• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بنارس ہندو یونیورسٹی کے پروفیسر کرپا رام جی سے ہماری ملاقات کینبرا میں واقع آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں ہوئی تھی، ایک دھیمے مزاج کا اسکالر جس کا زیادہ تر وقت لائبریری میں مخطوطات کے ساتھ گزرتا تھا۔ گوتم بدھ پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے، اور بنارس کے ساتھ موصوف کا لگاؤ عشق کی حد کو چھوتا تھا۔ جب کبھی آمنا سامنا ہوتا تو بنارس کا ذکر کچھ اس رچاؤ سے کرتے کہ پہلی خواہش یہی ہوتی کہ سب چھوڑ چھاڑ کر ایک چکر اس افسانوی شہر کا لگا آئیں۔ بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ انہیں دنوں ہوا تھا۔ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے ”بابری مسجد پر ہی کیا موقوف، مندروں کے کھنڈرات پر مسجدیں تعمیر کرنا مغلوں کا محبوب مشغلہ تھا۔ اس قسم کی مثالیں تو پورے ہندوستان میں بکھری پڑی ہیں۔ بنارس کی عالمگیری مسجد کو ہی لیں۔ قدیم مندر ”بندو مدھاوا“ کو مسمار کرکے تعمیر کی گئی تھی۔ مغلوں پر ہی کیا موقوف یہ سلسلہ تو ان سے بھی کہیں پہلے شروع ہوچکا تھا۔ 12 ویں صدی میں محمد غوری کے ہاتھوں لوٹے اور برباد کئے گئے مندروں کا حساب کتاب ہم ابھی تک نہیں لگاسکے۔“ یکایک یوں لگا کہ جیسے سنجیدہ اور دھیمے پروفیسر کرپارام جی کے انر سے یکایک ایک متعصب ہندو نکل کر سامنے آگیا ہو، بعد میں موصوف امریکہ چلے گئے اور ہم واپس پاکستان۔ مگر بنارس کی ”تڑپ“ گاہے گاہے بے چین کرتی رہتی تھی۔ اور پھر موقع نکل آیا اور مارچ کی ایک خوشگوار شام ہم بنارس کے ہوٹل ”تاج گنگا“ میں اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑے یوں محسوس کررہے تھے کہ گویا ہمارے ارد گرد لاتعداد مندر یکایک اگ آئے ہوں، بلاشبہ بنارس کو پہلی نظر میں ہی مندروں کا شہر کہا جاسکتا ہے۔بنارس ہندو مت کا ہی نہیں، بدھ مت اور جین مت کا بھی مقدس شہر ہے۔ یہاں کے گائیڈ اسے دنیا کا قدیم ترین شہر بتاتے ہیں۔ جو کم و بیش تین ہزار سال سے آباد ہے۔ اگلی صبح شہر گھومنے کیلئے تیار ہو کر لابی آئے تو ہوٹل والے گائیڈ ہمراہ کرنے پر مصر تھے۔ بڑی مشکل سے جان چھڑائی اور ڈیسک پر سے کچھ لٹریچر اٹھالیا۔ پاس بیٹھی ٹورسٹ منیجر بولی جناب ! یہ مندروں کا شہر ہے۔ بھارت ماتا مندر، تلسی مندر ، درگا مندر ، سنکت مندر اور وشوا ناتھ مندر دیکھنا مت بھولئے۔ عرض کی ، ان سب کا نظارہ تو ہم بالکونی سے کرچکے، ایک آدھ اندر سے بھی دیکھ لیں گے کیونکہ مسجدوں کی طرح سبھی مندر بھی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ۔ بولی، تو پھر جناب ، عجائب گھر بھی ہے، ہندو یونیورسٹی ہے اور اگر مناسب سمجھیں تو مکتی بھون ہوسٹل کی طرف بھی ہو آئیے۔ شہر میں نکلے تو احساس ہوا کہ یہاں تو واقعی ہر طرف مندر ہی مندر ہیں۔ حسب پروگرام ایک بڑا مندر اندر سے دیکھا اور سیدھے یونیورسٹی کی طرف چلے گئے۔ دونوں جگہیں روایتی خدوخال سے آراستہ تھیں۔ کچھ بھی اچنبھا نہ لگا ۔ ٹور کے پہلے چار گھنٹوں میں بوریت سی محسوس ہونے لگی اور افسوس ہوا کہ بلاوجہ کرپارام جی کی باتوں میں آگئے۔ بنارس بھی بھلا کوئی دیکھنے کی جگہ ہے؟ ٹیکسی والے نے سنا تو بولا صاحب ! من میلا نہ کریں، سامنے والے ڈھابے سے پیٹ پوجا کرکے گنگا گھاٹ کی طرف چلتے ہیں، امید ہے آپ کی پریشانی دور ہوجائے گی۔ ورنہ واپس ہوٹل چھوڑ دوں گا۔ بات معقول تھی۔ سڑک کنارے چھپر ہوٹل سے دال روٹی کھائی اور گنگا گھاٹ پہنچ گئے۔ وہاں تو منظر ہی دوسرا تھا۔ دریا کے دونوں جانب تاحد نگاہ اسٹیڈیم جیسی سیڑھیاں اور ان پر بیٹھے لاتعداد ننگ دھڑنگ سادھو، سنتو ، بھکشو اور یا تریوں کا بے پناہ رش ۔ پتہ چلا کہ ہندوؤں کے نزدیک گنگا بے حد مقدس دریا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اس میں نہانے سے تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں، وہاں پر دان کرنے کی بھی بہت فضیلت ہے، جو ایک خرچ کرے گا ، ہزار کا ثواب پائے گا اور یہ کہ بنارس میں رکھے گئے تین روزوں کا اجر زندگی بھر کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔
ہندو آوا گون پر یقین رکھتے ہیں۔ یعنی مرنے کے بعد انسان شکلیں بدل بدل کر بار بار پیدا ہوتا رہتا ہے تاوقت یہ کہ اسے مکتی نصیب نہ ہوجائے۔ پتہ چلا کہ ہندوؤں کے نزدیک آوا گون ایک اذیت ہے اور ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ ایک ہی جنم کے بعد مکتی مل جائے۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جسے بنارس میں موت آئے یا اس کی راکھ یہاں گنگا حوالے کی جائے، وہ آواگون کے عذاب سے نجات پا جاتا ہے اور اس کی ”انت مکتی“ ہوجاتی ہے۔ یہ کمرشل ازم کا دور ہے۔ جس چیز کی مارکیٹ ہو اس کا اہتمام ہوجاتا ہے۔ بنارس میں بھی مکتی بھون کے نام سے بارہ کمروں کا ایک ہوسٹل ہے۔ جہاں قریب المرگ ہندوؤں کو رکھا جاتا ہے اور مرنے پر راکھ گنگا میں بہادی جاتی ہے۔ ہوسٹل کیا ہے؟ سرخ اینٹوں کی بنی ایک قدیم عمارت ، جہاں موت کا سناٹا ہر دم چھایا رہتا ہے۔ یہاں ڈاکٹر ہیں۔ نہ نرسیں ، نہ دوا نہ دارو۔ البتہ چند پنڈت موجود ہیں ، جو مرنے والوں کی آخری رسومات کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہاں ہر کوئی موت کی دعا کرتا ہے اور بیسیوں کی ہر روز قبول بھی ہوجاتی ہے۔ جو ذرا سخت جان ہو اور دو ہفتوں تک بچا رہے، اسے ہوسٹل سے خارج کردیا جاتا ہے۔ تاکہ نئے آنے والوں کیلئے جگہ بنائی جاسکے۔ پاس ہی گنگا کنارے سینکڑوں چتائیں ہیں ، جو ہر وقت دور و نزدیک سے لائے جانے والے مردوں کو راکھ بنانے میں مصروف رہتی ہیں۔ دنیا بھر میں پیدائش کو سیلی بریٹ کیا جاتا ہے اور مکتی بھون والے موت پر سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ ماتا پتا اور دیگر پیاروں کو یہاں لانے والوں کی خواہش ہی نہیں دعا بھی ہوتی ہے کہ جلد سے جلد ان کا دم نکلے تاکہ راکھ گنگا حوالے کرکے گھروں کو لوٹ سکیں۔ سخت جان بزرگوں کو واپس لے جانے والوں کی اذیت دینی ہوتی ہے۔ ایک ایسے بوڑھے کو مکتی بھون والوں نے فارغ کردیا ، تو وارثوں نے پہلے تو ان کے پاؤں پکڑے کہ چند دن اور رکھ لیں۔ شاید مراد برآئے۔ جب ہاسٹل انتظامیہ نہ مانی تو بھی بزرگ کو یوں گھور رہے تھے، کہ گویا اس سے کوئی بڑا جرم سرزد ہوگیا ہو۔ بڑے بیٹے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم نے اپنا فرض پورا کردیا۔ روز روز تو یہاں آنے سے رہے۔ اب گاؤں میں ہی مروگے اور وہیں کر یا کرم ہوگا۔
اس مقام حیرت سے واپس ہوئے تو عالمگیری مسجد راہ میں پڑگئی۔ گاڑی رکوائی تاکہ ایک جھلک دیکھی جاسکے۔ طرز تعمیر مغلوں کی نسبت ہندوؤں سے زیادہ قریب لگا۔ اہل ہند ویسے تو مغلوں کو بڑے فخر سے انڈین کنگز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تاج محل سمیت ان کی تعمیر کردہ عمارتوں سے اربوں کا زرمبادلہ کماتے ہیں، نہ جانے مسجدوں پر چیں بجیں کیوں ہوتے ہیں۔ جبکہ ان کے ہاں کی مسلمان آبادی پاکستان کے لگ بھگ ہے۔
تازہ ترین