اسلام آباد (رپورٹ: طارق بٹ) پاکستان کے دیگر رہنمائوں اور اداروں کے برخلاف وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پاکستانی سر زمین پر امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان رہنما ملا اختر منصور کی ہلاکت پر انتہائی جامع، واضح اور کسی لگی لپٹی کے بغیر رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح انہوں نے حکومتی موقف کو صاف اور نہایت واضح انداز میں پیش کیا۔ سب سے پہلے رد عمل ظاہر کرنے والے وزیر اعظم نواز شریف تھے۔ دفتر خارجہ کا رد عمل جیسا کہ عام طورپر ہوتا ہے، سفارتی زبان کا آئینہ دار رہا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے اسلام آباد میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے ملاقات میں ڈرون حملے پر پاکستان کی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ ڈرون حملے پر شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی امریکی سفیر کو آگاہ کیا کہ ایسے حملے پاکستان کی سلامتی و خود مختاری کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں اور ان سے خطے کی سلامتی کے لیے امن عمل متاثر ہوگا۔ تاہم سب سے زیادہ موثر یاد دہانی وزیر داخلہ کی جانب سے سامنے آئی جس میں انہوں نے امریکی پالیسی میں تضاد اور دوغلے پن کو کھول کر رکھ دیا۔ انہوں نے اس امریکی دعوے کو مسترد کردیا کہ ملا اختر منصور افغان امن عمل میں رکاوٹ تھا۔ انہوں نے کہا یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ افغانستان میں رہتے ہوئے امریکا کے لیے خطرہ نہیں رہا۔ جب کہ مری میں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ملا اختر منصور ہی طالبان وفد کی قیادت کرتا رہا۔ اس سے انکار نہیں کہ چوہدری نثار کا رد عمل تفصیلی غور و خوض، وزیر اعظم اور کلیدی اداروں کی مشاورت کے بعد ہی سامنے آیا ہوگا۔ جس میں انہوں نے درست طورپر کہا کہ ڈرون حملے میں ملا اختر منصور کی ہلاکت سے افغان امن عمل کو ہی دھچکہ لگے گا، لگتا ہے اس حملے کا مقصد پاکستان کو مشکل میں ڈالنا تھا۔