• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’’جنگ‘‘ کے صفحات پر بکھری سائنس اور ٹیکنالوجی کی معلومات

روزنامہ جنگ نے 1978 ء میں سائنس کو عام کیجئے کے نام سے سائنس و ٹیکنالوجی کا صفحہ شروع کیا ،جس میں سائنسدانوں کی نت نئی تحقیقات اور دریافتوں کے بارے میں شائع کیا جاتا تھا۔ خلا میں دریافت ہونے والےنئے سیارے ،متعارف ہونے والی جدید ٹیکنالوجی کے بارے میں قارئین کو بتایا جاتا تھا۔ اس کو شروع کرنے کا مقصد لوگوں میں سائنس وٹیکنالوجی کے حوالے شعور بیدار کرنا اور نوجوانوں کو اس شعبے کی طرف راغب کرنا تھا۔ ،کیوں کہ ہم یہ بات بہت اچھے سے جانتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی ترقی سائنس وٹیکنالوجی کے بغیر ادھوری ہے۔ اس صفحے میں چند مشہور و معروف سائنس دانوں کےانٹرویوز بھی شائع کیے گیے ۔ یہ انٹر ویوز اُس وقت کے صفحہ انچارج ،رضی الدین خان نے کیے تھے، جن کے اقتباس ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں ۔

سائنس داں لیبارٹری میں تحقیق کر کے راہ دکھاتے ہیں 

1979 ء میں معروف سائنس داں ،سلیم الزماں صدیقی سے لیے گئے انٹرویو سے اقتباس

سائنسی تحقیق کو نظر انداز کرنے سے ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔ سائنس کا معاملہ ایسا ہے کہ بنیادی تحقیق اور اخلاقی تحقیق دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن جب تک کوئی مال اٹھانے والا نہ ہو تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ یعنی سائنس داں تو لیبارٹری میں تحقیق کرکے راہ دکھاتے ہیں لیکن خود تو تجارتی پیمانے پر تیار نہیں کرسکتے۔ اس کی دو تین مثالیں ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران مجھے حشرات کش پرکام کرنا پڑا تھا۔ 

برما کے محاذ پر مچھروں کو بھگانے کے لیےایک محلول پائرپنجم کا سوپ سلوشن استعمال ہوتا تھا۔ لیکن اس کی اثرپذیری صرف چھتیس گھنٹے تک رہتی تھی۔ آل انڈیا، ملیر یا انسٹی ٹیوٹ کی درخواست پر میں نے ایسے حشرات الارض کش کی تیاری پر کام شروع کیا، جس کا اثرسات دن تک رہے۔ 

چنانچہ میں نے ایسا حشرات کش تیار کیا ،جس کی عملیت کی (Activity)آٹھ دس مہینے تک رہتی تھی بلکہ پلوٹینم کی 0.1فی صد مقدار جتنی اثرپذیری اس نئے مرکب کی 0.02 مقدار سے حاصل ہو جاتی تھی۔ اس طرح گراں پاکر تھیم مرکب کی بچت ہوگئی۔ پاکستان آنے کے بعد میں نے حشرات کش پر آٹھ دس سال کا م کرنے کے بعد آئل کمپنی سے حاصل ہونے والے پٹرول کی کلورینیشن (کلورین داخل کرنے سے ایک مرکب پیٹکولین (Petkolin)کے نام سے تیار کیا۔ 

اس پر تجربہ گار کے علاوہ کھیتوں اور فصلوں پر تجربات ہوئے اس سے دودھ دینے والے یعنی ممالیوں پر سمی (Toxic) اثرات نہیں ہوتے جیسے کہ اینڈرین وغیرہ سے ہوتے ہیں۔ گویا اس کے مقابلے میں ہزار گنا کم ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس کے ایک ایکڑ، بیس ایکڑ اور پھر سو ایکڑ رقبے تک تجربات کئے گئے اور یہ سب کچھ ہونے کے بعد یہ پلاٹ یونہی پڑا ہوا ہے اور بڑے پیمانے پر فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم ہرسال کوئی بیس یا چالیس کروڑ روپے کے حشرات کش مرکبات منگواتے ہیں ان سے مفادات وابستہ ہیں اس لئے اس کام کو آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا۔ 

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں مثلاً مرتکز پروٹین شارک لیور آئل وغیرہ اگر آپ پوری فہرست پی سی ایس کی دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ تمام چیزیں چھوٹے پیمانے پرآزما کے دیکھی گئیں لیکن انہیں بڑے پیمانے پر نہیں کیاگیا جب تک آپ بڑے پیمانے پر تیار کرکے عالمی مارکیٹ کو اپنے قبضے میں نہ کریں تو موجود (impact) آپ چاہتے ہیں وہ حاصل نہیں کرسکتے یہ معاملہ کوئی ایسا تو ہے نہیں کہ بٹن دبایا اور ایک طرف سے پیسہ ڈال کر دوسری طرف سے نکال لیا۔ اس میں ہر ہر مرحلے پر بڑی محنت صرف ہوتی ہے اور صنعت کاروں کا بھی اس سے بڑا گہرا تعلق ہونا چاہئے۔

سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم نہ دے کر ہم اپنے بچوں کو اپاہج بنا رہے ہیں 

1980 ء میں نامور سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام سے لیے گئے انٹرویو سے اقتباس 

ہمارے ہر بچے کو سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم نہ دینا اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کا کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اپنے بچوں کو اپاہج اور مفلوج بنا رہے ہیں جو کہ اس ماڈرن دنیا کے قابل نہیں ہے۔ ہم نے یہ فیصلہ کررکھا ہے کہ آرٹس اور سائنس میں شروع سے تفریق رکھی جائے حالانکہ یہ ایسی بے ہودگی ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں نہیں آتی آپ چین، جاپان یا کوریا کو لے لیجئے وہاں ہر بچے کو سائنس پڑھنی پڑتی ہے وہاں کا جو نصاب ہے اس میں ریاضی، طبیعات اور کیمیا لازمی طور پر شامل ہوتے ہیں خاص طور سے چین میں ایک سترہ سال کی عمر کے طالب علم کے لئے نصاب میں بارہ مضامین ہوتے ہیں ان میں طبیعات، کیمیا، حیاتیات ، ریاضی ٹیکنالوجی کا ایک مضمون جس میں زبان اور ملکی زبانیں شامل ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں تو بس تین چار مضامین لے لئے جاتے ہیں اور وہ بھی بالکل آسان مضمون ہوتے ہیں اور اس پر یہ سمجھتے ہیں کہ بچے پر بڑا ظلم کر دیا ہے۔ 

ٹیکنالوجی کے لحاظ سے میں نے اٹلی میں دیکھا کہ ایک معمولی آدمی چاہے وہ ڈرائیور یا مزدور ہی کیوں نہ ہو روزمرہ زندگی کے بہت سے کام جانتا ہے اور خود کر لیتا ہے وہ لوگ دھات سازی، پلمبنگ اور چھوٹی موٹی مرمت کے کام خود کرلیتے ہیں ان میں سے ہر ایک قابل ہوتا ہے کہ گھریلو استعمال کی بجلی کی اشیاء کی مرمت کرسکے یہ اس لئے ہوتا ہے کہ وہاں ہر بچے کے لئے سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم لازمی ہے۔ انہیں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ فلاں کام خود نہیں کرسکیں گے۔ 

اس لحاظ سے ہماری تعلیم بہت ہی ناکارہ ہے ، جس کے نتیجے میں ہم اپنے بچوں کو اپاہج بنارہے ہیں جب تک آپ آرٹس والے کو سائنس اور سائنس والے کوآرٹس نہیں پڑھائیں گے یہی حال رہے گا۔ سائنس دانوں پرسب سے بڑا الزام یہی ہے کہ انہیں سیکھنا نہیں آتا اور یہ اس لئے ہے کہ ہماری تعلیم یک طرفہ ہوتی ہے۔ سائنسی ترقی کے لئے ترجیحات کے تعین میں جنگ کا سائنسی صفحہ زور دے سکتا ہے اس معاملہ کو قومی مسائل کے طور پر سائنٹیفک انداز سے دیکھنا چاہئے۔ دوسری سائنس ترقیوں کی بات کیسے کی جا سکے گی دوسرے نمبر پر توانائی اور معدنیاتی وسائل کا استعمال آتا ہے اور اس مقصد کے لیے ملک میں تربیت یافتہ ماہرین کی بڑی تعداد ہونا ضرور ی ہے۔ 

آپ چین کی مثال ہی لے لیجئے اکتوبر 1949ء کے انقلاب سے قبل وہاں معدنیاتی شعبے میں تعلق رکھنے والے ماہرین چند ہزار سے زیادہ نہیں تھے اور آج ان کی تعداد تقریباً ایک ملین (دس لاکھ) ہے۔ یہ تمام ماہرین انہو ں نے باہر سے درآمد نہیں کئے بلکہ خود سخت محنت کی ہے کتابیں پڑھی ہیں اور ترقی کی ہے۔ آج چین فائبرٹیکنالوجی میں بہت آگے ہیں۔ وہ تمام اچھی اچھی چیزیں خود بناتے ہیں لیکن یہ سب کچھ خواہش اور ارادے سے ہوتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ منصوبہ بندی ہو ،ارادہ ہو اور یہ خواہش ہو کہ ہم ہر چیز اپنے ملک میں خود تیار کریں۔

پاکستان کو شمسی توانائی کے فروغ کے لئے کام کرنا پڑے گا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کے وسیع سوال کا وقت ابھی نہیں آیا ہے اس سے ابھی اتنا کم کام ہو رہا ہے کہ جس وقت اس ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوگی ہمیں مہنگے ترین داموں سے خریدنا پڑے گا۔ ہم بہرحال جوہری توانائی سے صرف نظر نہیں کرسکتے شمسی خانے (سولر سیل) خاصے مہنگے ہوتے ہیں انہیں سستا اور قابل عمل بنانے کے لئے اچھی خاصی معیاری تحقیق درکار ہے یعنی محض شمسی توانائی کی خواہش کافی نہیں،اس پر کام سنجیدگی سے کام کرنا بھی ضروری ہے ۔

سائنس وٹیکنالوجی پر توجہ دینا پاکستان کے لیے انتہائی ضروری ہے 

1980 ء میں جینیاتی انجینئرنگ کے ماہر سائنس دان

ڈاکٹر احمد اقبال بخاری سے لیے گئے انٹرویو سے اقتباس

نظری طور پر (Theoritical) تو ہماری اور آپ کی زندگی میں ایسا ہونا ناممکن ہے۔ البتہ آئندہ چند صدیوں میں کیا ہوگا۔ اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ پچھلے چند سالوں میں سائنس نے دنیا کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے، جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا گویا ہر چیز ممکن ہے۔ البتہ کسی جانور کو مکمل طور پر بدل دینا اس وقت تقریباً ناممکن ہےلیکن آنے والے وقتوں میں یہ کام کرنا بھی ممکن ہو جائے گا۔ 

آپ کچھ خصوصیات میں ردّوبدل ضرور کرسکتے ہیں۔ فرض کریں آپ ایسا کر بھی سکتے ہوں تو یہ ایک دوسرا مسئلہ ہے،جس کا تعلق اخلاقیات اور عمرانیات سے ہے اور انسانی معاشرہ اس کی اجازت نہیں دے سکے گا۔ اس تحقیق کو بری طرح سے دیکھا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ قدرت کا اپنا جو توازن ہے اسے نہیں بدلنا چاہئے آپ کا جینیاتی انجینئرنگ میں جو تحقیق ہو رہی ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کا راز معلوم کیا جائے اور ایسی تیکنیک کو ترقی دی جائے، جس سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچے۔ ایسا بہت آسانی سے ہوسکتا ہے بس ایک مرتبہ ہمارے ملک اور حکومت کو یہ احساس ہو جائے کہ سائنس وٹیکنالوجی پر توجہ دینا ہمارے ملک کے لیے کتنا ضروری ہے۔

پاکستانیوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ اگر ہم اپنی افرادی طاقت کا آمد بنالیں تو بہت زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سائنس دانوں کا مقام بلند کرنے کے لیے بیوروکریسی کی رکاوٹیں دورکی جائیں اور انہیں آزاد ماحول فراہم کیا جائے۔ سائنس پر ایک فی صد خرچ ایک اچھا قدم ہے اگر اسی پر صحیح طریقے سے عمل کرلیاجائے تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ شروع میں تو محسوس ہوگا کہ قوم کے پیسے ضائع ہو رہے ہیں لیکن مستقبل میں اس کے فائدے بے شمار ہوں گے۔

پیسہ خرچ کرکے آپ پانچ دس سال میں عالمی شہرت یافتہ سائنسدان پیدا کرسکتے ہیں اور اس کا فائدہ بہت زیادہ ہو گا ۔ اگر تمام یونیورسٹیوں پر کروڑوں روپے کے خرچ کے نتیجے میں آئن اسٹائن جیسا صرف ایک سائنسدان ہی پیدا ہو جائے تو اس کا بے حساب فائدہ ہو سکتاہے۔ یہ بالکل بھی خسارے کا سودا نہیں ہو گا۔ ایک سا ئنس دان نے دنیا کوکہا ں سے کہاں پہنچادیا۔

جب تک سائنس کی تعلیم قومی زبان میں نہیں دی جائے گی ،اُس وقت تک قوم میں ہنر مند افراد تیار نہیں ہوں گے

1978 ءمیں ماہر تعلیم اورسائنس دان ،میجر آفتاب حسن سے لیے گئےانٹرویو سے اقتباس

سائنس دان کچھ نہیں کررہے یہ احساس سراسر غلط ہے۔ بہت سے لوگ اس ملک کا مقابلہ ایسے ملکوں سے کرتے ہیں جن کی معیشت مستحکم تھی اور جہاں سائنسی و صنعتی ادارے ایک عرصے سے قائم تھے اورکام کر رہے تھے۔ ہمارے یہاں 1947ء میں یہ حالت تھی کہ پنجاب اور سندھ جیسے صوبوں میں بھی کسی تحقیقی ادارے کا وجود نہیں تھا لیکن اس تیس سال کے عرصے میں متعدد یونیورسٹیو ں اور تحقیقی اداروں کا قیام عمل میں آیا ہے بیرونی ملکوں میں ہمارے سیکڑوں سائنس دان کام کر رہے ہیں۔ 

بعض ملکوں کے اسپتالوں کا پورا نظام پاکستانی ماہرین کے ہاتھ میں ہے ہمارے ایک ماہر آرکیٹیکٹ (ماہر تعمیرات) ایسے بھی ہیں جن کی ماہرانہ خدمات کسی عمارت کی بیس منزلیں مکمل ہوجانے کے بعد ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم نے جتنی ترقی کی ہے وہ تشفی بخش نہیں کہی جا سکتی اور اس لئے نہیں کہی جاسکتی کہ آج کل کی سائنس محض کا غذی نہیں ہے کہ صرف پینسل قلم اور چند آلات سے کام چل جائے۔ بلکہ اب بڑے پیمانے پر تجربہ گاہوں قیمتی آلات اور ضروری مرکبات و سامان کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

اگر سائنس پر قبضہ کرنا ہے تو اس کے لئے سرمایہ بھی خرچ کرنا ہوگا ترقی یافتہ ملکوں میں سائنسی تحقیق پر آٹھ نو فی صد رقم بلکہ بعض ترقی پذیر ممالک تک میں دوسے تین فی صد تک صرف ہوتی ہے۔ لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں جہاں تعیشات اور فضولیات پرکروڑوں روپے پانی کی طرح خرچ ہو جاتے ہیں۔ آج بھی سائنسی تحقیق و تفتیش پر صرف 0.24فی صد خرچ ہو رہا ہے۔ ہر سمجھدار ملک سائنس دانوں کو قومی سرمایہ سمجھتا ہے اور اس کی تلاش طالب علم بچپن سے کرتا ہے۔ 

ہر مہذب قوم اپنے اوپر لازم بنالیتی ہے کہ جتنے لڑکے تعلیم پا رہے ہوتے ہیں خصوصاً سائنس کے طالب علموں پر کڑی نظررکھی جائے ایسے لڑکوںکا انتخاب کیا جاتا ہے جو سائنس دان بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کی ذہنی پرورش کی جاتی ہے۔ ان کو فکر معاش سے آزاد کیا جاتا ہے اور والدین کی ذمہ داریوں کو ہلکا کیا جاتا ہے۔ چناںچہ اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آئندہ کے لئے اہل اور باصلاحیت افراد کی تیاری کا ایک مسلسل عمل جاری رہتا ہے ہمارے یہا ں جو تلاش اور تحقیق ہوتی ہے اور جو ہنر مناظر آجاتے ہیں ان کو نہ کوئی جانتا ہے اور نہ پہچانتا ہے۔ 

اس کی مثالیں ایسی دی جا سکتی ہیں کہ ہمارے موجدوں نے کئی چیزیں بنائیں لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ نے ان میں قطعی دلچسپی نہیں لی کہ سائنس کیا ہے، سائنسی ترقی کیوں ضروری ہے اور اس کے اثرات خود اس ملک کے لئے کیا ہونے والے ہیں خود اپنی مثال لے لیجئے ہمارے یہاں سائنس کی بڑی سے بڑی کانفرنس کواخباروں میں وہ اہمیت حاصل نہیں کرتی جو شہر کی کسی غیر اہم اور دوسری باتوں کو مل جاتی ہے دیکھا یہ گیا ہے کہ سائنس کانفرنسوں اور مذاکروں کی خبریں اور ان کے نتائج کوچھپوانے کے لئے ایسی خوشامد کرنا پڑتی ہے کہ گویا یہ ان کے ذاتی فائدے کے لئے ہے۔ ہماری زندگی کا ہر شعبہ سائنس کی اہمیت اور اس کے کارندوں کی قدر و قیمت سے ناواقف ہے۔ 

ہمارے یہاں کام کسی پروگرام کے تحت نہیں ہو رہے ہیں بلکہ ابھی اس کا تعین ہی نہیں ہوا کہ ہماری قومی ضرورت کیا ہے سب سے پہلے تو سیم و تھور کے مسئلے سے ذرا جانیے، اس لئے کہ اس خطرے کو روکے بغیر تمام کامیابیوں پر پانی پھر جائے گا ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی کارخانہ ایسا نہیں ہے، جس کا اپنا کوئی علیحدہ تجربہ خانہ نہ ہوا اور جس میں بڑے بڑے سائنس دان کام نہ کر رہے ہوں ہمارے ملک میں یہ بات سرے سے نظرانداز کرد ی جاتی ہے ہمارے بڑے سے بڑے کارخانے میں مصنوعات کا معیار جانچنے کے لئے کوئی پانچ روپے کی اجرت والا سائنسدان بھی نہیں ہوتا حکومت کی طرف سے یہ لازم کردینا چاہئے کہ اس کارخانے میں کوئی تجربہ گاہ ہے یا نہیں اور وہاں کتنے سائنسدان کام کر رہے ہیں جن چھوٹے کارخانوں میں یہ سہولت نہ ہو وہاں تحقیقی اداروں سے رجوع کیاجا سکتا ہے۔

سائنسی پالیسی میں در پیش مسائل کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ جو طویل میعاد کے ہیں اور دوسرے جو فوری طور پر عمل کرنے ضروری ہیں یہ تمام باتیں اپنی جگہ لیکن ہمارے نزدیک سب سے اہم ترین اور بنیادی مسئلہ قومی زبان میں سائنس کی تعلیم و فروغ ہے ہماری ساری ترقیاں اورکاوشیں بے کار ثابت ہوں گی جب تک تعلیم قومی زبان میں نہ دی جائے اور قوم میں ہنر مند افراد تیار نہ ہوتے ہوں۔

ہماری حکومت سائنس اورٹیکنالوجی کے شعبوں کو ترقی ہی نہیں دیتی

2016ء میں کیمیائی ماہر،سائنس دان ڈاکٹر عطاالرحمٰن سے لیے گئے انٹرویو سے اقتباس

آج کی دنیا علم کی دنیا ہے اور وہی ممالک آگے بڑھ رہے ہیں جنہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کی اقتصادی قوت ان کی اصل طاقت ہے ۔اسی لئے وہ اپنے نوجوان کی تخلیقی صلاحیت کو تعلیم اور تحقیق کے ذریعے اُجاگر کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جو دریافتیں ہوتی ہیں انہیں کمرشلائز کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ایسا ملک جس کی آبادی کراچی کے مقابلے میں ایک چوتھائی ہے،یعنی تقریباً 50 لاکھ ، اور وہاں کوئی قدرتی وسائل نہیں ہیں۔ اس کے باوجود گزشتہ برس اس کی بر آمدات 518ارب ڈالرز کے مساوی تھیں۔ دوسری جانب پاکستان کی بر آمدات 23 ارب ڈالرز تھیں۔ 

آج کل چھوٹے چھوٹے ممالک تعلیم اور تحقیق پر بہت پیسہ خرچ کررہے ہیں اور اپنی تحقیق کو ترقی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مسئلہ وسائل کا نہیں ہے بلکہ طرزِ فکر کا ہے، کیوں کہ ترقی پذیر ممالک کے سربراہ کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ علم پر مبنی معیشت کیا ہوتی ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ تو یہ ہے کہ ہماری حکومت سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کو ترقی ہی نہیں دیتی۔ یہاں جاگیردارانہ نظام قائم ہے،جس نے پورے ملک کواپنے جال میں جکڑ رکھا ہے۔ اس نظام میں تعلیم اور تحقیق کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ سب کچھ ہونے کے باوجود ہم ترقی نہیں کررہے بلکہ مزید پیچھے جارہے ہیں۔ 

اسی وجہ سے پاکستان اور دیگر ممالک کے درمیان موجود فرق روز بہ روز بڑھتا جارہا ہے۔ آرٹی فیشل انٹیلی جینس بہت تیزی سے ترقی کررہی ہے اور یہ پوری انسانیت کے لیے بہت بڑا خطرہ بھی ہے۔ آج سےتیس سال پہلے آپ Electronic check basic خرید سکتے تھے۔ وہ چھوٹا سا آلہ بڑے بڑے check basic کو ہرا دیتا تھا، مگر آج اتنی زیادہ سائنسی ترقی ہوگئی ہے کہ آئندہ جنگیں روبوٹ کےذریعے لڑی جائیں گی۔

یہ ٹیکنالوجیز اب چھوٹے چھوٹےممالک کے پاس بھی پہنچنا شروع ہوگئی ہیں۔ اس سے پوری انسانیت کی بقا کو خطرہ ہے۔ کیوں کہ اس چیز میں ہم سماجی طور پر اتنے زیادہ شامل نہیں ہوئے ہیں ،جتنی تیزی سے ترقی ہورہی ہے۔ یہ دو دھاری تلوار ہے۔ یقیناً اس کے فوائد اور نقصانات دونوں ہی ہیں۔ آج کل ہر کمپنی روبوٹک اشیا بنارہی ہے۔ اس کے ساتھ تھری ڈی پرنٹنگ کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے ۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید