے مختلف شہروں سے ہجرت کرکے آنے والوں کے لیے اُردو ایک مقدس زبان کا درجہ رکھتی تھی۔ بھارت سے اُردو کی پامالی کی خبریں آتی تھی۔ تو پاکستان میں اُردو کی آبرو اور فضیلت کے لیے کوششیں تیز ہوجاتی تھیں۔ سب ایڈیٹرز۔ رپورٹرز کی خاص طور پر تربیت کی جاتی تھی کہ اپنے مشاہدات واقعات اور وارداتوں کے اظہار کے لیے وہ سادہ زبان اختیار کریں۔ اخبار کے عام قارئین آسان الفاظ کو زیادہ جلدی سمجھ سکتے ہیں۔ اس لیے اخبار میں کام کرنے والے شاعروں۔ افسانہ نگاروں اور نقادوں کو بھی اپنی ادبی سطح سے نیچے اتر کر عوامی زبان اختیار کرنی پڑتی تھی۔
اخبار کا شعبۂ ادارت دیکھ لیں۔ سید محمد تقی اور یوسف صدیقی۔ صاحب مطالعہ۔ مصنّف۔ صرف اُردو نہیں انگریزی پر بھی عبور۔ دنیا بھر کی معلومات اور خبروں کو عام سلیس اُردو میں منتقل کرنا اگرچہ روز مرہ کی ضرورت تھی۔ یہ پاکستان کا ابتدائی دَور تھا۔ ایک نوزائیدہ مملکت کا بھی اور ایک نئے اخبار کا بھی۔ اُردو ایک اخباری زبان کی حیثیت سے بھی ابتدائی مراحل میں تھی۔ نو آزاد ملک کے لوگ کوئی بھی مادری زبان بولتے ہوں۔
وہ اُردو کو عقیدت سے پڑھتے تھے۔ بولتے تھے۔ یہ وہ دَور ہے جب پاکستانیوں کی اکثریت کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ شستہ اُردو بول سکیں۔ شین قاف درست ہو۔ کوئی مہمل لفظ نہ ادا ہو۔ اُردو کے اساتذہ شعراء کے کلام کا حوالہ اپنی گفتگو اپنی تحریر میں دے سکیں۔ اخبار میں بھی ادبی محفلیں جمتی تھیں۔ نوواردان اُردو صحافت کوشش کرتے تھے کہ سینئر صحافیوں کے ساتھ کچھ وقت گزار سکیں۔
رئیس امروہوی کا قطعہ تو اُردو کو بلندیوں کی طرف لے جاتا ہی تھا۔ پھر وہ نفسیات روحانیت فلسفے۔ خواب اور اس کی تعبیر جیسے موضوعات پر بھی ہر ہفتے لکھتے تھے۔ اس حوالے سے ان کی اقامت گاہ پر ہونے والی بیٹھک میں نئے اور پرانے اہل قلم۔ اخبار نویس۔ طالب علم اپنی علمی پیاس بجھانے پہنچتے تھے۔ ادھر جناب شفیع عقیل اخبار کے صفحات کے ساتھ ساتھ ہر ماہ ’بھائی جان‘ کے ذریعے بچوں کو اُردو سے روشناس کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ نئے صحافیوں کے لیے مولانا ظفر علی خان۔ مولانا حسرت موہانی۔ مولانا ابوالکلام آزاد۔ مولانا چراغ حسن حسرت۔ شورش کاشمیری مثالی شخصیتیں تھیں۔
میر خلیل الرحمن اُردو کے ہر بڑے نام کو ’جنگ‘ کے صفحات کی زینت بنانے کے لیے بے چین رہتے تھے۔ ملا واحدی کی زبان میں چاشنی کا تذکرہ رہتا تھا۔ خواجہ حسن نظامی کی اُردو کا الگ ہی لطف تھا۔ مولوی عبدالحق انجمن ترقی اُردو کے ذریعے اُردو کی ترویج و توسیع میں مصروف تھے۔
’جنگ‘ کی نونہال لیگ میں مستقبل کے ادیب۔ شاعر۔ صحافی۔ ناول نگار تیار کیے جارہے تھے۔ ان صفحات میں شائع ہونے والی بچوں اور نو عمروں کی تحریروں کی نوک پلک سنوار کر شائع کی جاتی تھی۔ اس سے بھی اُردو کی نئی نسلوں کی آبیاری کی جارہی تھی۔
اُردو کے ہر ادیب اور شاعر کی آرزو ہوتی تھی کہ اس کے رشحات قلم کو ’جنگ‘ میں نمایاں جگہ مل سکے۔ اس طرح اُردو کی دو طرفہ خدمت ہورہی تھی۔ مجید لاہوری کے مقبول ترین مزاحیہ انداز کو کون فراموش کرسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے کالموں اور نظموں میں جو نئی اصلاحات اور تراکیب ایجاد کیں ۔ ٹائر جی ٹیوب جی ۔رمضانی۔ ان سے صرف ’جنگ‘ ہی مقبول نہیں ہوا بلکہ اُردو کو بھی ہر دلعزیزی میسر آئی۔
ان دنوں میں مجید لاہور جیسے مزاح نگار و طنز نگار کے ساتھ۔ علامہ نیاز فتحپوری جیسے مدبر محقق کی وابستگی۔ نیاز فتحپوری کے ’نگار‘ کے خصوصی نمبروں کو تو پورے بر صغیر میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ وہ اپنے ساتھ تنقید۔ تاریخ۔ تفکر کے اثاثے لے کر آئے۔ میر صاحب نے ان سے بھی اخبار میں کالم لکھنے کی استدعا کی۔ اس طرح ان کی اُردو تحریروں کو ایک وسیع تر حلقۂ قارئین ملا۔
ابراہیم جلیس اپنی ترقی پسندانہ تحریروں۔ جیل کے دن جیل کی راتیں۔ چالیس کروڑ بھکاری جیسی کتابوں کے حوالے سے قارئین کے بہت زیادہ پسندیدہ لکھاری تھے۔ وہ 1960 کی دہائی میں جب اپنے مخصوص اسلوب کے ساتھ ’جنگ‘ کے صفحات پر جلوہ گر ہوئے تو چند ہفتوں میں ہی ‘وغیرہ وغیرہ‘ مقبول کالم بن گیا۔
شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی۔ بھارت سے پاکستان ہجرت کرکے آئے تو انہیں بھی ’جنگ‘ کے توسط سے پاکستانی قارئین کا ایک بڑا حلقہ میسر آیا۔ قومی ترانے کے خالق۔ ابھی تو میں جوان ہوں۔ کے مقبول شاعر حفیظ جالندھری سے بھی ’جنگ‘ نے کالم لکھوائے۔ حفیظ نے کہا تھا
حفیظ اہل زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
’ابن انشاء‘ کی نثر نے تو اُردو میں ایک نئے دل نشیں اسلوب کا اضافہ کیا۔ یہ مقبولیت کسی کو نصیب نہ ہوسکی اور نہ بے ساختگی کسی کی تحریر میں در آسکی۔ ان کے جملے تو سینکڑوں قارئین کو اب تک ازبر ہیں۔
جمیل الدین عالی کا انداز نگارش اپنا تھا۔ ان کے سفر نامے بہت پسند کیے گئے۔ عالی جی اور ابن انشا کی آپس میں چھیڑ چھاڑ بھی قارئین کے لیے دلچسپی کا سامان فراہم کرتی تھی۔
’شوکت تھانوی‘ کے مزاح کا اپنا ایک راستہ تھا۔ وہ تو اخبار کے ایڈیٹر بھی رہے۔1950 کی دہائی سے شروع ہونے والی اُردو کے لیے ’جنگ‘ کی یہ کوششیں تاحال جاری ہیں۔ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں بھی نئے نئے لکھنے والے اپنی تحریروں کا جادو جگاتے رہے۔ جمہوریت اور آمریت کے درمیان کشمکش کو ’جنگ‘ کے لکھنے والے اپنے اپنے لہجے میں بیان کرتے رہے۔ پیر علی محمد راشدی یاد آتے ہیں۔
ان کا ’مشرق و مغرب‘ سنڈے ایڈیشن کی بہت مقبول تحریر ہوتی تھی۔ پیر صاحب وزیر ر ہ چکے تھے سفیر رہے۔ بہت صاحب مطالعہ۔بہت بذلہ سنج۔ مشرق و مغرب میں وہ اپنے مشاہدات اور تجربات بھی بیان کرتے تھے۔ اپنے مطالعے کا دلچسپ انتخاب بھی کرتے تھے۔ برطانیہ۔ زار روس۔ بر صغیر کے بادشاہوں ۔ سیاستدانوں کے قصّے۔ ان کی اُردو بہت ہی سادہ۔ بے ساختہ۔ ’مشرق و مغرب‘ نے بھی اُردو کو تاریخ اور جغرافیے کی وسعتیں عطا کیں۔
’جنگ‘ کے عام صفحات۔ ادارتی صفحات ، سنڈے میگزین ، مڈویک میگزین میں اُردو کے سب ہی نامور ادیبوں۔ نقادوں۔ شعراء کے انٹرویو شامل ہوتے رہے۔ جس سے قارئین کے ذہنی آفاق اُردو کے حوالے سے پہنائیاں حاصل کرتے رہے۔ مختلف عالمی مشاعروں۔ اُردو کانفرنسوں میں بھارت سے آنے والے نقادوں اور شاعروں کے انٹرویو بھی اُردو کے فروغ کے لیے ہی اچھی کوشش ہوتے تھے۔
خبروں۔ رپورٹوں۔ نامہ نگاروں کے مکتوبات۔ بیرون ملک نمائندوں کے ڈسپیچ۔ ان سب سے اُردو کو نئی جہات ملتی رہی ہیں۔
اُردو کے لیے ’جنگ‘ کی سب سے بڑی اور یادگار خدمت برقی خوش نویسی۔ کمپیوٹرائزڈ کتابت کی سرپرستی ہے۔ ایلیٹ پبلشر کے احمد جمیل مرزا نے کئی رتجگوں ۔ مشاورتوں کے بعد ’نوری نستعلیق‘ کی ایجاد کی۔ یہ بہت ہی مشکل اور محنت طلب مراحل تھے۔ اُردو کے الفاظ میں جوڑوں اور لاحقوں کے باعث کمپیوٹر اس زبان سے درستی کا اظہار نہیں کرتا تھا۔ اس کے لیے ہزاروں بنے بنائے الفاظ کمپیوٹر کے سپرد کیے گئے۔ پہلا مرحلہ انہی بنے بنائے الفاظ سے طے کیا گیا۔ اس میں دلچسپ حرکت یہ ہوتی تھی کہ جب کسی مملکت کا نیا سربراہ آتا تھا۔
جس کا نام پہلے سے کمپیوٹر کے ذہن میں نہیں ہوتا تھا تو وہ نستعلیق میں نہیں آتا تھا۔ وہ ’نسخ‘ میں ظاہر ہوتا تھا لیکن رفتہ رفتہ یہ ساری مشکلیں آسان ہوتی گئیں۔ اب اُردو خطاطی ہی نہیں ہورہی ہے ۔ اُردو میں صفحہ بندی بھی ہورہی ہے۔ اُردو صفحات پی ڈی ایف بھی ہورہے ہیں۔ اگر جنگ گروپ کے بانی میر خلیل الرحمن نوری نستعلیق کی ایجاد کی سرپرستی نہ کرتے۔ روزنامہ ’جنگ‘اس کا پہلا خریدار اور استعمال کنندہ USERنہ ہوتا تو گیسوئے اُردو کو شانہ نہ ملتا۔ اُردو میں ٹی وی چینلوں کو بہت مشکلات پیش آتیں۔
اُردو زبان۔ ادب۔ صحافت ہمیشہ ’جنگ‘ کی احسان مند رہیں گی۔ تاریخ ہمیشہ گواہی دے گی کہ میر خلیل الرحمن محسن اُردو ہیں۔ انکی بصیرت ان کے وژن کو سلام۔1944 میں میر خلیل الرحمن نے اُردو سے جس والہانہ عشق کا آغاز کیا تھا۔ اَردو کے لیے نئے سے نئے آفاق تسخیر کرتے رہے۔ اُردو کے نامور دانشوروں۔ نقادوں۔ شاعروں۔ ادیبوں۔ ناول نگاروں کے افکار۔ تخلیقات سے ’جنگ‘ کے صفحات مزین کرتے رہے۔ وہ دائیں بائیں کی۔ رجعت پسندی۔ ترقی پسندی۔ روشن خیالی کی دیواریں کھڑی کرنے کی بجائے سب کو موقع دیتے رہے۔ اس سے اُردو کو جو وسعتیں نصیب ہوئیں اس کا ہر عاشق اُردو گواہ ہے۔
پاکستان کے لوگ مذہب سے عشق کرتے ہیں۔ اپنی جان نثار کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مذہبی تحریروں کے لیے بھی ’جنگ‘ نے اُردو کا پیرایۂ اظہار خوب وقف کیا۔اقراء کے صفحات ہوں یا اہم مذہبی مواقع۔ تہوار۔ ان اہم ایّام میں خاص طور پر ماہ رمضان میں مختلف مسائل۔ مختلف شعائر۔ اور دینی شخصیتوں کے حالات زندگی کے قومی زبان میں بیان سے بھی اُردو کو گہرائی اور گیرائی ملی ہے۔
آخر میں ’جنگ‘ کی سائنس۔ ٹیکنالوجی۔ تجارت۔ ارضیات۔ نباتات بالخصوص معیشت کے امور اور معلومات کو اُردو کا جامہ عنایت کرنے میں بھی خصوصیت حاصل رہی ہے۔ اس کے لیے ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی اور شوکت سبز واری کے معیشت پر کالم یادگار رہنے چاہئیں۔ جمیل الدین عالی صاحب نے ایک زمانے میں ’متقبلیات‘ کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس کے ذریعے سے بھی اُردو کو نئی نئی اصطلاحات میسر آئی ہیں۔
روزنامہ ’جنگ‘ ایک قومی اخبار ہے۔ اس لیے اپنی قومی زبان کے فروغ کو اس نے اپنا قومی فریضہ سمجھا۔ اُردو کے عشاق یقینا ’جنگ‘ کی اس منظّم کوشش پر ممنون و شکر گزار رہیں گے۔
2؍مارچ 1949ء کو اخبار نے اپنے قارئین کو بالتفصیل ایک ایسی خبر سنائی جس کی سرخی اور متن کے لفاظ لفظ سے اخبار کی اردو دوستی آشکار ہوتی ہے۔ خبر مکمل متن کے ساتھ مع سرخی درج کی جاتی ہے۔
کراچی میں اردو کی درگت، کار کی پلیٹ اردو میں لکھنا جرم ہے۔
اردو زبان استعمال کرنے پر سزا ملے گی۔
کراچی 28؍فروری۔ آج ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ دوم مسٹر چائولہ کے اجلاس میں وہ مقدمہ پیش ہوا جس میں کراچی پولیس نے محمود شوکت عثمانی مالک عصر جدید پریس پر اس لئے استغاثہ دائر کیا تھا کہ انہوں نے اپنی موٹر کار میں اردو ہندسوں اور لفظوں میں نمبر پلیٹ لگائی ہے سب سے پہلے صفائی کے وکیل مسٹر آل حسن اختتام پر لاتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے کہ اداریئے میں استعمال کئے گئے ہندی الفاظ سے اخبار نے یہ ثابت کردیا کہ اردو میں در آنے والے دوسری زبان کے الفاظ اردو الفاظ ہی کہلانے لگتے ہیں اور فروغ اردو و توسیع اردو کی وہی کوشش قبول عام کا درجہ حاصل کرسکتی ہے جس سے اس کے اصل خدوخال مزید ابھر کر سامنے آئیں۔