سپریم کورٹ میں تحریکِ عدم اعتماد مسترد ہونے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت مکمل کر لی گئی اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ آج شام ساڑھے 7 بجے فیصلہ سنائیں گے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ میں حکومتی مؤقف کو بڑا دھچکا لگا، چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غلط قرار دے دیا۔
عدالتِ عظمیٰ میں اس وقت دلچسپ صورتِ حال پیدا ہو گئی جب اٹارنی جنرل ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا دفاع کرنے سے دست بردار ہو گئے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد مسترد ہونے پر از خود نوٹس کیس کا فیصلہ آج ہی سُنایا جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے دورانِ سماعت ریمارکس دیے کہ ایک بات تو ہمیں نظر آ رہی ہے کہ رولنگ غلط ہے، اب اگلا قدم کیا ہو گا؟ آج ہی کیس کا فیصلہ کریں گے، قومی مفاد اور عملی ممکنات دیکھ کر ہی آگے چلیں گے۔
تحریکِ عدم اعتماد مسترد ہونے پر لیے گئے از خود نوٹس کی آج مسلسل پانچویں سماعت ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بینچ میں شامل ہیں۔
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر آج پھر روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ میں آج 10 منٹ میں دلائل مکمل کر لوں گا۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کے روبرو کہا کہ ایک ڈکٹیٹر نے کہا تھا کہ آئین دس بارہ صفحوں کی کتاب ہے، اسے کسی بھی وقت پھاڑ سکتا ہوں۔
’’ایڈووکیٹ جنرل پنجاب تقریر نہ کریں‘‘
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے انہیں تنبیہ کی کہ تقریر نہ کریں، ہم پنجاب کے مسائل میں نہیں پڑنا چاہتے۔
جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ کل ٹی وی پر بھی دکھایا گیا کہ پنجاب اسمبلی میں خاردار تاریں لگا دی گئی ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جب اسمبلی کو تالے لگا دیے گئےہیں توممبرانِ اسمبلی کہاں جائیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ پنجاب کا معاملہ دیکھے گی، ہم صرف قومی اسمبلی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں، خود فریقین آپس میں بیٹھ کر معاملہ حل کریں۔
جسٹس مظہرعالم نے استفسار کیا کہ کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے؟
جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ پنجاب میں آپ لوگ یہ کیا کر رہے ہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائیوں کو الگ الگ استحقاق حاصل ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ کیا موجودہ کیس میں اسمبلی کارروائی کا اثر باہر نہیں ہوا؟
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے سوال کیا کہ کیا کوئی بھی غیر آئینی اقدام پارلیمنٹ میں ہوتا رہے اس کو تحفظ حاصل ہے؟ ہم آئین کی حفاظت کے لیے بیٹھے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ اگر پارلیمنٹ میں کوئی غیر آئینی حرکت ہو رہی ہے تو اس کا کوئی حل نہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ مسئلہ پارلیمنٹ کو حل کرنا ہے اور مسئلے کا حل عوام کے پاس جانا ہے، مجھے آپ کی تشویش کا اندازہ ہے مگر ہمیں وہی کرنا ہے جو آئین کہتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر پارلیمنٹرین کے ساتھ کچھ غیر آئینی ہو تو ان کے پاس اس کی کوئی داد رسی نہیں ہو سکتی؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہاؤس آف کامن میں ایک ممبر کو حلف لینے نہیں دیا گیا، عدالت نے قرار دیا کہ مداخلت نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ اگر یہ پارلیمنٹ کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہو تو پھر کیا کریں؟
بیرسٹر علی ظفر نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلافات ہوں تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کر سکتی ویسے ہی عدلیہ بھی مداخلت نہیں کر سکتی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل پارلیمنٹ کی چار دیواری کے اندر کا معاملہ ہے؟ کسی اقدام کے نتائج کا اثر پارلیمنٹ سے باہر ہو تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیرِ اعظم کا انتخاب یا تحریکِ عدم اعتماد پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم کا انتخاب پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کے لیے اس کے ہر آرٹیکل کو مدِ نظر رکھنا ہوتا ہے، اگر ججز میں تفریق ہو، وہ ایک دوسرے کو سن نہ رہے ہوں تو کیا پارلیمنٹ کچھ کر سکتی ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں، عدالت کو خود معاملہ نمٹانا ہے، پرائم منسٹر کا الیکشن اور تحریکِ عدم اعتماد کا معاملہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، قومی اسمبلی بنتی ہی اس لیے ہے، اس کو اپنا اسپیکر اور پرائم منسٹر منتخب کرنا ہے، وفاقی حکومت کی تشکیل اور اسمبلی توڑنے کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدم اعتماد پر اگر ووٹنگ ہو جاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیرِ اعظم کون ہو گا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیرِ اعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی، عدالت یہ کہے کہ اب معاملہ پاکستان کے عوام پر چھوڑا جائے، عدالت کو قرار دینا چاہیے کہ غیر قانونی حرکت ہوئی بھی ہے تو فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمان کی ذمے داری ہے کہ قانون سازی کرے، اگر پارلیمان قانون سازی نہ کرے تو کیا ہو گا؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ قانون سازی نہ ہو تو پرانے قوانین ہی برقرار رہیں گے، جمہوریت اور الیکشن کو الگ نہیں کیا جا سکتا، ووٹرز سب سے زیادہ بااختیار ہیں، جونیجو حکومت کا خاتمہ عدالت نے آئین سے منافی قرار دیا تھا، جونیجو کیس میں عدالت نے کہا کہ معاملہ الیکشن میں جا رہا ہے اس لیے فیصلہ عوام ہی کریں گے۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کر کے الیکشن کا اعلان کر دیا گیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مانتا ہوں کہ کوئی آئینی بحران نہیں ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اسپیکر رولنگ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہے، اگر کوئی بھی ناکام ہو رہا ہو تو ایسے رولنگ لا کر نئے الیکشن کرا لے؟ انتخابات پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، انتخابات کی کال دے کر 90 دن کے لیے ملک کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے، یہ قومی مفاد کا معاملہ ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جہاں تک صدر کی بات ہے وہ وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرتے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پی ٹی آئی اب بھی سب سے زیادہ اکثریت رکھنے والی جماعت ہے، مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیا جائے؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کیس کے سیاسی محرکات میں نہیں جانا چاہتا، عدالت کو سیاسی بحث میں نہیں پڑنا چاہیے، بس آئین پر بات کرنی چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی صدرِ مملکت کے وکیل علی ظفر کے دلائل مکمل ہو گئے۔
’’جب وزیرِ اعظم کیخلاف عدم اعتماد ہو تو وہ اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتا‘‘
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ جب وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد ہو تو وہ اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتا، اسپیکر کی رولنگ نے اسمبلی توڑنے کا راستہ ہموار کیا، ہم نے کل بھی کہا تھا کہ اس اقدام کی وجہ اور نیت کو دیکھیں گے، اسپیکر کی رولنگ بظاہر آئین کے آرٹیکل 95 کے برخلاف ہے، دیکھنا ہے کہ یہ کوئی آئین کے مینڈیٹ کو شکست دینے کا گریٹر ڈیزائن تو نہیں، یہ سب صورتِ حال قومی مفاد میں نہیں ہے، یہ قومی مفاد کا معاملہ ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے وکیل امتیاز رشید صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت ماضی میں اسمبلی کارروائی میں مداخلت سے احتراز برتتی رہی ہے، چوہدری فضل الہٰی کیس میں اراکین کو ووٹ دینے سے روکا اور تشدد کیا گیا تھا، عدالت نے اس صورتِ حال میں بھی پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کی تھی، ایوان کی کارروائی میں مداخلت عدلیہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، عدالت پارلیمنٹ کو اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے، یہ ایوان کی اندرونی کارروائی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا کہ لیو گرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آ سکتی، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ 28 مارچ کو تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے رولنگ آ سکتی تھی، اس معاملے پر آپ کیا کہیں گے؟
وزیرِ اعظم کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ اسپیکر کو معلوم ہو کہ بیرونی فنڈنگ ہوئی یا ملکی سالمیت کو خطرہ ہے تو قانون سے ہٹ کر بھی ملک کو بچائے گا، اسپیکر نے اپنے حلف کے مطابق بہتر فیصلہ کیا، اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے، اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا، تحریکِ عدم اعتماد پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پارلیمنٹ کا استحقاق اور اس کی حدود کا تعین عدالت کو کرنا ہے۔
امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا، پارلیمنٹ کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں، سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا سپریم کورٹ ان پر عمل کرنے کی پابند نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی، عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے، کیا ڈپٹی اسپیکر کے پاس کوئی مواد دستیاب تھا جس کی بنیاد پر رولنگ دی؟ کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ نیک نیتی پر مبنی تھی؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالت فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنز کی پابند نہیں۔
وزیرِ اعظم کے وکیل نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا، قومی سلامتی کمیٹی کی کارروائی پر فردِ واحد اثر انداز نہیں ہو سکتا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے؟
وکیل امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر مجھے نہیں معلوم۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نہ کریں، آپ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے پاس ووٹنگ کے دن مواد موجود تھا جس پر رولنگ دی؟ وزیرِ اعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ ڈپٹی اسپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا، ووٹنگ کے دن رولنگ آئی۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے کہا کہ اگر بدنیت ہوتا تو اپنی ہی حکومت تحلیل نہ کرتا، انہوں نے کہا کہ معلوم ہے کہ نئے انتخابات پر اربوں روپے لگیں گے، وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ وہ ان کے خلاف عوام میں جا رہے ہیں جنہوں نے کئی سال حکومتیں کیں۔
اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں بیرسٹر علی ظفر کے دلائل اپناتا ہوں، عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا، سوال ہوا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریکِ عدم اعتماد میں نہیں لیا جا سکتا؟ پوائنٹ آف آرڈر تحریکِ عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جا سکتا ہے، اتنے دنوں سے آپ نے صبر کا مظاہرہ کیا ہے، ہر سوال کا جواب دوں گا۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے نعیم بخاری سےکہا کہ ہم بھی آپ کو سننے کے لیے بیتاب ہیں۔
وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ آرٹیکل 95 کی حد اور اس میں دیے گئے مقررہ وقت سے آگاہ ہوں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟
نعیم بخاری نے جواب دیا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریکِ عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جا سکتا ہے، اگر اسپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا زیرِ التواء تحریکِ عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈر پر مسترد ہو سکتی ہے؟
وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر اسپیکر تحریکِ عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، پوائنٹ آف آرڈر پر تحریک مسترد ہونے کا واقعہ کبھی ہوا نہیں، پوائنٹ آف آرڈر پر تحریک مسترد کرنے کا اسپیکر کو اختیار ضرور ہے، نئے انتخابات کا اعلان ہو چکا، اب معاملہ عوام کے پاس ہے، سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیے۔
عدالت نے کیس کی سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کر دیا۔
سپریم کورٹ میں وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو نعیم بخاری نے دوبارہ دلائل کا آغاز کیا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ کیا تحریک پیش ہونے کے لیے لیو گرانٹ کا کوئی آرڈر ہوتا ہے؟
نعیم بخاری نے جواب دیا کہ تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کی منظوری کا یہ مطلب نہیں کہ مسترد نہیں ہو سکتی، عدالتیں بھی درخواستیں سماعت کے لیے منظور کر نے کے بعدخارج کرتی ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ موشن اور تحریک کے لفظ میں کیا فرق ہے؟
نعیم بخاری نے جواب دیا کہ موشن اور تحریک کے الفاظ ایک ہی اصطلاح میں استعمال ہوتے ہیں، اسمبلی اجلاس شروع ہوتے ہی وزیرِ قانون فواد چوہدری نے پوائنٹ آف آرڈر مانگ لیا، تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ شروع ہو جاتی تو پوائنٹ آف آرڈر نہیں لیا جا سکتا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا ایجنڈے میں تحریکِ عدم اعتماد شامل ہونے کا مطلب ووٹنگ کے لیے پیش ہونا نہیں؟ تحریکِ عدم اعتماد کے علاوہ پارلیمان کی کسی بھی دوسری کارروائی کا طریقہ آئین میں درج نہیں، کیا اسمبلی رولز کا سہارا لے کر آئینی عمل کو روکا جا سکتا ہے؟ کیا اسپیکر آئینی عمل سے انحراف کر سکتا ہے؟ کیا آئینی عمل سے انحراف پر اسپیکر کے خلاف کوئی کارروائی ہو سکتی ہے؟
وکیل نعیم بخاری نے جواب دیا کہ آئین بہت سے معاملات پر خاموش ہے، جہاں آئین خاموش ہوتا ہے وہاں رولز بنائے جاتے ہیں۔
اس موقع پر نعیم بخاری نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے مندرجات عدالت کے سامنے پیش کر دیے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ پارلیمانی کمیٹی کے منٹس تو ہیں پر اس میں شرکاء کون کون تھے؟ پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی میں بریفنگ کس نے دی؟
وکیل نعیم بخاری نے جواب دیا کہ مشیرِ قومی سلامتی نے کمیٹی میں بریفنگ دی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ وزیرِ خارجہ پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں موجود تھے یا نہیں؟
نعیم بخاری نے جواب دیا کہ بظاہر لگ رہا ہے کہ وزیرِ خارجہ اجلاس میں موجود نہیں تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملک کا وزیرِ خارجہ ہے اور اہم اجلاس میں موجود نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اجلاس کے منٹس میں معید یوسف کا نام بھی نہیں۔
نعیم بخاری نے تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد اسمبلی میں وقفۂ سوالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام اپوزیشن اراکین نے کہا کہ کوئی سوال نہیں پوچھنے، صرف ووٹنگ کرائیں، اس شور شرابے میں ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں 11 لوگ شریک ہوئے تھے، پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دینے والوں کے نام میٹنگ کے منٹس میں شامل نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسپیکر نے رولنگ کے بعد ووٹنگ کیوں نہیں کرائی؟ رولنگ میں تحریکِ عدم اعتماد مسترد کرنا شاید اسپیکر کا اختیار نہیں تھا، یہ بھی ممکن تھا کہ کچھ ارکان اسپیکر کی رولنگ سے مطمئن ہوتے، کچھ نہ ہوتے، تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ آئین کا تقاضہ ہے۔
جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کو لکھا ہوا ملا کہ یہ پڑھ دو، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ کے آخر میں اسپیکر اسد قیصر کا نام بھی لیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا عوامی نمائندوں کی منشا کے خلاف رولنگ دینا پارلیمانی کارروائی سے باہر نہیں آتا؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وفاقی وزیر کا پوائنٹ آف آرڈر پر سوال ہو سکتا ہے، اسپیکر پوائنٹ آف آرڈر پر رولنگ بھی دے سکتا ہے، یہاں تک تو رولنگ کی بات درست ہے، رولنگ کا یہ حصہ کہ تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کرنا خلافِ آئین ہے، آئین کا حکم ہے کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا لازم ہے۔
وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ پارلیمان کے اندر جو بھی ہو اسے آئینی تحفظ حاصل ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں اٹھائے گئے نکات پارلیمانی کارروائی سے باہر نہیں تھے؟
نعیم بخاری نے جواب دیا کہ حتمی فیصلہ عدالت کا ہو گا، ہمارا مؤقف ہے کہ رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا، ایوان کے پاس رولنگ پاس کرنے کا اختیار تھا مگر انہوں نے نہیں کی۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو اسپیکر کے سامنے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ آپ کے مطابق اراکین کو ڈپٹی اسپیکر کے خلاف اسپیکر کے پاس جانا چاہیے تھا؟ آسمان اس وقت گرا جب اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو متاثرہ ارکان کے پاس داد رسی کا طریقہ کار کیا تھا؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا ارکان نئی تحریکِ عدم اعتماد لا سکتے تھے؟
وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ اسپیکر نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی توثیق کی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ رولز کے مطابق پوائنٹ آف آرڈر پر دوسری طرف کو بات کرنے کا موقع دیا جا سکتا ہے، آپشن کے باوجود دوسری طرف کو سننے کا موقع نہیں دیا گیا۔
وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت اسمبلی کی تحلیل کا جائزہ لے سکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ جس رولنگ کی بنیاد پر اسمبلی تحلیل ہوئی اسے چھوڑ کر باقی چیزوں کا جائزہ کیسے لیا جا سکتا ہے؟
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ رول 28 کے تحت اسپیکر ڈپٹی اسپیکر کے ساتھ کیا لفظ موجود ہے؟
وکیل نعیم بخاری نے جواب دیا کہ آرٹیکل 69 میں اسپیکر کے ساتھ ڈپٹی اسپیکر کا ذکر ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا ایک آفیسر آف کورٹ کے طور پر نہیں سمجھتے کہ آرٹیکل 95 مکمل ضابطہ نہیں؟ کیا آپ نہیں سمجھتے کے آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے؟
نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت کو فیصلہ کرنا ہے کہ کس حد تک پارلیمانی کارروائی میں مداخلت کرے گی۔
اس کے ساتھ ہی اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل مکمل ہو گئے۔
نعیم بخاری کے بعد اٹارنی جنرل بیرسٹر خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت کسی معاملے پر کوئی ڈیڈ لاک نہیں کیونکہ کیس زیرِ سماعت ہے، 28 مارچ کو تحریکِ عدم اعتماد پر لیو گرانٹ ہوئی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے سوال کیا کہ لیو کون گرانٹ کرتا ہے؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ ہاؤس لیو گرانٹ کرتا ہے، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری قیادت بھی شریک ہوئی، کھلی عدالت میں قومی سلامتی کمیٹی کے مندرجات پر دلائل نہیں دے سکتا، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں انتہائی حساس معاملات پر بریفنگ دی گئی، قومی سلامتی کمیٹی پر اِن کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے کے لیے تیار ہوں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب! کیا یہ آپ کا آخری کیس ہے؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ اگر آپ کی خواہش ہے تو مجھے منظور ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پوری بات تو سن لیں، ہم چاہتے ہیں کہ آپ اگلے کیس میں بھی دلائل دیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کسی کی ملکی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کر سکتی ہے، عدم اعتماد کے لیے 172 ارکان ہونا چاہئیں، 28 مارچ کو جب لیو گرانٹ ہوئی 161 ارکان ایوان میں موجود تھے، 28 مارچ کو ہی وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ختم ہو چکی تھی، آرٹیکل 17 کسی کو بھی کسی جماعت میں شمولیت اور انتخابات لڑنے کا حق دیتا ہے، وزیرِ اعظم ارکانِ اسمبلی کی طرح اسمبلی کی موجودگی تک عہدے پر رہتا ہے، وزیرِ اعظم عمران خان اسمبلی تحلیل کرنے والے آخری شخص ہوتے اگر یہ ناگزیر نہ ہو گیا ہوتا، وزیرِ اعظم سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں اس لیے اسمبلی توڑنے کا اختیار ان کے پاس ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ اسمبلی توڑنے کے لیے وزیرِ اعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں ہوتیں، صدر سفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی خود تحلیل ہو جاتی ہے، صرف تحریکِ عدم اعتماد پر دلائل دوں گا، تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا، ووٹ ڈالنے کا حق آئین اور اسمبلی رولز سے مشروط ہے، کسی دوسرے ملک میں ممبران اسمبلی کے ووٹ ضائع کرنے میں عدالتیں مداخلت نہیں کرتیں۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 95 کے اندر حق رولز سے مشروط ہے؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ حکومت کی تشکیل ایوان میں کی جاتی ہے، آئین ارکان کی نہیں ایوان کی 5 سالہ میعاد کی بات کرتا ہے، برطانیہ میں اسمبلی توڑنے کے وزیرِ اعظم کے اختیار کا آپشن ختم کر دیا گیا ہے، ہمارے آئین میں وزیرِ اعظم کا اسمبلی توڑنےکے اختیار کا آپشن موجود ہے، اسپیکر کسی رکن کو معطل کرے تو وہ بحالی کیلئے عدالت نہیں آسکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک پیش کرتے وقت تمام 172 لوگ سامنے آ جائیں گے، تحریک پیش کرنے اور ووٹنگ میں 3 سے 7 دن کا فرق بغیر وجہ نہیں، 7 دن میں وزیرِ اعظم اپنے ناراض ارکان کو منا سکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 20 فیصد ممبران نے جب تحریک پیش کر دی تو بحث کرانا چاہیے تھی، وزیرِ اعظم کو سب پتہ ہوتا ہے، جاتے ہوئے ممبران سے پوچھتے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا تحریکِ عدم اعتماد پر لیو گرانٹ کرتے ہوئے کوئی بنیاد بتانا ہوتی ہے؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کی کوئی بنیاد بتانا ضروری نہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ فواد چوہدری 28 مارچ کو اعتراض کرتے تو تحریک پیش کرنے سے پہلے مسترد ہو سکتی تھی؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ تحریک پیش ہونے کے وقت بھی مسترد ہو سکتی تھی، تحریکِ عدم اعتماد قانونی طور پر پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی تھی۔
جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ اسپیکر نے قرار دے دیا کہ تحریک منظور ہو گئی تو آپ کیسے چیلنج کر سکتے ہیں؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہو سکتی تو کیس ہی ختم ہو گیا، تحریک پیش ہونے کے لیے بھی 172 اراکین پورے ہونے چاہئیں، تحریک پیش کرنے کے لیے 68 ارکان کی موجودگی چاہیے تھی، اس دن 168 آئے، 100 نے مخالفت کی، ڈپٹی اسپیکر اس طرح تحریک پیش کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ اکثریت مخالفت کرے تو تحریک مسترد ہو گی، تحریک پیش کرنے کی منظوری کا ذکر اسمبلی رولز میں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 55 کے مطابق اسمبلی میں تمام فیصلے ہاؤس میں موجود اراکین کی اکثریت سے ہوں گے، ایک بات تو ہمیں نظر آ رہی ہے اور وہ یہ کہ رولنگ غلط ہے، اپوزیشن بھی مہنگائی پر شکایت کرتی ہے وہ بھی یہی چاہتے ہوں گے، ایک بات تو نظر آ رہی ہے کہ رولنگ غلط ہے، بتائیں اگلا مرحلہ کیا ہو گا۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ کیس کا آج ہی فیصلہ سنائیں گے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ممکن تھا اپوزیشن کچھ کر لیتی، اصل مسئلہ اسمبلی تحلیل ہونے سے پیدا ہوا، تحریکِ عدم اعتماد کے دوران اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جا سکتیں، تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلیاں تحلیل کرنا آئین کے منافی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ اسمبلیاں صرف تب تحلیل کی جا سکتی تھیں جب تحریکِ عدم اعتماد خارج ہوتی، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ والی گھڑی کی ٹک ٹک ختم ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے 172 اراکین کی ضرورت نہیں، ووٹنگ کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ میں تمام اراکین بھی ہوں تو 20 فیصد کی منظوری سے تحریک پیش ہو سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسپیکر کے وکیل نے کہا کہ لیو گرانٹ ہو گئی، پارلیمنٹ کے اندرونی معاملے میں نہ جائیں۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ اسپیکر تو 3 اپریل کو بھی موجود تھا، ایسے تو کیس ہی ختم ہے۔
’’چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کامیاب ہو اور کام کرتی رہے‘‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ انتخابات ہی واحد حل ہے، کوئی اورحل کیوں نہیں تھا؟ چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کامیاب ہو اور کام کرتی رہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی اپوزیشن لیڈر وزیرِ اعظم نہیں بنتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کئی ممالک میں بنتے ہیں لیکن اپوزیشن لیڈر جب وزیرِ اعظم بنے تو کام نہیں چلتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی رکنِ اسمبلی کو عدالتی فیصلے کے بغیر غدار نہیں کہا جا سکتا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا دفاع نہیں کروں گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اسپیکر نے کہہ دیا کہ میں رولنگ دیتا ہوں کیونکہ میں سب سے اوپر ہوں۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ کسی کی ملک سے وفاداری پر بات کرنا بالکل غلط ہے۔
’’آج اسمبلی دوبارہ بحال ہو گئی تو اس کا مینڈیٹ وہ نہیں ہو گا جو پہلے تھا‘‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج اسمبلی دوبارہ بحال ہو گئی تو اس کا مینڈیٹ وہ نہیں ہو گا جو پہلے تھا، میرا فوکس نئے انتخابات پر ہے، 4 سال سلیکٹڈ کہنے والے آج اسی اسمبلی کا وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں، رولنگ کے بعد عمران خان وزیرِ اعظم برقرار رہتے تو مستعفی ہو جاتا، مناسب یہی تھا کہ عمران خان عوام میں جاتے، وہی فیصلہ انہوں نے کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ملک میں استحکام چاہیے، آپ کہتے ہیں کہ اسمبلی بحال ہوئی تو سڑکوں پر لڑائیاں ہوں گی؟ آج ہی کیس کو مکمل کرنا چاہتے ہیں، قومی مفاد اور عملی ممکنات دیکھ کر ہی آگے چلیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگلا قدم کیا ہو، وہ عملی طور پر قومی مفاد میں ہو، اپوزیشن کے وکیل مخدوم علی خان ہماری معاونت کریں گے، فی الحال 10 منٹ کا وقفہ کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں 10 منٹ کے وقفے کی بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت کو حالات و نتائج دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا، عدالت کو آئین کو مدِ نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا، عدالت کو نہیں دیکھنا کہ کون آئے گا کون نہیں، ہم نتائج میں نہیں جائیں گے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ اپوزیشن لیڈر عدالت میں موجود ہیں، اپوزیشن لیڈر بھی نہیں چاہتے ہوں گے کہ ملک کسی اور کے مینڈیٹ پر چلے، 2018ء کی اسمبلی سے دس بیس لوگ اِدھر اُدھر ہو کر جو حکومت بنائیں گے وہ سب کو معلوم ہے کیسی ہو گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آج روپے کی قدر گر گئی ہے، روپے کی قیمت 190 پر پہنچ چکی، سری لنکا میں کرنسی کریش کی خبر دیکھی، ہماری اسٹاک مارکیٹ بھی نیچے گر رہی ہے، ایک شہری کے طور پر کہتا ہوں کہ کمزور نہیں مضبوط حکومت چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر یہ سارے معاملات گلیوں میں طے ہونے لگے تو خرابی ہو گی۔
چیف جسٹس نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا کہ اپوزیشن کے لیے یہ بہت مشکل ٹاسک ہو گا۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے عدالت کے روبرو کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کا اقدام غیر قانونی اور غیر آئینی تھا، تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی اور اس دوران اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جا سکتیں، رولنگ ختم ہونے پر تحریکِ عدم اعتماد بحال ہو جائے گی، عدالت نے کہا کہ اسپیکر کا اقدام غلط تھا، اگر گزشتہ حکومت اتحادیوں کے ساتھ چل سکتی تھی تو اب کیوں نہیں؟ میں دوبارہ کہتا ہوں کہ چارٹر آف اکانومی پر دستخط کریں، حکومت کے اتحادیوں نے اپوزیشن کیمپ جوائن کیا، گارنٹی دیتا ہوں کہ آئینِ پاکستان کا تحفظ کریں گے۔
چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ 2013ء میں آپ کی جماعت کے پاس کتنی سیٹیں تھیں؟
شہباز شریف نے جواب دیا کہ 2013ء میں 150 سے زائد نشستیں تھیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 184 تھری کے تحت موجودہ کارروائی کر رہے ہیں، یہ مفادِ عامہ کا کیس ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ سیاسی استحکام بہت ضروری ہے، سیاسی استحکام آئین کے ساتھ ہی مشروط ہے، مطمئن ضمیر کے ساتھ قبر میں جاؤں گا، سیاسی الزام تراشی نہیں کروں گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم تمام معاملات کو دیکھیں گے، اکثریت حاصل کرنے والی جماعت فائدے میں رہتی ہے، رولنگ کو ختم کر کے دیکھیں گے کہ آگے کیسے چلنا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں فریش الیکشن چاہتی تھیں، فریش الیکشن کا موقع ہے، اب کیوں نہیں چاہتے؟
شہباز شریف نے کہا کہ الیکشن چوری ہوا ہے، آئین توڑا گیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جو آئین ٹوٹا وہ ہم بحال کر لیں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہاؤس نیا لیڈر آف ہاؤس منتخب کر لیتا ہے تو ملک کو استحکام کی طرف لے جائیں گے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ عدم اعتماد اگر کامیاب ہوتی ہے تو اسمبلی کا کیا دورانیہ رہے گا؟
شہباز شریف نے کہا کہ ڈیڑھ سال پارلیمنٹ کا ابھی باقی ہے، اس دوران انتخابی اصلاحات لائیں گے جن سے فری اینڈ فیئر الیکشن ہوں گے، عام آدمی تباہ ہو گیا، اس کے لیے ریلیف پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سب چاہتے ہیں کہ اراکینِ اسمبلی کے نہیں عوام کے منتخب وزیرِ اعظم بنیں۔
اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے دلائل مکمل ہو گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین سے 58 ٹو بی جمہوری انداز میں نکالا گیا تھا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ صوبائی اسمبلی بحال کر چکی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ ہمیشہ سے الیکشن مانگتے تھے، جن لوگوں نے انہیں پلٹا ہے، وہ آپ کو بخشیں گے؟
مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کون کس کو بخشے گا، کس نے کس کو سرپرائز دیا؟ 2002ء سے 2022ء تک ہر حکومت اتحادیوں کی مدد سے بنی، 2002ء سے کسی جماعت نے اکیلے حکومت نہیں بنائی، اٹارنی جنرل کی آخری باتیں سرپرائز اور چھوڑیں گے نہیں وغیرہ دھمکی آمیز تھیں۔
چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ آپ پہلے نئے انتخابات چاہتے تھے، اب قلابازی کھا گئے، ہمیشہ نئے الیکشن کا مطالبہ کرتے تھے آج کیوں نہیں مان رہے؟
مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ وزیرِ اعظم نے سرپرائز دینے کا اعلان کیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سرپرائز پر اپنا فیصلہ واضح کر چکے ہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت سیاسی تقریر پر نہ جائے، آج متحدہ اپوزیشن کے پاس ارکان کی تعداد 177 ہے۔
اس موقع پر مخدوم علی خان نے پارلیمنٹ میں تمام جماعتوں کی پارٹی پوزیشن بتائی اور کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہے کہ اسپیکر نے کیا کیا؟ عدالت کہہ چکی ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غلط ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل کی تعریف کی اور کہا کہ آپ سے متاثر ہوں کہ ہر نکتے کی تیاری سے آئے ہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ 3 اپریل کا اقدام کسی بھی طرح آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا، مجھے اندازہ تھا کہ حکومت بلآخر انتخابات کی طرف جائے گی، جانتا تھا کہ اسپیکر کی رولنگ کا دفاع کرنا ممکن نہیں۔
شہباز شریف ایک بار پھر روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ میں 30 سیکنڈ کی بات کرنا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس نے انہیں اجازت دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو بات کرنی ہے کریں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سیاست میں آپ کے مقابلے ہوتے ہیں، ہمیں کسی کو بے عزت نہیں کرنا، ہم غداری والے الزام میں نہیں جائیں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ اپنی حکومت بچانے کے لیے غداری کا الزام لگا رہے ہیں وہ ثبوت لے آتے، سابق وزیرِ اعظم عمران نیازی ایک ثبوت لے آئیں، میں یقین دلاتا ہوں سیاست چھوڑ دوں گا بلکہ آپ جو چاہیں وہ سزا دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ پارلیمنٹ کی ایک چھت کے نیچے آپ ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، آپ کا دل بڑا ہوگا لیکن انہوں نے تو آپ سے ہاتھ تک نہیں ملایا، سوشل میڈیا پر تنقید کی جا رہی ہے، ہم صرف عبادت کے طور پر کام کر رہے ہیں، باہر روسٹرم پر میڈیا کے سامنے جو گفتگو ہوتی ہے اس سے احتیاط کرنی چاہیے، سیاست میں بہت تلخی آگئی ہے، محض جھوٹ بولنا ملعون بنا دیتا ہے۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سچ بولنا شروع کر دیں تو قوم کہاں سے کہاں چلی جائے، ہماری قوم قیادت کو ترس رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما میاں رضا ربانی نے عدالت کے روبرو کہا کہ ہم متنازع الیکشن نہیں چاہتے، انتخابی اصلاحات کے بغیر الیکشن ویسے ہی ہوں گے جیسے 2018ء کے تھے، انتخابی اصلاحات نہ ہونے پر گزشتہ الیکشن اور اسٹیبلشمنٹ متنازع ہوئے۔
سپریم کورٹ نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو روسٹرم پر بلا لیا۔
اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے عدالت کے روبرو کہا کہ بدنیتی سے حکومت نے یہ فیصلہ لیا، ڈپٹی اسپیکر کی غیرقانونی رولنگ نے وزیرِ اعظم کی جمہوریت پر سوال اٹھایا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا شکریہ کہ آپ نے بہت زبردست بات کی، آپ واحد ہیں جن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، ہمیں آئین پر سختی سے عمل کرتے ہوئے فیصلہ جاری کرنے دیں، معلوم ہے کہ بلاول بھٹو کی 3 نسلوں نے جمہوریت کی بقا کے لیے قربانی دی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اپنے لیے حکومت بنانا ہماری ترجیح نہیں ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی ہے، حکومت بنا کر انتخابی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا انتخابی اصلاحات کی تجویز ٹیبل ہوئی ہے؟
بلاول بھٹو زرداری نے جواب دیا کہ انتخابی اصلاحات پر بل تیار ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف از خود نوٹس پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو وہ آج شام ساڑھے 7 بجے سنائے گی۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کے باہر سیکیورٹی بڑھا دی گئی، ایف سی اہلکار بھی تعینات کر دیے گئے۔
گزشتہ روز کی سماعت میں اپوزیشن جماعتوں اور بار کونسلز کے دلائل مکمل ہو چکے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان کے دلائل مکمل ہوئے۔
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے وکیل علی ظفر نے بھی دلائل دیے۔