• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

Yankees go back۔’ امریکیو نکل جائو‘

کچھ دنوں سے میرے ذہن کی وادیوں میں یہ نعرے پھر سے گونج رہے ہیں۔ میں پھر جوان ہوگیا ہوں۔ میرا پھر امریکی پرچم جلانے کو جی چاہ رہا ہے۔ سرد جنگ کا وہ طویل دلچسپ دَور یاد آرہا ہے۔ ایک طرف ’ڈاکٹر ژواگو‘ ناول پڑھا جارہا ہے دوسری طرف ’ماں‘۔ کوئی یو ایس آئی ایس لائبریری میں جارہا ہے۔ کوئی فرینڈ شپ ہائوس کا رُخ کررہا ہے۔ کچھ لوگوں کو ’سرخا‘ کہا جارہا ہے۔ کچھ ’امریکی ایجنٹ‘ قرار دیے جارہے ہیں۔آج کل پاکستان بھی دو بلاکوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک مراسلے کی حد تک امریکہ مخالف ہے۔ حالانکہ پرس میں گرین کارڈ بھی ہے۔ ایک مراسلے کی حد تک امریکہ نواز ہے۔ اس کے پاس بھی گرین کارڈ ہے۔ امریکی شہریت بھی ہے۔

کیا سرد جنگ کا زمانہ واپس آگیا ہے۔ کیا یہ حالیہ تقسیم بھی کسی نظریاتی جدو جہد کا مظہر ہے۔ یا محض حادثاتی۔ یہ مراسلہ کیا ہے۔ کیا نہیں ہے۔ کیا یہ واقعی اس شدت کی دھمکی ہے کہ اس کی بنا پر تحریکِ عدم اعتماد کی پکی ہوئی فصل کاٹنے کی بجائے وہیں چھوڑ کر کسانوں کو شہر میں جمع ہونے کی دعوت دی جائے۔ اور پھر اس کے نتیجے میں قومی اسمبلی ہی توڑ دی جائے۔ اب یہ سب کچھ تو سپریم کورٹ میں طے ہونا ہے کیا ہمارے اٹارنی جنرل خالد جان اور پی پی پی، پی ایم ایل(ن) کے وکلا امریکی میکارتھی ازم اور کمیونزم کے تیزی سے پھیلائو اور پھر خاتمے کی تاریخ سے آگاہ ہیں۔ اٹارنی جنرل کے والد محترم جناب این ڈی خان کی امریکہ مخالف جدو جہد سے پاکستان کے بیشتر ہم وطن واقف ہیں۔ مگر اٹارنی جنرل اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جب امریکہ دنیا میں جمہوریت کا علمبرداربن کر آیا۔ پہلے وہ کمیونزم کے خاتمے کے لیے حکومتوں کے تختے الٹتا تھا۔ اب وہ یہی مقدس مشن جمہوریت کی سر بلندی کے لیے انجام دیتا ہے۔ دنیا کے دور دراز ملکوں میں حکمرانوں کے متبادل تلاش کرنا اب بھی وہ واحد سپر طاقت کے طور پر اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ اس کے لیے وہ کہیں بھی پہلے کروز میزائل داغ دیا کرتا تھا اور اب جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ڈرون کے ذریعے اپنے مخالفین کو تہ تیغ کردیتا ہے۔ امریکہ سپر طاقت ایسے ہی نہیں بن گیا۔ اس کے پس منظر میں نظریات کی فصلیں ہیں جو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اگائی جاتی ہیں۔ پکتی ہیں۔ پھر کاٹی جاتی ہیں۔ پینٹاگون میں ان نظریات کو وردی پہنائی جاتی ہے۔ اسلحے سے لیس کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی روایت یہ رہی ہے کہ وہ تیسری دنیا کے ملکوں میں فوج کے سربراہوں سے رابطے رکھتا ہے۔ اس کے لیے فوجی افسروں کی باقاعدہ تربیت کی جاتی ہے۔ پہلے غریب ملکوں کے فوجی سینڈھرسٹ(برطانیہ) جاتے تھے۔ اب وہ پینٹاگون جاتے ہیں۔ یہ تربیت خفیہ نہیں بلکہ ایک نظم و ضبط کے تحت ہوتی ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ (اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) اور امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) باقاعدہ مشترکہ رپورٹیں کانگریس کو پیش کرتے ہیں۔ امریکہ کا ایک پروگرام آئی وی پی۔(انٹرنیشنل وزیٹرز پروگرام) سویلین کو امریکی طرز حکمرانی۔ امریکی تعلیمی نظام اور امریکی خاندانی نظام سے روشناس کرواتا ہے۔ اس میں دوسرے ملکوں کے طلبہ۔ ادیب۔ صحافی۔ تاجر۔ سرکاری افسر، پولیس آفیسر مدعو کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ہی بہت سے بعد میں اپنے ملکوں کے سربراہ بھی بنتے ہیں۔ ان میں اندرا گاندھی۔ واجپائی۔ ڈیسائی۔ انور سادات۔ حامد کرزئی ۔ ٹونی بلیئر بھی شامل رہے ہیں۔ ہر سال مختلف شعبوں کے 5ہزار غیر ملکی بین الاقوامی لیڈر شپ پروگرام میں شرکت کرتے ہیں۔ اب تک ایسے دولاکھ سے زیادہ غیر ملکی اپنے اپنے ملکوں میں اہم عہدوں پر موجود ہیں۔ 500 سے زیادہ حکومت یا مملکت کے موجودہ یا سابق سربراہ بھی ان میں شامل ہیں۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کے خفیہ واقعات پر 1947 سے 2000تک پھر اکیسویں صدی میں متبادل کی تلاش میں مشرف بے نظیر ملاقاتوں کی سرپرستی اور بہت سے حالیہ سیاستدانوں کی امریکی سرپرستی کے پروگراموں کی تفصیلات مختلف سابقہ امریکی صدور۔ وزرائے خارجہ اور سی آئی اے کے عہدیداروں کی خود نوشت سوانح عمریوں میں آچکی ہیں۔ 1971 میں امریکہ نے سقوط ڈھاکا میں بھی پر اسرار کردار ادا کیا۔ امریکی سفیر اور دوسرا عملہ کیا مراسلے بھیجتا رہا۔ پھر افغانستان کی طویل جنگوں میں امریکہ نے پاکستان کے سربراہوں اور مجاہدین سے کس طرح کام لیا۔ ہم اب تک اس امر پر فخر کرتے ہیں کہ ہم نے کمیونزم کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر طاقت بن گیا۔ پھر مشرقِ وسطیٰ میں عراق۔ لیبیا۔ تیونس۔ مصر۔ الجزائر میں انسانیت کی اعلیٰ اقدار کیسے پامال ہوئیں۔نائن الیون کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کیسے فرنٹ اسٹیٹ بن گیا اور ہمارے ساتھ کیا نہیں ہوا۔ کتابیں چھپ چکی ہیں۔ آپ نے میں نے تو پڑھی بھی ہیں۔ لیکن جو 22کروڑ کی قیادت کے دعویدار ہیں انہوں نے بھی ان کتابوں سے یا ان کے خلاصوں سے کوئی استفادہ کیا۔ ان سے کوئی سبق سیکھا

پیوٹن نے روس کو دوبارہ ایک سپر طاقت کا درجہ دینے کے لیے قیادت کے جن راستوں کو اپنایا ہے۔ اس سے امریکی لرز رہے ہیں۔ امریکی اقتدار کے ایوانوں میں ایک خوف ہے۔ پاکستان کو اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث ایشیا میں ہی نہیں دنیا میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ چین سے ہمارے 1949 سے گہرے تعلقات، مخلصانہ دوستی بھی امریکہ کو ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے۔ حالانکہ امریکہ اور چین کو قریب لانے میں پاکستان کا مرکزی کردار ہے۔ مگر امریکہ اپنی وارداتوں کے نشان مٹانے پر یقین رکھتا ہے۔ اس لیے وہ ایسی شخصیتوں کو جسمانی طور پر ختم کروادیتا ہے۔ چاہے اپنے سفیر بھی ہلاک کروانے پڑیں۔

میں تو اپنے امریکی دوروں میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگون میں یہ کہتا رہا ہوں۔ Visit America before it vitsits you۔ موجودہ بحران تو کسی طرح بھی ختم ہوجائے گا۔ مگر دوسرے نئے بحرانوں کو جنم دے کر ہی جائے گا۔ پاکستانیوں بالخصوص نئی نسل جسے میں Future Residents کہتا ہوں۔ انہیں ضرور امریکی مداخلت کی تاریخ سے واقف ہونا چاہئے۔ امریکی چالوں کو سمجھنا چاہئے یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے۔

تازہ ترین