پانچ سال پہلے ملک کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے اپنے بیٹے کی بیرون ملک قائم کمپنی کے عہدیدار کی حیثیت سے وصول نہ کی جانے والی تنخواہ کو اپنے ٹیکس حسابات میں ظاہر نہ کرنے کے ’’جرم ‘‘پر صادق اور امین نہ رہنے اور سیاسی مناصب کے لیے تاحیات نااہل قرار پانے والے نواز شریف پر قدرت ایک بار پھر بظاہر مہربان ہوچکی ہے اوران کا وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر چوتھی بار فائز ہونے کے امکانات نمایاں ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ واقعات کا ایک پورا سلسلہ ہے جو حالات کو ا ن کے حق میں ہموار کرتا چلا جارہا ہے۔ اس کا تازہ ترین مظاہرہ بین الاقوامی سطح پر ناجائز اثاثے برآمد کرنے والے ادارے براڈ شیٹ کے سربراہ کاوے موسوی کا جیو ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں یہ اعتراف ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں بنائے گئے قومی احتساب بیورو کی جانب سے ملنے والے ٹھیکے کے تحت میاں نواز شریف کے ناجائز اثاثوں کا پتہ لگانے میں دو عشروں سے زیادہ کی کوششوں کے بعد بھی وہ ناکام رہے ہیں اور ان کے خلاف ایک روپے کی کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا لہٰذا وہ اس مکروہ کھیل میں شریک ہونے پر شرمندہ ہیں اورسابق وزیر اعظم سے معافی مانگنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ نواز شریف کے خلاف نیب اور بعض دیگر اداروں اور سیاسی شخصیات کی ایک منظم سازش ہونے کے اس کے علاوہ بھی متعدد ٹھوس ثبوت پانچ برس کی اس مدت میں سامنے آچکے ہیں۔پچھلے عام انتخابات سے پہلے عدالتی فیصلے کے تحت وزارت عظمیٰ سے محروم کئے جانے کے بعد اپنی جماعت کی انتخابی مہم سے انہیں دور رکھنے کے لیے کوششیں کی گئیں اور ایک ریاستی ادارے کے اہم عہدیدار نےایک سابق جسٹس شوکت عزیرصدیقی سے جس طرح ان کے گھر جاکر براہِ راست فرمائش کی اور اس کے صلے میں انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کا سربراہ بنوادینے کی پیش کش کی اس کی گواہی جسٹس شوکت نے بزبانِ خود اور برملا دی ہے۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار سے منسوب اور ایک مستند ادارے سے تصدیق شدہ وہ آڈیو ٹیپ بھی منظر عام پر آچکا ہے جس میں وہ بظاہرکسی جج کو یہ ہدایات دیتے سنے جاسکتے ہیں کہ میاں صاحب اور ان کی ضمانت عام انتخابات سے پہلے منظور نہ کی جائے کیونکہ ادارے یہی چاہتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی کا معاملہ بھی عدالت میں ہے جس سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو کلپ میں کی گئی بات کو تقویت ملتی ہے۔ اس سے پہلے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی وڈیو بھی منظر عام پر آئی تھی جس میں وہ بتاتے ہیں کہ العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں کوئی ثبوت نہ ہونے کے باوجود انہیں نواز شریف کے خلاف سخت سزا سنانے پر مجبور کیا گیا اور اس مقصد کے لیے ان کا ایک قابلِ اعتراض وڈیو کلپ استعمال کیا گیا۔ پاناما لیکس میں ملوث ساڑھے چار سو پاکستانیوں میں سے سب کے خلاف قانونی کارروائی کے عزائم ظاہر کئے جانے کے بعد صرف فرد واحد یعنی نواز شریف ہی کو نشانہ بنائے جانے سے بھی اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ پاناما کے نام پر ساری تگ ودَو کا مقصد صرف شریف حکومت کا خاتمہ تھا۔مزید چشم کشا حقیقت یہ کہ عمران خان کے دور میں پچھلے چند ماہ کے دوران پنڈورا اور سوئس اکاؤنٹس لیکس میں ہزاروں پاکستانیوں کے نام آئے جن میں موجودہ حکومت کے وابستگان اور سابق جنرل بھی شامل ہیں، لیکن کسی کے خلاف کارروائی کا معاملہ اٹھا ہی نہیں۔ اکتوبر1999 میںنواز شریف کے دوسرے دور حکومت کے خاتمے کے لیے بھی جس طیارہ سازش کیس کواستعمال کیا گیا تھا اور جنرل مشرف جس میں انہیں پھانسی کی سزا دلوانا چاہتے تھے، وہ بھی عملاً جعلی ثابت ہوا، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ ایک شخص اپنے اقتدار کی خاطر سینکڑوں جانوں کو خطرے میں ڈال دے لیکن تیسری بار بھی وزارت عظمیٰ اس کا مقدر بنے۔ شریف فیملی کے خلاف مسلسل سرگرم عمل نیب کے سربراہ کے ایک معروف صحافی کو دیے گئے انٹرویو میں ان کے اس انکشاف کے بعد کہ موجودہ حکمرانوں کے خلاف ان کے پاس ایسے معاملات ہیں جن پر کارروائی ہو تو یہ حکومت فوری طور پر ختم ہوسکتی ہے، وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے تین سال تک شریف فیملی کی کرپشن کے بلند بانگ دعوے جاری رکھنے کے بعد جس طرح راہِ فرار اختیار کی، ان کے تعاون سے سابق حکمران خاندان کے خلاف رپورٹ شائع کرنے والے برطانوی اخبار ڈیلی میل کے الزامات کا عدالتوں میں جو حشر ہوا، واقعات کا یہ پورا سلسلہ نواز شریف اور ان کے خاندان کو بدعنوان ثابت کرنے کی مہم کی ناکامی کی گواہی دے رہا ہے اور یوں قومی سیاست اور ایوان اقتدار میں سابق وزیر اعظم کی باعزت واپسی کا راستہ پوری طرح ہموار ہوچکا ہے اوریہ نتیجہ اخذ کرنا بے بنیاد نہیں کہ قدرت ایک بار پھر نواز شریف پر مہربان ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)