یقیناً یہ مایوسی اس لیے ہے کہ پاکستان میرا آبائی وطن اور انگلستان میرا حالیہ ملک ہے۔ حقیقتاً مجھے ان دونوں ملکوں سے گہری محبت ہے۔ اس لیے میں اپنے ایک ملک کی خوشحالی اور دوسرے ملک کی زبوں حالی پر خوش یا مطمئن نہیں ہو سکتا۔ خواہ یہ سیاسی بدحالی ہو یا سیاسی زبوں حالی، حالیہ تحریکِ عدم اعتماد اور سیاست دانوں کی تُو تکار سے میری یہ سوچ مزید پختہ ہو گئی ہے کہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ کے شکار اس معاشرے اور ریاست کو ایک شفاف اور انسانی معاشرے کی طرف مراجعت کیلئے کم و بیش پانچ صدیوں کا مزید وقت درکار ہوگا۔
تہذیب و تمدن کی روایات رکھنے کے دعویدار اس معاشرے کے ارباب بست و کشاد ابھی تک یہی طے نہیں کر پائے کہ پاکستان کی جغرافیائی حدود کی کوئی اپنی ذاتی تہذیب ہے بھی یا نہیں اور جن ثقافتی اقدار کو بنیاد بنا کر یہ لوگ دندناتے پھرتے ہیں اس کی عملی طور پر کوئی جھلک معاشرے میں نظر آتی بھی ہے یا نہیں۔ مقننہ، انتظامیہ، سیاست و صحافت، پولیس اور نوکر شاہی کے زیرِدست سبھی اداروں کی اساس تو جھوٹ، کرپشن اور دھاندلی پر ہی استوار ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ دولت و رشوت کی ہوس میں ڈوبے ادارے کسی کے کہنے سننے میں نہیں ہیں۔ ملک کا انتہائی صاحبِ ثروت طبقہ خود کو ماورائے قانون سمجھتے ہوئے ہر وہ قانون اور حدود و قیود توڑ رہا ہے جو ایک جدید و مہذب معاشرے کی پہچان ہوا کرتی ہیں۔ ملک میں اب دو ہی طبقے سانس لیتے دکھائی دیتے ہیں، ایک غریب اور دوسرا بہت امیر۔ متوسط طبقہ جو معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتا ہے، یکسر غائب ہو چکا ہے۔ حرام کا پیسہ جادو کی طرح سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ وکلا، صحافی، ڈاکٹر، ٹرانسپورٹر، رکشا ٹیکسی ڈرائیورز، ریلوے ملازمین، ایئر لائنز کے پائلٹ غرضیکہ ان سب کا اپنا اپنا مافیا ہے جو اپنے ذاتی مفادات کیلئے ہمہ وقت سڑکوں پر آنے کو تیار رہتا ہے اور سیاستدان اپنے اقتدار کی طوالت کیلئے ملک دشمن جماعتوں و تنظیموں سے سمجھوتے کرتے ہیں۔ یہی وہ لٹیرے ہیں جو ملکی دولت کو گھن کی طرح چاٹ کر غیرملکی بینکوں میں کھربوں ڈالر کا سرمایہ اکٹھا کر کے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ اس بندر بانٹ میں ہر شعبے سے وابستہ افراد شامل اور برابر کے شریک جرم ہیں تو ایسے میں پوچھے کون، آئینہ کون دکھائے اور احتساب کون کرے گا؟
ملک کا تعلیمی نظام بھی تباہی و تنزلی کی آخری حدود پار کر چکا ہے۔ انواع و اقسام کا نظامِ تعلیم پروان چڑھتی نسل کو صریحاً کنفیوژ کر رہا ہے۔ سرکاری اسکول سسٹم تو ویسے ہی تعلیمی ضروریات پوری کرنے میں بُری طرح ناکام ہے اور نجی اسکول ایک شرمناک اور خوفناک مافیا کی شکل اختیار کر کے بےکس و مجبور عوام کی جیبوں پر سرعام ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ ایک دو کمروں پر مشتمل نام نہاد انگریزی اسکول ملک کے شہروں، قصبوں اور دیہات کی ہر گلی کی نکر پر دکانیں کھولے بیٹھے ہیں اور والدین کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنی جیبیں خالی کریں کیونکہ گورنمنٹ اسکول اول تو تعداد میں نا کافی ہیں، بڑھتی ہوئی آبادی کا ساتھ نہیں دے سکتے اور یہ اسکول اگرکہیں موجود بھی ہیں تو یہاں اساتذہ ناپید اور پڑھائی سرے سے نہیں ہوتی۔ یہی حال گورنمنٹ کالجز کا بھی ہے۔ اس لیے چپے چپے پر موجود نجی کالجوں کی بہتات اور ان پر پیسوں کا مینہ موسلا دھار برس رہا ہے اور ان کے عیار مالکان دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ کر امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے چند ایلیٹ اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کا طبقہ کلی طور پر ملک کی 99فیصد آبادی سے الگ تھلگ ہے۔ ملک میں طلبہ کی ایک ’’کلاس‘‘ ایسی بھی ہے جو اسکولوں میں بینچوں اور ڈیسکوں سے بھی محروم ہے اور طالبعلوں کی ایک کلاس وہ بھی ہے جو اسکول کے نام پر کسی قسم کی چار دیواری و چھت کو بھی ترستی ہے اور درختوں کے نیچے کھلے آسمان تلے بیٹھ کر اپنے تئیں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ لہٰذا کھچڑی زدہ نظامِ تعلیم رکھنے والے ملک کا بیرونی دنیا میں معیار یہ ہے کہ ہر بین الاقوامی تعلیمی ادارہ پاکستان کے تعلیمی اداروں کی ڈگری قبول کرنے سے انکاری ہے! مایوس کن صورتحال باہمی رشتہ داریوں اور دوست احباب کے منفی رویوں کے ضمن میں بھی ہے۔ شفافیت اور کھلے دل سے کوئی بھی میل ملاپ نہیں رکھتا، کسی سے دعا سلام بھی معاشی وزن کو ملحوظ خاطر رکھ کر کی جاتی ہے۔ تھینک لیس ابن الوقتوں سے جس قدر چاہے انسیت بڑھائی جائے، اخوت کے بجائے کدورت ہی حصے میں آتی ہے۔ خاندانی شرافت، ادب و آداب، سوری اور تھینکس جیسے الفاظ معاشرے کے کینوس سے جیسے حذف کیے جا چکے ہیں۔ ہر شخص آپ کی جیب پر نظر رکھے ہوئے کسی خاص موقع کا منتظر ہے۔ وہ جب آپ کی املاک پر قابض ہو، قبضہ مافیا، پولیس، عدلیہ اور ملک کے ہر ایک انتظامی شعبے سے زیادہ متحرک اور طاقتور ہے۔ اس بےلگام مافیا کو لگام دینے والے بھی خود اپنا حصہ بٹور کر املاک و لینڈ مافیا کی اَن دیکھی طاقت بن رہے ہیں۔ اوپر سے نیچے تک جھوٹ، مکرو قریب، ریا کاری، آپا دھاپی اور لوٹ کھسوٹ کا ایک سیلاب ہے جو اس دھرتی کے ماضی کی تمام تر تہذیبی و تمدنی روایات و اچھائیوں کو بہا کر گہرائیوں میں ڈبوئے چلا جارہا ہے اور افسوس کہ نیرو صرف بانسری بجار ہا ہے!
میری مایوسی کا ایک سبب بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی بھی ہے۔ صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ملک کا محنت کش طبقہ محنتِ شاقہ کے بعد بھی نان و نفقے کے حصول میں کامیاب نہیں ہو پاتالیکن دوسری طرف کچھ لوگ مذہب فروشی میں مصروف ہیں۔ سوسائٹی کے ایک بڑے حصے کو پیٹ پالنے کی فکر سے ہی فرصت نہیں، وہ اپنے سانس و جسم کا رابطہ قائم رکھنے کی جستجو میں اس قدر مگن اور دھنسا ہوا ہے کہ اسے نہ حق سے واقفیت ہے نہ حقوق کی خبر، چنانچہ اندھا گونگا اور بہرا نظام گھپ اندھیرے کمرے میں ایک قدم آگے اور کبھی دو قدم پیچھے ٹامک ٹوئیاں مارتا ہوا سسک رہا ہے۔ اس معاشرے اور اس میں مقیم انسان نما لوگوں کو جدید سائنس سے کوئی رغبت ہے نہ معاشرتی رکھ رکھاؤ کے بنیادی اصولوں کی کوئی پروا۔ خیبر سے کراچی تک پورا ملک تجاوزات اور ایک بےوجہ کے انا یعنی تکلیف دہ شور کی زد میں ہے۔ وفاقی ہو یا صوبائی حکومتیں سب اپنے اپنے اقتدار کی مضبوطی اور اپنے مصاحبین کے اللے تللوں میں مگن و مست ہیں۔مایوسی تو یہ بھی ہے کہ روتے بلکتے، روز مرتے جیتے اور خانماں برباد ملک کے 90فیصد عوام کیلئے نہ کسی عوام کے خادم کا جذبہ خدمت جوش میں آتا ہے اور نہ کسی سائیں سرکار کو ہوش آتا ہے، چنانچہ کشمیر، پختونخوا اور بلوچستان کی تو خیر بات ہی نہ کریں۔ لہٰذا اس مایوسی کو شادمانی میں بدلنے کیلئے بس دعاہی کریں!