• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب میرا بڑا بیٹا کوئی ڈیڑھ سال کا تھا، تو وہ ہر اس شخص کی گود میں چلا جاتا تھا جو اسے کھانے کی کوئی چیز دکھاتا۔ مجھے آج کی قومی اسمبلی میں وہی منظر نظر آ رہا ہے۔ اس وقت بچے کی شرارتوں پر سب کھلکھلا کر ہنس دیتے تھے اور آج کی اسمبلی کی حرکتوں پر بھیک مانگنے والا بھی شرمسار نظر آتا ہے۔ منو بھائی نے ایسی ہی شعبدہ بازیوں پر لکھا تھا کہ اسمبلی تو ایک تکڑی ہے جس میں بیٹھے ڈڈو (مینڈک) پھدک پھدک کر کبھی ادھر اور کبھی ادھر۔ ایسی سیاست تو پاکستان میں خواجہ ناظم الدین کو وزارتِ عظمیٰ سے اتارنے کی طرح کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ دوبارہ بیان کرنے کا مطلب ہے کہ آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی سرمسار کر۔ غالب یاد آ رہا ہے کہ جس نے کہا تھا ’’دھمکی میں مر گیا جو باب نبرد تھا‘‘ اور پھر یاد کرو جب پنڈی چوک میں بھٹو صاحب نے امریکی دھمکی کا خط لہرایا تھا کہ کسنجر نے دھمکی دی ہے کہ تمہیں خوفناک مثال بنا دیا جائیگا۔ اور واقعی اس بہادر سپوت نے اپنی خود داری کو دائو پر نہیں لگایا۔

پاکستان میں جمہوریت کے نام پر عدم اعتماد کی فصل بہت پھیلی اور کبھی چھانگا مانگا تو کبھی سندھ ہائوس بدنام ہوئے البتہ جب آمریت ہو تو بارہ بارہ سال تک چلتی ہے۔ اس وقت سیاست دانوں کی زبانوں کو تالے لگ جاتے ہیں۔ خود کار مشینوں کی طرح اسمبلیوں میں آتے، سرمایہ بناتے اور موسم کے حال پر بھی گفتگو نہیں کرتے ۔ رہا عوام کا سوال تو بیچارے عمران خان نے تعلیم اور خردمندی کے موضوعات کو چھیڑا ہی نہیں، اس معصوم کو ریاست مدینہ کے تصور نے دیوانہ کیا ہوا ہے۔ اس لیے روز عبا پہنے، او آئی سی کے نام پر بے توقیر سربراہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ اعلامیہ گیا بھاڑ میں، طالبان نے لڑکیوں کے اسکول پھر بند کر دیئے، سونے پر سہاگہ یہ کہ امریکہ تک گونگے کا گڑ کھائے بیٹھا ہے۔ گویوکرین میں لوگ بلاوجہ مر رہے ہیں۔ نیٹو کا اجلاس بڑی دھوم سے ہوتا ہے، نہ کبھی کشمیر کی بات ہوتی ہے، نہ فلسطین اور نہ کبھی یوکرین کی۔ صومالیہ اور سری لنکا میں پانی نہیں، خشک سالی سے لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ بائیڈن صاحب تو ظلم کے معاملے میں ٹرمپ کے دادا ثابت ہو رہے ہیں۔ بیچ میں ترکی کہاں سے صلح کرانے کو دادا بن گیا۔ اپنے ملک میں آمریت رکھی ہوئی ہے۔ یوکرین میں جو کچھ عورتوں اور بچوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کا کوئی نام ہی نہیں لیتا۔ شاید یوکرین کو دو حصوں میں بانٹ کر پیوٹن پھر نئے انداز دکھائے گا۔ یہ سرد جنگ کا نیا دور آگے بڑھا رہا ہے۔

ہمارے ملک میں تو، ہر لمحے، ہر گھڑی اور ہر روز میوزیکل چیئر کی گیم ہوتی رہتی ہے۔ ’’کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے‘‘ ہمارے عمران روز عہدنامہ نیا لیکر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس وقت بلوچ رہنما تو بول رہے ہیں مگر ہمارے پٹھان خاص طور پر افتخار حسین کہاں ہیں؟ عمران خان نے تو سرپرائز دیا ہے کہ نالہ لئی کو ٹھیک کروائیں گے۔ یہ موضوع صرف اور صرف شیخ رشید کا تھا۔ ان سے یہ بھی چھین لیا۔ بے چاری فہمیدہ مرزا جن کو پیپلز پارٹی نے اسپیکر بنایا۔ کروڑوں کا سرمایہ ان کے کینسر کے علاج پر خرچ کیا۔ اب سرپرائز دے رہی ہیں۔ مخالفت میں سب سے بڑا سرپرائز تو وہ خاتون دے رہی ہیں جو پہلے وزیراعظم اور پھر وزیراعلیٰ کی ترجمان رہیں اور اب ن لیگ سے درخواست کر رکھی ہےکہ ’’مہرباں ہو کے بلالو مجھے چاہو جس وقت، میں گیا وقت نہیں کہ پھر آبھی نہ سکوں۔‘‘ اس بات کو سرپرائز کہنا کہ ظہور الٰہی محل والے اپنے اصول پر قائم رہے۔ کب سے تڑپ رہے تھے کہ کسی طرح پنجاب کی وزارت اعلیٰ مل جائے۔ بزدار کو بیٹھا دیکھ کر دل مسوس کر رہ جاتے تھے۔ اب یہ چاہے چراغ بجھے ہوں، بہرحال آخری لو بھی، لوگوں کی رہنمائی کے لیے بہت ہوتی ہے۔

عمران خان اپنی منفرد عادتوں کے عادی ہیں۔ کیا کھانا، کس وقت کھانا، کس سے ملاقات رکھنی یا چھوڑنی اسی طرح ضیا الحق کے زمانے سے لیکر مشرف کی انگلیوں کے اشاروں کو سمجھتے سمجھتے، اپنی بے علمی کا برملا ظاہر کرتے اور ممولے کو شہباز سے لڑاتے۔ وزیراعظم ہائوس بھی نہ چھوڑا اور بنی گالہ کے لان میں ساری سردیوں کی دھوپ میں لوگوں سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ کوئی کوئی خوش نصیب ہوتا جس سے وہ ہاتھ ملاتے، کوئی بھی خوش نصیب نہ تھا جسے چائے کا کپ پیش کرتے۔ ملکی بچت کی اتنی پروا تھی۔ بہرحال کچھ مولویوں کو بھی فیض یاب کیا۔ اب وہ تسبیح اور انگوٹھی کس کے نصیب میں ہوگی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین