’’آج ہم ایک ایسی جنگ میں مصروف ہیں جو بھارت نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہم پر مسلط کی ہے۔ 45کروڑ آبادی کا ایک طاقت ور ملک بھارت خواہ کچھ ہی کہتا رہےاور فصاحت کے کتنے ہی دریا بہائے، حقیقت یہ ہے کہ کشمیری عوام پاکستانی قوم کا جزو ہیں اور ہمارا گوشت پوست ہیں۔ مذہبی، ثقافتی، جغرافیائی اور تاریخی، ہر اعتبار سے کشمیری عوام پاکستانی قوم کا حصّہ ہیں۔ ہم اپنے دفاع کے لیے ایک ہزار سال تک لڑنے کو تیار ہیں۔ میں ایک سال قبل بھی سلامتی کونسل کو یہ بات اس وقت بتاچکا ہوں جب اس ادارے نے اپنی تمام تر طاقت اور حکمت و دانائی کے باوجود گزشتہ سال اس کشمیر کے مسئلے پر ایک قرارداد منظور کرنے سے انکار کردیا تھا۔
بھارت ممکن ہے اپنے تمام عہد اور اقرار فراموش کردے ،ہم ایسا ہر گز نہیں کرسکتے۔ ہم چھوٹا ملک ہونے کے باوصف اور محدود وسائل رکھنے کے باوجود آخری دم تک جدو جہد جاری رکھیں گے۔ ہم اپنے دفاع کے لیے اپنے وقار و عزت کے لیے لڑتے رہیں گے۔ ہم حملہ آور نہیں ہم پر حملہ کیا گیا ہے۔ یہ سلامتی کونسل کا فرض تھا کہ وہ یہ اعلان کرتی کہ اس جنگ میں کون حملہ آور ہے اور یہ بھی وضاحت کرتی کہ کس ملک کو جارحانہ کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان کو جارحیت کا ہدف بنایا گیا‘‘۔ (اقوام متحدہ۔سلامتی کونسل۔ 22ستمبر 1965)
میں ان دنوں شہر ستمبر، لاہور میں تھا۔ رات کی تاریکی میں ریڈیو سے یہ آواز گونج رہی تھی۔ جنگ کی وجہ سے بلیک آئوٹ تھا۔ دور دور تک اندھیرا۔پاکستان کے 38 سالہ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اگر چہ انگریزی میں تقریر کررہےتھے،مگر ان کے ہم وطنوں کے دلوں میں یہ الفاظ اتر رہے تھے۔اس تقریر نے ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کے عوام کا محبوب بنادیا تھا۔پھر جب تاشقند میں روس، بھارت اور پاکستان کے درمیان معاہدہ کروارہا تھاتو اسی پُر عزم،پُر جوش وزیر خارجہ کے چہرے کے تاثرات اسے عوام کے اور قریب کر گئے۔ وزارت خارجہ سے استعفیٰ یا برطرفی۔ پھر لاہور ریلوے اسٹیشن پر ایک فقید المثال استقبال۔ ایک نئی قیادت کی بنیاد رکھی جارہی تھی۔
یہ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کا منظر نامہ ہے۔ اب تک درجنوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ 1965کی جنگ کیوں ہوئی۔ کس کی جارحیت تھی۔ کشمیر میں تحریک آزادی مقامی تھی یا پاکستان کی حکومت نے شروع کروائی۔ اس جنگ نے پاکستان کو نئی صورت حال سے دوچار کردیا۔ پاکستان چین کے نزدیک آگیا۔ حالانکہ پاکستان ابتدا سے امریکا کا اتحادی تھا۔ سیٹو اورسینٹو کے معاہدوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا۔ لیکن کسی مشکل وقت میں امریکا اور مغرب نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔
پاکستان میں بائیں اور دائیں بازو کی کشمکش زوروں پر تھی۔ چین ایک طاقت کے طور پر ابھر رہا تھا۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت چین کو ایک مخلص اور بے غرض دوست کی حیثیت سے دیکھ رہی تھی۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کی مستحکم قیادت اس جنگ کے بعد کمزور ہورہی تھی۔ تاشقندکے بعد عام تاثر یہ تھا کہ میدان میں جیتی ہوئی جنگ پاکستان نے میز پر ہاردی ہے۔ 30نومبر 1967میں ذوالفقار علی بھٹو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر ایک نئی سیاسی جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہیں۔ اس وقت کے سیاسی، سماجی، مذہبی، علاقائی اور دو بڑی طاقتوں کی کشاکش کے بین الاقوامی تناظر میں یہ اقدام انتہائی بر وقت،بر محل تھا۔ وقت کے تقاضوں کے عین مطابق۔ اسی لیے اس پارٹی میں بائیں بازو کی پارٹیوں کے انقلابی کارکن، اعتدال پسند طالب علم بڑی تعداد میں شامل ہوتے رہے۔ مغربی پاکستان میں متوسط طبقے کے نوجوان اسے اپنی آواز سمجھتے تھے۔
ایوب خان۔ بھٹو کو 13نومبر1968کو جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ 5فروری 1969کو لاہور ہائی کورٹ میں ان کا حلفیہ بیان پاکستان کی سیاست میں ایک ہلچل مچادیتا ہے۔
٭یہ قانونِ خداوندی نہیں کہ ہمارے عوام ہمیشہ نامراد رہیں۔
٭حکومت کے لوگوں نے خودساختہ انتخابات کے بعد کراچی کی گلیوں میں شاہانہ جلوس نکالے۔
٭ طلبہ برادری روشن دماغ ہے۔ آج کے طلبا بیدار ہیں انہیں بہکایا نہیں جاسکتا۔
٭ نالائق حکمران یہ نہیں سمجھتے کہ تاریخ کے دھارے کا رُخ کیا ہوتا ہے۔٭ میرے ذہن میں وہ مستقبل ہےجس میں پاکستان، ملت اسلامیہ کا ناقابل تسخیر قلعہ ہوگا۔
٭ ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کشمیر سے جارحیت کا آخری نشان نہیں مٹادیتے اور بیت المقدس کو آزاد نہیں کرالیتے۔ 1970کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک مضبوط اور مقبول پارٹی کی حیثیت سے میدان میں اترتی ہے۔ 18نومبر 1970کو ریڈیو اور ٹی وی سے بھٹو کا خطاب پورے جوش و خروش سے سنا جاتا ہے۔
٭ پارلیمانی جمہوریت یا فوجی آمریت کوئی بھی درپیش مسائل حل نہیں کرسکی۔ ٭ پاکستان میں اسلام خطرے میں نہیں ہے۔ اسلام پر اندر سے حملہ کیا جارہا ہے۔ ٭ صوبوں کی خود مختاری کا تحفظ کیا جائے۔
٭ جاگیرداری کے بچے کھچے نشانات ختم کرنا ہوں گے۔ ٭ اسلامی سوشلزم کا مطلب یہ ہے کہ ہماری معیشت سوشلسٹ ہوگی، مگر ہمارے حالات،ہمارے ورثے، ہماری اقدار کے عین مطابق۔ ٭ ہم امور خارجہ میں غیرملکی مداخلت ختم کردیں گے۔
٭ پاکستان کو فوجی اہمیت رکھنے والی بر صغیر کی سرحدیں ورثے میں ملی ہیں۔
دسمبر1970کے انتخابات میں بھٹو سندھ اور پنجاب میں اکثریتی پارٹی کے قائد بن کر ابھرتے ہیں۔ پھر اقتدارکی طویل کشمکش شروع ہوتی ہے۔ عوامی لیگ اکثریتی پارٹی ہے۔لیکن صرف ایک صوبے،مشرقی پاکستان کی حد تک۔ شیخ مجیب الرحمن اکثریتی پارٹی کے لیڈرہیں۔ وزارتِ عظمیٰ ان کا حق ہے۔ مگر اندیشہ ہائے دورو دراز۔ اور پاکستان کی بد قسمتی کہ مجیب، یحییٰ، بھٹو مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے۔
سقوط ڈھاکا کا المناک اور شرمناک سانحہ رُونما ہوتا ہے۔ آج تک اس کے ذمہ داروں کا قطعی تعین نہیں کیاجاسکا۔ دائیں بازو کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کو سیاسی طور پر اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ اور لاہور میں کی جانے والی تقریر، کہ ڈھاکا میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں جو شرکت کرے گا اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا، کو اس کی بنیاد ٹھہراتے ہیں۔
20 دسمبر 1971 کو ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر مقرر کیے جاتے ہیں۔ رات گئے اپنے خطاب میں کہتے ہیں۔
٭ مارشل لا ضرورت سے ایک سیکنڈ بھی زیادہ نہیں رکھوں گا۔
٭ میں آئین دوں گا۔ جو عوام کا آئین ہوگا۔
٭ بھارتی فوجیں میرے وطن کی سر زمین فوراً خالی کردیں۔
٭ ہم فوج کا وقار بحال کریں گے اور بلند سے بلند کریں گے۔
٭ جن لوگوں نے اپنا پیسہ ملک سے باہر رکھاہے وہ چند دنوں میں واپس منگوالیں۔
تاریخ کے اوراق ہمیشہ گواہی دیتے رہیں گے کہ بھٹو صاحب کو جن حالات میں اقتدار ملاایسے ابتر،مشکل اورمایوس کن حالات کسی حکمران کو نہیں ملے ہوں گے۔ 90ہزار جنگی ،فوجی، سویلین قیدی دشمن ملک بھارت کے کیمپوں میں۔ اخلاقی طور پر ہزیمت خوردہ قوم۔ ملک کا اکثریتی حصّہ مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلا دیش بن گیا۔ ۔ ایسے میں صرف مسلم ممالک کے تعاون سے ہی مایوسی، حزن و ملال سے نکلا جاسکتا تھا۔ معیشت کو بحال کیا جاسکتا تھا۔
شملے میں خالی ہاتھ جاکر بہت کچھ لے کرآجانا بھٹو کی بلند ہمتی، تدبر کا ثمر تھا۔ مسلم ممالک سے تعلقات بڑھائے گئے اور 1974 میں ایسی اسلامی سربراہی کانفرنس لاہورمیں منعقد ہوتی ہے جس میں مسلم سربراہوں کی اکثریت شریک ہوتی ہے۔ چین سے بہت زیادہ قریبی اور مثالی تعلقات، جو پاکستان کو اقتصادی طور پر اور وفاقی اعتبار سے مضبوط کرتے ہیں۔ پاکستان کو ایک متقفہ منظور شدہ آئین نصیب ہوتا ہے۔
پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمن اپنی سازشیں جاری رکھتے ہیں۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو، جنہیں انتظامی تجربہ بھی تھا کہ وہ صدر ایوب خان کی کابینہ میں مختلف وزارتوں کے سربراہ رہ چکے تھے،تاریخ کا گہرا مطالعہ، دنیا کے حال پر مجموعی نظر، مستقبل کی بصیرت،ایک مضبوط، نظریاتی ٹیم ان کے دَور کو پاکستان کے استحکام کا وسیلہ بنادیتی ہے۔
مورخین کا معیار یہ ہے کہ کوئی حکمران اپنے عہد کے تقاضے کس حد تک پیش نظر رکھتا ہے اور ملک کی جو بھی انتظامی ،سماجی،آئینی، علمی،اقتصادی ضروریات ہیں انہیں پورا کرتا ہے یا نہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں کو اسی کسوٹی پر پرکھنا چاہئے۔
ان ساڑھے پانچ سالوں میں جتنے بنیادی اقدامات کیے گئے،اہم فیصلے کیے گئے،ان کو شمار کیجیے، ان کے بعد آنے والی اب تک کی حکومتوں کو دیکھ لیں کہ اصل کام کر گزرنے کی رفتار کیا ہے۔
مملکت کے وجود کے حوالے سے سب سے اہم کارنامہ ایک متفقہ طور پر منظور شدہ آ ئین کی تشکیل ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں بن پایا۔1956کا پارلیمانی آئین1962کا صدارتی آئین، دونوں متنازع ٹھہرے تھے، کیونکہ ان میں عوام کے منتخب نمائندوں کی منظوری شامل نہیں تھی۔ 1973 کے آئین کی طاقت اور خوبی دیکھ لیں کہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی بااختیار فوجی حکومتوں کے باوجود اسے منسوخ نہیں کیا جاسکا۔ اسے سردخانے میں ضرور رکھا گیا،اس میں آٹھویں ترمیم ضرور داخل کی گئی، مگر اب 18 ویں ترمیم کے اندر یہ بھی اصل حالت میں بحال ہو گیا ہے۔ ایک مملکت کے وجود اور ہیئت حاکمہ کی ضمانت ایسا آئین ہی ہوتا ہے۔
آج ہم سب چین،پاکستان اقتصادی راہداری کی مدح خوانی میں مصروف ہیں۔ چین،پاکستان دوستی کے معمار ذوالفقارعلی بھٹو ہی ہیں۔ ہمالہ سے بلند ، سمندروں سے گہری اس دوستی کی بنیاد شہید ذوالفقارعلی بھٹو نے اس وقت رکھ دی تھی جب وہ وزیر خارجہ تھے۔ چین کو اقوام متحدہ تک لے جانے اور اس کی رکنیت دلوانے میں بھی بھٹو صاحب کاہی مرکزی کردار ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد بھٹو صاحب نے کسی بڑی مملکت کا سب سے پہلا دورہ کیا تو وہ چین ہی تھا۔
یہ چین، چیئر مین ماؤزے تنگ اور وزیراعظم چواین لائی کا چین تھا۔ گراں خواب چینی سنبھلنے لگے تھے۔ مستقبل کی ایک عظیم طاقت جنم لے رہی تھی۔ پاکستان اورچین کے درمیان سرحدی معاہدے توان کی وزارت خارجہ کے دوران ہی ہو گئے تھے۔ صدر بننے کے بعد جناب ذوالفقارعلی بھٹو نے چین کو دنیا کے دوسرے ملکوں اور خاص طور پر مسلم ملکوں کے قریب لانے میں بھی نمایاں اور فعال کردار ادا کیا۔ اتفاق دیکھئے، تاریخ کی عنایت کہ عظیم عالمی رہنما چیئر مین ماؤزے تنگ سے ملنے والے آخری عالمی رہنما ذوالفقارعلی بھٹو ہی تھے۔
پاک چین دوستی، جو دنیا میں ایک مثالی دوستی خیال کی جاتی ہے۔ ایک اسلامی جمہوریہ کی سوشلسٹ کمیونسٹ مملکت سے دوستی۔ مختلف پس منظر رکھنے والی دو تہذیبیں مختلف مزاج رکھنے والے عوام۔ یہ دوستی اب اور زیادہ گہری ہوگئی ہے۔ اس دوستی کے حاسدین بھی بہت ہیں اس کے خلاف سازشیں کرنے والے ہمارے ہمسائے بھی ہیں۔ بھارت کو اس دوستی سے سب سے زیادہ مخاصمت ہے۔ امریکا بھی ان قربتوں سے سٹپٹاتا رہتا ہے ۔ سب طاقتیں مانتی ہیں کہ یہ پودا جواب تناور درخت بن چکا ہے، جس کے سائے میں اب پاکستان ہی نہیں دوسری قومیں بھی آرام کرتی ہیں،اسے جناب ذوالفقارعلی بھٹو نے ہی لگایا تھا۔ اس لیے استعماری طاقتوں نے اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے ان کا جسمانی خاتمہ کیا۔
پاک چین دوستی کے ساتھ جڑا ہوا بھٹو صاحب کا ایک اور کارنامہ بھی ایسا ہے جس کے باعث وہ قابلِ گردن زدنی ٹھہرے۔ وہ تھا پاکستان کا ایٹمی پروگرام۔ ایوب خان کے دور میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا۔ اس کے بعد ہی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو فکر ہونی چاہیے تھی کہ کسی مضبوط ڈھال کی تیاری کی جاتی۔ پھر یحییٰ خان کے زمانے میں بھی ایسا نہیں سوچا گیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے پاکستان کی اس کمزوری کو ابتدا سے ہی طاقت میں بدلنے کی ٹھان لی تھی۔ لیکن جب 1974 میں بھارت نے پوکھران میں ایٹمی دھماکا کیا تو انہوں نے ملتان میں پاکستان بھر کے سائنس دانوں کی ایک میٹنگ طلب کی اور وہاں کہا کہ ہمیں اپنا ایٹم بم بنانا ہے۔
محسن پاکستان، ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھٹو صاحب سے رابطہ کیا۔ اس کے بعد کی کہانی سب کو معلوم ہے۔ ہم بالکل کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے آئینی نظریے کے خالق ذوالفقارعلی بھٹو ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کسنجر نے لاہور میں انہیں دھمکی دی کہ اگر آپ باز نہ آئے تو آپ کو ایک عبرت ناک مثال بنا دیا جائے گا۔ امریکا، پیاسا ،بھوکا ہاتھی ہے جو بدلہ نہیں بھولتا۔ انتقام میں اندھا ہو جاتا ہے۔ بھٹو صاحب نے یہ سب جانتے بوجھتے خطرہ مول لیا۔ اپنی جان قربان کر دی۔ مگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ایسی مضبوط بنیاد رکھ دی کہ آنے والی حکومتیں بھی اسے آگے بڑھانے پر مجبور رہیں اور بالآخر 1998 میں پاکستان نے چھ کامیاب ایٹمی دھماکے کردیے ۔
پاکستان ریڈ کریسنٹ کو پاکستان ہلال احمر کا نام بھی انہی دنوں میں دیا گیا۔ ایک اور اہم روایت کا آغاز بھی ذوالفقار علی بھٹو نے ہی کیا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی آخری آرام گاہوں پر پہلے کسی قسم کے گارڈز نہیں ہوتے تھے۔ بھٹو صاحب نے دوسرے ملکوں میں اپنے قائدین کے مقبروں پر یہ پروٹوکول دیکھا تھا۔ انہوں نے مزار قائد اور مزار اقبال پرفوجی دستوں کی با قاعدےوتعیناتی کے احکامات جاری کیے۔
1977 کے انتخابات کا قبل از وقت اعلان۔ امیدواروں میں تمام بڑے بڑے جاگیرداروں کی واپسی۔ انقلابی لیڈروں اور کارکنوں کی پارٹی سے دوری سے پارٹی بھی کمزور ہوئی اور بھٹو صاحب بھی۔ امریکا، بھارت اوراور کئی دوسرے ممالک بھٹو کی قیادت سے خوف زدہ تھے اس لیے ان کا جسمانی خاتمہ سب کی متفقہ خواہش تھی۔ بھٹو صاحب نے ایک فرانسیسی روزنامے سے انٹرویو میں کہا تھا کہ میں تاریخ کے بجائے فوج کے ہاتھوں تباہ ہونا پسند کروں گا۔ان کے عقیدت مندوں نے، تاریخ نے انہیں شہادت کا مرتبہ عطا کیا۔
مذہبی حلقوں کے نزدیک احمدیوں کو پارلیمنٹ کے ذریعے غیرمسلم قرار دلوانا بھی بھٹو صاحب کا ایک تاریخی کارنامہ ہے اور ان کا اب بھی خیال ہے کہ ان کا یہ اقدام ان کی بخشش کا سبب ہوگا۔
میں نے جولائی1977میں اپنے ہفت روزہ ’’معیار‘‘ میں جنرل ضیاء الحق کے اقتدار پر قابص ہونے اور بھٹو حکومت کو ختم کرنے پر اپنا یہ تاثر ظاہر کیا تھا:
’’بھٹو کا اقتدار ختم ہوا ہے۔ بھٹو کا دَور ختم نہیں ہوا۔‘‘
یہ دور اب بھی جاری ہے۔ اگرچہ پارٹی سندھ تک محدود ہوگئی ہے۔ بھٹو صاحب کوٹ لکھپت جیل میں تھے تو انہوں نے اپنی صاحبزادی بے نظیر بھٹو سے آخری ملاقات میں کہا تھا :
’’میری بیٹی… اگر مجھے کچھ ہوجائے
وعدہ کرو… کہ تم میرا مشن جاری رکھو گی‘‘
پنجاب کے میدان، سندھ کے ریگ زار، سرحد( اب کے پی کے) کے پہاڑاور بلوچستان کی چٹانیں گواہی دیں گی کہ بے نظیر بھٹو نے انتہائی جبر اور استبداد کے دنوں میں اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ اپنے والد کے مشن کو جاری رکھا۔ مزاحمت کی لازوال مثالیں قائم کیں۔ انہیں بہت ہی کم عمری میں سنگین چیلنجوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ بہت سے تجربہ کار رہنما حالات کی سختی برداشت نہ کرسکے، رفتہ رفتہ الگ ہوتے گئے۔
ان کی جدوجہد میں وقفہ آیا۔ 1984میں وہ بیرون ملک علاج کے لیے چلی گئیں۔ 10اپریل 1986کو لاہور میں ان کا پاکستان کے سیاسی شعور رکھنے والے عوام نے جیسا استقبال کیا آج تک کسی کا نہیں ہوا۔ مگر اب بے نظیر بھٹو جدو جہد والی بے نظیر نہیں تھیں۔ اگرچہ پی پی پی کے کارکن وہی تھے۔ وہ جمہوریت کے دیوانے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے انداز سیاست میں کمال بھی تھا۔ جمال بھی اور جلال بھی۔ ان کا تاریخ کا گہرا مطالعہ، دنیا کے معاملات پر گہری نظر، ایوب خان کے دَور میں حکومتی تجربہ، انہیں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بھی کامیاب کرواتاہے اور ایک حکمران کی صورت میں بھی۔ میرے محدود علم اور مشاہدے کے تناظر میں ذوالفقارعلی بھٹو پہلے منتخب حکمران ہیں جنہیں مکمل اقتدار منتقل ہوا۔
کیونکہ تاریخ کا دھارا ایسے رُخ پر بہہ رہا تھا کہ پاکستان کی زخم خوردہ اسٹیبلشمنٹ انہیں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات بھی منتقل کرنے پر مجبور ہوئی ۔لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت ملک چلایا جارہا تھا۔ قومی اسمبلی سے آئین منظور ہوتا تو اس کے مطابق اختیارات کی منتقلی ہوتی،لیکن سب کچھ عبوری تھا۔ بھٹو صاحب آخری منتخب رہنما ہیں جنہیں اقتدار کا مکمل انتقال ہوا۔ اس کے بعد آج تک اقتدار میں شراکت ہوتی ہے۔ اقتدار کا انتقال نہیں ہوتا۔
بے نظیر بھٹو جب 1985کے انتخابات میں 93 سیٹوں کے ساتھ اکثریتی پارٹی کی سربراہ بنتی ہیں تو ان کے ساتھی وزیر بننے کے لیے بے تاب تھے۔ اس لیے اقتدار میں شراکت پر سمجھوتا کیا گیا۔ سیکورٹی اور امورِ خارجہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے پاس رکھے۔ وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کو قبول کیا گیا۔ ہر چند کہ وہ بہت ہی با اصول اورعظیم پاکستانی تھے، لیکن جمہوری جدو جہد میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ چیف آف آرمی اسٹاف کو تمغۂ جمہوریت بھی دیا گیا۔ اسی طرح غلام اسحٰق خان کو بطور صدر بھی قبول کرنا پڑا۔
بے نظیر بھٹو کا یہ دَور دسمبر 1988 سے شروع ہوکر اگست 1990 تک جاری رہتا ہے۔ مغرب میں ان کا شاندار استقبال کیا جاتا ہے۔ امریکی کانگریس سے ان کا خطاب تاریخی ہے۔ لیکن اپنے ملک میں انہیں سیٹ اپ میں اجنبی ہی سمجھا جاتا ہے۔ انہیں آزادی سے کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ دوسری طرف اپنے عظیم والد کے تقابل میں تاریخ کا ان کا مطالعہ بھی محدود تھا۔ انتظامی تجربہ بالکل نہیں تھا۔ ان کی وزارتی ٹیم بھی کمزور تھی۔
جمہوریت کی بحالی کے لیے ان کی جدو جہد مثالی تھی۔ لیکن ان کے دونوں ادوار حکومت کو مثالی نہیں کہا جاسکتا۔ ان کے خاوند آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات ان کی جدو جہد پر غالب آجاتے ہیں۔ یہ الزامات عدالتوں میں ثابت نہیں ہوسکے، مگر یہ بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کا تاثر داغدار کرگئے۔
انہیں تاریخ اسلام میں پہلی منتخب مسلم خاتون وزیر اعظم ہونےکا اعزاز حاصل رہا۔ دنیا بھر کی خواتین نے ان کا اس حوالے سے خیر مقدم کیا۔ مگر پنجاب میں پی پی پی کی حکومت قائم کرنے میں ناکامی نے ان کے دور کو مکمل کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اس وقت پارٹی کے اپنے رہنمائوں کا یہ کہنا تھا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر سردار فاروق خان لغاری کی جگہ کسی اور کو نامزد کیا جاتا تو ارکان اسمبلی کی تعداد میں کمی کو پورا کرلیا جاتا۔
دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بے نظیر بھٹو کو حکومتی سربراہ کے طور پر قبول کرنے کو تیار ہی نہیں تھی۔ مرد غالب معاشرے میں ایک خاتون کو سربراہ تسلیم کرنا سماجی اور نفسیاتی طور پر بہت مشکل مرحلہ تھا۔ ایک خاتون کو سیلیوٹ پیش کرنے میں ہچکچاہٹ تھی۔ پارٹی کے اندر بھی سازشیں چلتی رہیں۔ یہ اقتدار جلد ختم ہوگیا۔ میں نے ’’ایک تہائی اقتدار‘ ‘کے زیر عنوان اس دَور کا ایک کتاب میں احاطہ کیا تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کا دوسرا دَور بھی ایسی ہی کشمکش اور بحران کا شکار رہا۔ میاں نواز شریف کی حکومت کو صدر غلام اسحٰق خان نے برطرف کیا۔ مگر عدالتِ عظمیٰ نے جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں صدارتی فیصلے کو غیر قانونی قرار دے کر بحال کردیا۔ البتہ اسٹیبلشمنٹ نے اسے قبول نہیں کیا۔ اس وقت کے آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ نے صدر غلام اسحٰق کو بھی مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ اور میاں نواز شریف کو بھی۔
بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیرا عظم منتخب ہوئیں مگر ان کو دو تہائی اکثریت نہیں ملی۔ اس لیے وہ اسٹیبلشمنٹ کے زیربار رہیں۔ انہوں نے گزشتہ دَور سے سبق حاصل کر کے اپنا صدر نامزد کیا اور جناب آصف زرداری نے انہیں کامیاب بھی کروایا۔ لیکن اسی اپنے صدر سردار فاروق لغاری نے بھی اسٹیبلشمنٹ سے گٹھ جوڑ کرکے بے نظیر بھٹو حکومت کو برطرف کردیا۔
بھٹو صاحب اور بی بی کی حکمرانی میں یہ واضح فرق ہے کہ بھٹو صاحب نے اقتدار کی منتقلی کا ایک سال انتظار کیا اور مکمل اقتدار ہی حاصل کیا۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ اور ان کی ٹیم نے دونوں بار انتظار نہیں کیا اور جیسا اقتدار بھی مل رہا تھا اسے قبول کرلیا۔
بے نظیر صاحبہ نے بھٹو صاحب کے با اعتماد ساتھیوں کو ایک ایک کرکے جانے دیا یا خود الگ کیا۔ ان کے دور اقتدار میں ایٹمی پروگرام میں میزائلوں کے اضافے کو اہم قرار دیا جاسکتا ہے۔ خواتین کے لیے بعض اقدامات قابل تحسین ہیں۔ مگر کوئی بڑی انقلابی تبدیلیاں نہیں لائی جاسکیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی کی باریاں لگی ہوئی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنی سفاکانہ کاروائیوں سے پنجاب سے پی پی پی کو بتدریج ایسے نکالا کہ وہاں 1977کے بعد آج تک پی پی پی اپنی حکومت نہیں بناسکی۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دَور میں وزیرا علیٰ میاں نواز شریف تھے، دوسرے دَور میں پی پی کی مخلوط حکومت تھی، مگر وزیر اعلیٰ پی پی پی کا نہیں تھا۔ آصف زرداری کی صدارت کے دَور میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف تھے۔
مکمل اقتدار نہ ملنے کے باعث بھی ہم یہ باور کرسکتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی کی طرح کوئی تاریخی فیصلے اور اقدامات نہیں کرسکی ہیں۔ انہوں نے جنوری1989میں ’’جنگ‘‘ سے ایک انٹرویو میں یہ تسلیم کیا تھا کہ پنجاب میں پی پی پی کےکارکن صرف مزاحمت کی سیاست کرتے رہے ہیں،انہیں انتخابی میکانزم سے آگاہی نہیں ہے۔ وہ انتخابی قواعد و ضوابط سے بے خبری کے باعث اپنی مقبول اکثریت کو انتخابی اکثریت میں تبدیل نہیں کرسکے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان انتخابات میں برادری کا زیادہ اثر ہوا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کی کمرشلائزیشن کا کاروبار بھی شروع کردیا گیا ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ایک صوبائی نشست پر ساڑھے چار کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شُمار صحیح ہوں نہ ہوں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ انتخابات تجارتی بنیادوں پر لڑے جارہے ہیں۔
بے نظیر بھٹو صاحبہ کو دوسرے دَور میں اپنے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کی سیاسی مہم جوئی کا مقابلہ بھی کرنا پڑا۔ ان کی والدہ بیگم نصرت بھٹو کو بیٹی اور بیٹے کی محبت کے لیے مامتا کو تقسیم کرنا پڑا۔ بیگم نصرت بھٹو اپنی ضعیف العمری اور علالت کے باوجود کتنے صدمے اور بحران برداشت کرتی رہی ہیں۔ 51سال کی عمر میں ان کے خاوند کو شہید کردیا گیا۔ دونوں بیٹے ان سے دور تھے۔ وہ مختلف جیلوں میں بھیجی جارہی تھیں۔بہ بغرض علاج بیرون ملک پہنچیں تو تین سال بعد انہیں اپنے نوجوان بیٹے شاہنواز کی موت کا غم برداشت کرنا پڑا۔ 1993 میں انہیں بیٹے اور بیٹی کی سیاسی کشمکش کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بہت ہی اذیت کا دَور تھا۔
5دسمبر 1993 کو پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی اکثریت نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو شریک چیئر پرسن سے چیئر پرسن کے عہدے پر پہنچادیا۔ 6دسمبر کو بیگم نصرت بھٹو نے اعلان کیا کہ میں پارٹی کی بدستور چیئر پرسن ہوں،مجھے پارٹی کے بانی چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو نے تاحیات چیئر مین مقرر کیا تھا۔ ان کا دیا ہوا عہدہ کوئی مجھ سے نہیں چھین سکتا۔ مجھے بے نظیر نے پارٹی کی سرپرست بننے کے لیے کہا ہے جس سے میں نے انکار کیا ہے۔
دسمبر 1993 کے اس انٹرویو میں بیگم نصرت بھٹو نے پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان کے بارے میں کہا: ’’سب ارکان مرضی سے تقرر کیے گئے ہیں۔ ان میں ضیاء کی باقیات زیادہ ہیں۔ ضیا کی شوریٰ کے ارکان ہیں۔ اکثر خوشامدی ہیں۔ لیکن پھر بھی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کو یہ اختیار نہیں ہے ۔ اس فیصلے کی وجوہ خالصتاً شخصی ہیں۔ بے نظیر نے کچھ عرصہ قبل مجھ سے خود کہا کہ تم نے مرتضیٰ کے لیے کام کیا ہے ۔ مجھ پر پارٹی والوں کا دبائو تھا۔ میں اس لیے آپ کو ہٹانا چاہتی ہوں۔میں نے اسی وقت اس سے کہا تھا کہ میں نے شہید چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے کے الیکشن کے لیے کام کیا ہے۔ ڈکٹیٹر جنرل ضیا کے بیٹے کے لیے کام کیا ہوتا تو تم مجھے ضرور نکالتیں‘‘۔
بے نظیر صاحب کے دوسرے دور کا خاتمہ ایسے تکلیف دہ حالات میں ہوا کہ پارٹی کے لیڈر اور کارکن بہت اداس رہے۔ میر مرتضیٰ بھٹو کی الم ناک موت بہن کے دَور میں ہوئی۔
بعد میں ایک طویل دَور ہے۔ جلا وطنی کا۔ میاں نواز شریف نے جب دو تہائی اکثریت کے ساتھ 58 ٹو،بی کا خاتمہ کیا تو بے نظیر بھٹو انہیں مبارکباد دینے گئیں۔ سیاسی طور پر اس اقدام کو بہت پسند کیا گیا۔بعد میں جب جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے ہٹانے کے اعلان اور ان کے طیارے کے فضا میں گھومتے رہنےکے واقعات کے بعد پھر فوجی حکومت قائم ہوئی تو پیپلز پارٹی نے سمجھا تھا کہ اب ان کی باری آئے گی،مگر ایسا نہیں ہوا۔ درمیان میں ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پر دستخط بھی ہوئے، لیکن پھر اکیسویں صدی میں فوجی حاکم جنرل پرویز شرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان ابو ظہبی، لندن میں مذاکرات بھی تاریخ کا حصّہ ہیں۔
جب وہ اکتوبر2007میں وطن واپس آرہی تھیں تو یہ کہا جارہا تھا کہ ایک مختلف بے نظیر واپس آرہی ہیں۔ مگر یہاں اجل ان کا انتظار کررہی تھی۔
اس کے بعد سے پارٹی کی قیادت جناب آصف علی زرداری کے پاس ہے۔ ایک با اختیار صدر ہونے کے باوجود انہوں نے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کیے۔ لیکن پنجاب میں حکومت شہباز شریف کو دے کر انہوں نے پی پی پی کو پنجاب میں بے اثر کردیاجس سے اگلے انتخابات میں پنجاب سے پی پی پی بالکل غائب ہوگئی۔ وہاں انتخابی مقابلہ پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان ٹھہرا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے پرانے کارکنوں اور رہنمائوں کو ایک دَور میں بڑی امیدیں تھیں کہ جب بلاول بھٹو زرداری کو میدان میں لائیں گے تو پی پی پی ایک بار پھر پورے پاکستان میں مقبول ہوجائے گی۔ آصف علی زرداری نے بھی انہی توقعات کے تناظر میں بی بی کی وصیت کا سہارا لیا۔ خود کو شریک چیئرپرسن اور جواں سال بلاول کو پارٹی کا چیئرمین بنایا اور بلاول زرداری کے ساتھ بھٹو کالاحقہ لگاکرپورا نام بلاول بھٹو زرداری قرار دیا۔ جس سے ظاہر ہوا کہ بھٹو کا دَور اب بھی چل رہا ہے۔
بنتی نہیں ہے بادہ و دساغر کہے بغیر۔ بلاول سے عام کارکنوں کو بھی امیدیں تھیں اور ہیں۔ پاکستانی سیاست کے طالب علم بھی یہ سوچتے تھے کہ بلاول لندن کے تعلیم یافتہ ہیں،جواں عزم ہیں،دنیا کے حالات پر نظر رکھتے ہیں، جدید ٹیکنالوجی سے آشنا ہیں۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی عظمتِ رفتہ کو واپس لاسکتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بھی ایک وقفے میں بلاول کو اپنا پسندیدہ قرار دے رہی تھی۔ وہ سیاست میں نووارد ہیں۔ ان سے کسی کرپشن کا اسکینڈل وابستہ نہیں ہے۔ بعد میں بعض امور میں بلاول کا نام شامل ہوگیا۔ پھر شاید اسٹیبلشمنٹ نے ہاتھ اٹھالیا۔
میری طرح تاریخ کے دوسرے طالب علم بھی یہ دیکھ رہے ہیں کہ بلاول پنجاب میں جاکر کوششیں تو کررہے ہیں،مگر ان کی سیاست صرف ردّ عمل اور جوابی بیانات کی رہ گئی ہے۔ سندھ میں کوئی اور متبادل قیادت نہیں ہے اس لیےیہاں پیپلز پارٹی کواکثریت ملتی ہے۔ مگر سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں عوام کو اب بھی وہی مسائل درپیش ہیں جو1970کی دہائی میں تھے۔ جن کے حل کے لیے بھٹو صاحب نے اپنے طور پر بڑی کوششیں کی تھیں۔
یہ ارضی حقیقت ہے کہ بلاول، ذوالفقار علی بھٹو،بے نظیر بھٹو اوران کے رفقا کی سیاست کے وارث ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور نہ جانے کتنے مخلص اور بے لوث کارکنوں کی میراث ہے۔ کیسے کیسے معرکوں میں سرخرو ہوئی۔ کیسی بین الاقوامی پالیسیاں،کیسے قومی نظریات اس سے وابستہ ہیں۔ لیکن بلاول کا اب تک کا سیاسی کردار انہیں صرف آصف علی زرداری کا وارث ثابت کرتا ہے۔
ایک صدی گزر چکی۔
دوسری صدی کی دو دہائیاں بیت گئیں۔
سندھ نے پاکستان کے قیام کے لیے، جمہوریت کی بحالی کے لیے نسل در نسل قربانیاں دی ہیں، اپنے وزرائے اعظم قربان کردیے ۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان، پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، پہلی مسلم خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو، نے پاکستان کے لیے ،پاکستان کے عوام کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا۔ لیکن سندھ شہری ہو یا دیہی،اکثریت کے چہرے اسی طرح کھردرے ہیں۔1947میں جب پاکستان بنا۔ جب 1970 میں بھٹو صاحب روٹی، کپڑا ،مکان کا نعرہ بلند کرکے میدان میں اترے۔1977 میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی طویل جدو جہد شروع کی۔ جب بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری نے نعرہ بلند کیا،’’پاکستان کھپے‘‘۔ اب جب 2022 میں 34سالہ بلا ول بھٹو زرداری، عمران خان کو سلیکٹڈ کٹھ پتلی کہتے ہوئے ان کی حکومت گرانے نکلے ہیں۔