• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی قوم یا معاشرے کے ذہنی وفکری انحطاط اور زوال کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ خود اپنی حالت بدلنے کے بجائے کسی مسیحا یا نجات دہندہ کا انتظار کیا جائے۔ یہاں تک کہ کوئی شعبدہ باز صورتحال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے خود کو مسیحا کے روپ میں پیش کردے۔جرمنی میں بھی یہی کچھ ہوا۔1921ء میں تبدیلی کی لہر اُٹھی اور ایڈولف ہٹلر جو اب نازی پارٹی کی قیادت سنبھال چکے تھے، نے ’نیا جرمنی‘بنانے کا تصور پیش کیا۔دسمبر1924ء میں انتخابات ہوئے تو نازی پارٹی 647کے ایوان میں صرف 14نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکی۔ مئی 1928ء میں ایک بار پھر بھرپور انتخابی مہم چلائی گئی مگر نازی پارٹی کی نشستیں کم ہو کر12رہ گئیں۔ مشتعل انقلابیوں نے اس شکست پر پورے ملک میں ہنگامہ برپا کردیا۔27فروری 1933ء کو الیکشن سے چند روز قبل جرمن پارلیمنٹ کو آگ لگا دی گئی۔مگر پھر نجانے کیا ہوا کہ ہٹلر کا جادو چل گیا اورمارچ1933ء میں ہونے والے الیکشن میں نازی پارٹی نے قابلِ ذکر کامیابی حاصل کی اور288 نشستیں جیت لیں۔نازی پارٹی نے 43.9فیصد ووٹ حاصل کئے اور اس کی اتحادی جماعت کنزرویٹو پارٹی نے 8فیصد ووٹ لیے مگر اب بھی لگ بھگ 50فیصد ووٹ اپوزیشن جماعتوں کے نام رہے۔سوشل ڈیموکریٹک پارٹی جس نے 18.3فیصد ووٹ لیے اسے 120نشستیں ملیں جبکہ کیمونسٹ پارٹی جسے 12.3فیصد ووٹ ملے، اسے 81نشستیں دی گئیں۔ہٹلر جرمن چانسلر تو بن گئے مگر اب بھی ان کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں تھی اور حکومت چلانے کے لیے انہی اپوزیشن رہنمائوں کے ساتھ بیٹھنا پڑتا جنہیں وہ انتخابی مہم کے دوران چور، ڈاکو اور غدار قرار دے چکے تھے۔شاید ہٹلر کے ہاں بھی شریف الدین پیرزادہ اور بابر اعوان جیسے قانونی مشیر ہوتے ہوں گے جنہوں نے مشورہ دیا کہ جرمن پارلیمنٹ Reichstagکو بائی پاس کرنے کے لیے Enabling Actمنظور کروالیا جائے۔اس بل کے منظور ہونے کا مطلب یہ تھا کہ پارلیمنٹ غیر موثر ہوجاتی اورہٹلر کو ایمرجنسی نافذ کئے بغیر قانون سازی کے اختیارات حاصل ہوجاتے۔

اپوزیشن رہنمائوں اور سیاسی مخالفین کی طنابیں کسنے اور ہٹلر کو مطلق العنان حکمران بنانے کے لیے قانون سازی کا مسودہ توتیار ہوگیا مگر اڑچن یہ تھی کہ آئین میں ترمیم کرنے کے لیے نازی پارٹی کے پاس مطلوبہ اکثریت دستیاب نہ تھی۔دستور کے مطابق اس بل کو منظور کروانے کے لیے نہ صرف دو تہائی ووٹ درکار تھے بلکہ پارلیمنٹ میں دو تہائی کورم یعنی دو تہائی نمائندگی بھی ضروری تھی۔چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملانے کے باوجود نازی پارٹی کے پاس ایوان میں 340نشستیں تھیں جبکہ آئین سازی کے لیے Reichstagمیں 432ارکان کا موجود ہونا اور اس بل کے حق میں ووٹ دینا ضروری تھا۔ایک بار پھر ہٹلر کے قانونی مشیر سرجوڑ کر بیٹھے اور ’سرپرائز‘دینے کافیصلہ ہوا۔ہٹلر کے وفادار ساتھی Herman Goringجو پارلیمنٹ کے اسپیکر تھے، انہوں نے اس مشکل کو اپنے آئینی اختیارات کے ذریعے حل کرنے کا فیصلہ کیا اور رولنگ دی کہ کیمونسٹ پارٹی کے 81ارکان غدار اور ملک دشمن ہیں، چنانچہ انہیں گننے کی ضرورت نہیں۔ اس رولنگ کے نتیجے میں کورم کی شرط نرم ہوگئی اور اب Enabling Actمنظور کروانے کے لیے432کے بجائے 378ارکان کی موجودگی ضروری تھی۔مگر اب بھی نازی پارٹی کے پاس نمبر پورے نہیں تھے۔

جرمن پارلیمنٹ میں ایک کیتھولک مذہبی جماعت KAAS سے رجوع کیا گیا اوراس بل کے لیے حمایت طلب کی گئی۔یہ مذہبی جماعت جس کے پاس 73ووٹ تھے،اس نے شرط رکھی کہ چرچ کا تحفظ کیا جائے گا اور حکومت کی طرف سے کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔ہٹلر کی حکومت نے یہ سب شرائط تسلیم کرلیں اور اس مذہبی جماعت کو اپنے ساتھ ملالیا۔اس دوران ہٹلر کی نیم فوجی تنظیم کے ’ٹائیگر‘ملک میں دندناتے رہے۔بعض اپوزیشن ارکان پرتشدد کرکے انہیں خاموش کروادیا گیا۔چند ایک ارکان پارلیمنٹ کو حراست میں لے لیا گیا تو کچھ کو حفاظتی تحویل کے نام پر قید کردیا گیا۔دہشت کی اس فضا میں کئی ارکان پارلیمنٹ ملک چھوڑ کر فرار ہونے یا زیرزمین چلے جانے پر مجبور ہوگئے۔جس دن ووٹنگ ہونا تھی اس روز بھی بھرپور کوشش کی گئی کہ اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ میں نہ پہنچ سکیں۔مگر ان سب ہتھکنڈوں کے باوجود سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے 120میں سے 94ارکان پارلیمنٹ ایوان میں پہنچ کر اس Enabling Act کے خلاف ووٹ دینے میں کامیاب ہوگئے۔اس بل کے حق میں 444ووٹ آئے اور یوں ہٹلر کو قانون سازی کے لامحدود اختیارات حاصل ہوگئے۔یہ بل چار سال کے لیے منظور کیا گیا تھا اور پھر دو مرتبہ جرمن پارلیمنٹ سے اس کی توسیع کروائی گئی۔ہٹلر نے قانون سازی کے اس اختیار کو سیاسی مخالفین کے خلاف جی بھر کر استعمال کیا۔ملک دشمنوں اور غداروں کا قلع قمع کرنے کی ہرممکن کوشش کی جارہی تھی لیکن ان کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی تھی۔ تمام تر اختیارات کے باوجود ’نیا جرمنی‘نہ بنایا جا سکا۔ہٹلر نے اپنے آخری ایام ایک بنکر میں گزارے اور 25اپریل1945ء کو اپنے آپ کو گولی مار کر خودکشی کرلی۔ہٹلر کی موت کے بعد جرمن پارلیمنٹ کے اسپیکرHerman Goring کو گرفتار کرلیا گیا اور طویل ٹرائل کے بعد 30ستمبر 1946 کو سزائے موت سنادی گئی۔مگر اس نے سزا پر عملدرآمد سے پہلے ہی زہریلا کپسول کھا کر خودکشی کرلی۔

قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق سپریم کورٹ از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیتے ہوئے یہ تفصیل توبیان کی اور بتایا کہ دنیا بھر کی پارلیمانی تاریخ میں اس طرح کی رولنگ کی صرف ایک ہی مثال ملتی ہے۔لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ جرمنی کی سپریم کورٹ کا اس حوالے سے کیا کردار رہا۔میں نے کچھ جستجو کی تو معلوم ہوا کہ وہاں بھی اس غیر آئینی رولنگ پر ملک کی سب سے بڑی عدالت سے رجوع کیا گیامگر معزز جج صاحبان نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہم پارلیمنٹ میں ہونے والی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتے۔عدالت نے یہ معلوم کرنے کی زحمت بھی نہ کی،وہ اراکینِ پارلیمنٹ کہاں گئےجنہیں گنا نہیں گیا؟بعد ازاں یہ مقدمہ سننے والے بیشتر جج صاحبان نے ریٹائرمنٹ کے بعد نازی پارٹی میں شمولیت اختیارکرلی۔مگر ’نئے پاکستان‘ میں ایسا نہیں ہوا۔جج صاحبان نے تاریخی فیصلہ دیکر فسطائیت کے سب منصوبے ناکام بنادیئے اور بتادیا کہ یہ نازی جرمنی نہیں پاکستان ہے۔

تازہ ترین