• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوگیا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رخصت کئے جانے والے پہلے وزیراعظم ہیں۔ ان کے چاہنے والوں کو یقین ہے کہ جس طرح امریکی ایما پر ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ اُلٹا گیا، اسی طرح عمران خان کو بھیAbsolutely Notکہنے پر حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔

کیا واقعی عمران خان امریکہ کے لئے ’خطرے ناک‘ہوگئے تھے اور ان کا موازنہ بھٹو جیسی قدآور سیاسی شخصیت سے کیا جا سکتا ہے؟آئیے تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاکستان اٹامک انرجی انسٹیٹیوٹ کا سنگ بنیاد تو جنوری 1955ء میں رکھا گیا جسے 1956ء میں اٹامک انرجی کمیشن میں تبدیل کردیا گیا مگر یہ ایک فرمائشی اور بڑی حد تک نمائشی ادارہ تھا یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی۔

جنرل ایوب خان اور ان کے مقرر کئے ہوئے چیئرمین اٹامک انرجی کمیشن ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی پرامن مقاصد کے لئے نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔اشوک کپور جو کینیڈا کی ’یونیورسٹی آف واٹر لو‘ میں پروفیسر ہیں۔ وہ اپنی کتاب 'Pakistan's Nuclear Development'میں لکھتے ہیں: ’’جب ایوب خان سے پوچھا گیا کہ اگر بھارت نے ایٹمی دھماکہ کردیا تو آپ کیا کریں گے ؟تو انہوں نے کہا، ہم بنا بنایا ایٹم بم خرید لیں گے‘‘۔ (صفحہ نمبر24)

بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں تھے تو انہوں نے ایندھن، قدرتی ذرائع اور اٹامک انرجی کے وزیر کی حیثیت سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی نگرانی کی اور بعد ازاں جب وزیر خارجہ بن گئے تو تب بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں ان کی دلچسپی کم نہ ہوئی۔

بالخصوص65ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد انہیں شدت سے احساس ہوا کہ پاکستان کا دفاع ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے ہی ممکن ہے۔ آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد جب بھارت نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی تگ و دو میں تھا تو بھٹو نے عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا، اگر بھارت نے جوہری دھماکہ کیا تو ہم گھاس کھالیں گے، بھوکے رہ لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) کمال متین الدین نے اپنی کتاب The Nuclearization Of South Asiaمیں لکھا ہے: ’’اگرچہ تب تک بھارت واضح طور پر نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کی کوششوں میں مصروف تھا مگر ایوب خان جوہری ہتھیار بنانے کے حق میں نہیں تھے اور نہ ہی انہیں پاکستان کی قومی سلامتی کے لئے ضروری خیال کرتے تھے۔

یہ بات یقینی طور پر کہی جاتی ہے کہ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ صلاحیت حاصل کرنے کی سفارش کی مگر بتایا جاتا ہے کہ ایوب خان نے یہ تجویز مسترد کردی کیونکہ تب تک فوج کو جوہری ٹیکنالوجی میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔آغا شاہی جو بعد ازاں وزیر خارجہ رہے، وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ (صفحہ نمبر 81,82)

بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے 20جنوری 1972کو ملتان میں سابق گورنر صادق حسین قریشی کی رہائشگاہ پر پاکستان بھر کے سائنسدانوں کو جمع کیا ۔

اس تقریب میں ڈاکٹر عبدالسلام سمیت چوٹی کے ماہرین طبعیات شریک تھے، بھٹو نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا، میرا خواب تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت بنے مگر کسی نے میری بات نہیں سنی، کیا آپ میں سے کوئی میرا یہ خواب پورا کر سکتا ہے؟ سائنسدانوں نے کہا، ہاں اگر ہمیں وسائل اور سہولیات مہیا کی جائیں تو ہم یہ کر سکتے ہیں۔

اس تقریب کے دوران ہی بھٹو نے منیر احمد خان کو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا نیا چیئرمین مقرر کرنے کا اعلان کیا۔بھٹو نے جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کی جانب پہلا عملی قدم اُٹھاتے ہوئے کراچی پاور پلانٹ کی بنیاد رکھی جسے Kanupp کہا جاتا ہے۔

 فرانس سے طویل مذاکرات کے بعد ری پراسیسنگ پلانٹ خریدنے کے معاہدے پر دستخط ہوئے مگر اس دوران بھارت نے 18مئی 1974ء کو پوکھران میں سمائلنگ بدھا کے مقام پر پہلا ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کی مشکلات بڑھا دیں۔ ایک طرف پاور پلانٹ کے لئے بھاری پانی کی فراہمی بند کردی گئی تو دوسری طرف فرانس سے ری پراسیسنگ پلانٹ کے حصول کا معاہدہ بھی کھٹائی میں پڑگیا۔

بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں بھٹو نے کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس بلا کر ایٹم بم بنانے کی منظوری تو دیدی مگر ان حالات میں ایٹم بم بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دیتا تھا کیونکہ پاکستان کے پاس پلوٹینئم تیار کرنے والا ایٹمی ری ایکٹر، ایندھن بنانے والا جوہری پلانٹ اور بھاری پانی تیار کرنے والا پلانٹ نہیں تھا اور فرانس سے ری پراسیسنگ پلانٹ کی خریداری کی بیل بھی منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔

 اس دوران ذوالفقار علی بھٹو کو ایک خط ملا جسے پڑھ کر وہ خوشی سے جھوم اُٹھے اور یہی خط پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی کامیابی کی بنیاد بنا۔

نیدرلینڈ میں یورینیم افزودہ کرنے والے ’’Almelo Plant‘‘پر کام کر رہے ایک نوجوان سائنسدان نے وزیراعظم کو خط لکھا کہ وہ پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے کراچی اسٹیل ملز میں نوکری کی درخواست دی مگر اسٹیل مل والے ان کی بات نہیں سن رہے۔

وزیراعظم بھٹو نے اپنے ملٹری سیکرٹری کو کہا کہ اس نوجوان کو کہیں فوری طور پر چھٹی لیکر پاکستان آئے اور مجھ سے ملاقات کرے۔اس نوجوان سائنسدان کا نام ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھا جنہوں نے بلجیم سے طبعی فِلزیات میں پی ایچ ڈی کی تھی۔

جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات ہوئی تو بھٹو نے کہا، اسٹیل مل کو بھول جائو، ہمیں یہ بتائو، ایٹم بم کیسے بنانا ہے؟ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پلوٹینم کے بجائے یورینیم کے ذریعے ایٹم بم بنانے کی تجویز دی جو بھٹو نے قبول کرلی۔

ابتدائی طور پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایٹمی توانائی کمیشن میں کام کرنے کا کہا گیا مگر جب بیوروکریسی نے ان کی دال نہ گلنے دی اور روڑے اٹکانا شروع کئے تو بھٹو نے ایک خفیہ منصوبے پر کام شروع کیا جس کا کوڈنیم ’’پروجیکٹ 706‘‘ رکھا گیا۔

 ایٹمی توانائی کمیشن کو نمائشی گھوڑے کے طور پر کام کرنے دیا گیا مگر نیوکلیئر پروگرام چپکے سے’’ پروجیکٹ 706‘‘کے تحت چل رہی کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز میں منتقل کردیا گیا۔ آگے چل کر یہی پروجیکٹ 706 کس طرح بھٹو کی پھانسی کا سبب بنا۔اس پر اگلے کالم میں بات کریں گے۔(جاری ہے)

تازہ ترین