• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نصف صدی گواہ ہے کہ ہر سیاسی کردار کو بھٹو بننے کا جنون رہا ہے مگر بھٹو بننا اتنا آسان نہیں، اس کے لیے شہادت گاہِ عشق میں قدم رکھنا پڑتا ہے اور موت کو شکست دینا پڑتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایسا کرشماتی اور لافانی کردار ہے جس کی زندگی اعلیٰ ظرفی، ہمدردی اور فراخدلی کا بہتا ہوا دریا تھی۔ بھٹو نے جابرانہ طاقتوں کا انتہائی دلیری سے مقابلہ کیا تاکہ سچائی، انصاف اور مساوات کا عکاس ایک خوبصورت معاشرہ قائم ہو سکے۔ بھٹو، ذوالفقارِ علی بن کر آیا تاکہ محروم عوام کے پیروں میں پڑی ہوئی استحصال کی زنجیریں توڑ دے۔ انتہائی ایذا رسانی، نفرت انگیز انتقامی کارروائیوں اور موت کی کال کوٹھری میں قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود بھٹو نے اپنی ناقابلِ شکست قوتِ ارادی اور ناقابلِ تسخیر جذبے سے دشمن کے ناپاک عزائم کو پامال کر دیا۔ بھٹو کی ذات کروڑوں بدنصیب انسانوں کیلئے جو اس سر زمین کی اتھاہ تاریکیوں میں زندگی گزار رہے تھے، ایک خدا داد نعمت تھی، جیسے آسمان کا روشن ترین ستارہ آسمان کو منور کرتا ہے اُسی طرح وہ محروم عوام کی تاریک زندگی میں اُمید، حوصلے، روشن مستقبل، خوشحال زندگی اور مسکراہٹوں کا ایک روشن مینارہ تھا۔ عوام کے لیے بھٹو کے انمول کارناموں نے اسے امر بنا دیا ہے۔ لہٰذا بھٹو کی مسابقت کسی بھی سیاسی رہنما سے ناممکن ہے۔

پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں اور سیاست کے میدانوں میں عوام کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ بھٹو نے عام آدمی کو سوچ اور اظہار کا وہ گُر سکھایا کہ سیاست عوام کی خواہشات کے تابع ہو گئی اور محلوں والے جھونپڑیوں کے سامنے بھکاری بن کر کھڑے ہو گئے۔ بھٹو کی جماعت مزدوروں، کسانوں، طالبعلموں اور دانشوروں کے اتحاد کی علامت کہلائی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار تربیت یافتہ سیاسی ورکروں کا ’’سیاسی ادارہ ‘‘ وجود میں آیا۔ بھٹو نے مخصوص ناموں اور نعروں کے ذریعے مذہبی تعصبات بھڑکانے والی جماعتوں کو چیلنج کرتے ہوئے عوام کی خواہشات کے مطابق سیاست کا آغاز کیا تو مذہب کے ٹھیکیدار بھٹو کے ازلی دشمن بن گئے۔ جب بھٹو نے قرار دیا کہ غریب کا مقدر صرف ٹھوکریں کھا ہی نہیں بلکہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور اب راج کرے گی خلقِ خدا تو بڑے بڑے اجارہ دار بھٹو کے مخالف ہو گئے۔

بھٹو نے لوگوں کو مذہب اورذات پات سے اوپر ہو کر دیکھا اور لوکائی کو ایک رب کی برابری کا پیغام دیا اور بتایا کہ تمہاری ضرورتیں سانجھی ہیں اور مفادات مشترک ہیں، تم ایک ہی ہو اور تم سب کی بنیاد ی ضرورتیں ایک سی ہیں۔ بھٹو نے بلھے شاہؒ کے دربار پر حاضری دے کر بلھے کے پیغام کو اپنا منشور بنا لیا جوآواز ِخلق بن گیا کہ’’ مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی، کپڑا اور مکان‘‘۔ مساوات بھٹو کے منشور کی روح ٹھہرا اور مواخات کے ذریعے امیر و غریب میں دولت کی مساوی تقسیم کا نظام بھٹو کا نظام معیشت قرار پایا۔

عوام کا بھٹو قائد ِعوام بن کر عوام کی خدمت میں مصروف ہوگیا۔ مساوات ، آزادی اور محروم طبقات کے حقوق کی جنگ میں عوام بھٹو کے سنگ تھے۔ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ نہایت قلیل عرصہ میں عوام نے قائد عوام کی قیادت میں متفقہ آئین، سماجی و سیاسی انقلاب، معاشی مساوات، آزاد خارجہ پالیسی اور ایٹمی پروگرام کے ذریعے پاکستان کو اُس کے قیام کے اصولوں کے عین مطابق ڈھال دیا۔ بکھرا اور ٹوٹا پاکستان صرف چند سال میں خوشحال، ترقی یافتہ اور پرامن پاکستان بن چکا تھا اورعوام کی خود مختاری کا سفر تیزی سے جاری تھا۔ عالمی استعمار اور اُن کے غلاموں کیلئے یہ ناقابل برداشت تھا کہ بھٹو صاحب نے چند سال میں سیاسی، سماجی، معاشی اور عسکری ڈھانچہ نہ صرف تشکیل دیا بلکہ یہ مضبوط ہونے لگا حکومت بنانے اور ختم کرنے کا اختیار عوام کو منتقل ہو گیا مذہبی و لسانی تعصبات ختم ہونے لگے۔ سندھ کی دھرتی کا سپوت پنجاب کا سب سے مقبول قائد تھا اور ہر قومیت اُسے اپنا رہنما مانتی تھی۔ فرقہ واریت کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ عوام ریاست کی ترجیح قرار پائے اور لاکھوں لوگوں کو اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک روزگار میسر آیا۔آخر کار وہ وقت بھی آن پہنچا کہ ان ’’جرائم‘‘ پر پاکستان کا پہلا منتخب وزیر اعظم و صدر ،پاکستان کے پہلے متفقہ آئین کا خالق ،پہلی اسلامی ریاست کے ایٹمی پروگرام کا بانی قائد ِعوام ذوالفقار علی بھٹو بھی کٹہرے میں کھڑا تھا۔

’’ لارڈ شپس! عوام میری روح میراعزم اور میری قوت ارادی ہیں اور ذلت کے مقابلے میں تو میں پھانسی کو ترجیح دوں گا اور پھندے کوقبول کروں گا۔آج جب میں اس تنگ و تاریخ کوٹھری کی چار دیواری میں گھرا بیٹھا ہوں تو ذہن پر اس زندگی کا پورا عکس پھیلا ہوا ہے جو میں نے اپنے عوام کی خدمت میں گزاری۔ اس قید تنہائی میں میں نے اپنے تمام ماضی کو دوبارہ گزار لیا ہے۔کسی فردِ واحد کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ مجھے پاکستان کی سیاسی زندگی سے جدا کر سکے۔ سیاست سرکاری مشینری کی غیر قانونی ملکیت نہیں ہے۔ سیاست ایک پھلتے پھولتے معاشرے کو ایک بنجر زمین میں تبدیل کر دینے کا نام نہیں ہے۔ سیاست زندگی کی روح ہے، یہ میرا اپنے عوام کے ساتھ ابدی عشق ہے صرف عوام ہی اس ابدی بندھن کو توڑ سکتے ہیں۔ میرے نزدیک سیاست اور عوام ایک ہی لفظ کے دو معنی ہیں،یہ ایک مکمل سچ ہے۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ میرے عوام سے میرا روحانی اور لازوال رشتہ توڑ سکیں۔ یہ میرے ورثے کا اٹوٹ حصہ ہے۔ میں اس وطن کی گردوغبار اور خوشبوئوں کا حصہ ہوں۔ یہاں کے عوام کے آنسو میرے آنسو ہیں اور ان کے چہروں کی خوبصورت مسکراہٹ میری اپنی مسکراہٹ ہے۔ ایک دریا اپنا راستہ تبدیل کر سکتا ہے۔ میں مگراپنا راستہ تبدیل نہیں کر سکتا۔ میری تقدیر عوام کے ہاتھوں میں ہے صرف عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ میرے ساتھ اپنی محبتوں اور وابستگیوں کی پرکھ کریں۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ آیا میرا نام برصغیر کے مجرموں کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے یا بہادر رہنمائوں میں۔ پاکستان کے عوام میرے نام اور میرے وقار کے بہترین محافظ ہیں اور میرا نام تاریخ کے دل میں دھڑکتا رہے گا۔ میرا لہو نوجوان نسل کے چہروں پر سرخی بن کر اُبھرے گا۔ میری قبر سے فتح و نصرت کے پھول اُگیں گے۔ خلق خدا میرے بارے میں گیت گائے گی اور میں اس کی کہانیوں کا جاوداں حصہ بن جائوں گا‘‘۔نصف صدی سے عوام بھٹو کے گیت گا رہے ہیں اب جاتے جاتے ہر حکمران بھی یہ نعرہ لگا کر جاتا ہے:

سد ا رہے آباد بھٹو بھٹو زندہ باد

تازہ ترین