• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو عمران خان کے قومی جرائم کی فہرست بہت طویل ہے مگر میرے نزدیک ان کا ناقابلِ معافی اور ناقابلِ تلافی گناہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے حصے کے سیاسی بونے جمع کرکے ان میں بزعم خود پرہیزگاری Self Righteousnessکی روح پھونک دی اور اب خود پسندی کے لا علاج مرض کا شکاریہ پاکباز جگہ جگہ ’امربالمعروف‘ کا فرض ادا کرتے پھررہے ہیں۔تخیلاتی پرہیزگاری کے زعم میں مبتلا یہ لوگ سیاسی مخالفین کو نہ صرف بدعنوان، بدکردار، ملک دشمن اور غدار سمجھتے ہیں بلکہ انہیں للکارنے،دھتکارنے اور ہراساں کرنے کو بھی اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔موقع مناسبت دیکھے بغیر، جلوت و خلوت کا فرق کئے بنا،مقام و مرتبہ کا لحاظ کئے بغیراور محفل کی نوعیت معلوم کرنے سے پہلے جملے کسنا، دولے شاہ کے چوہوں کی طرح الزام تراشی کرنا، رٹی رٹائی باتیں دہراکر فریق مخالف کو مشتعل کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے کیونکہ انہیں یہی باور کروایا گیا ہے کہ یہ حق و باطل کی لڑائی ہے۔ان رویوں کا اظہار ابتدائی طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے ہوا،نفرتوں کا الائو دہکتا رہا تو اس کی تپش ذاتی ملاقاتوں، ضیافتوں، نہایت بے تکلفانہ محفلوں اور یہاں تک کہ گھر کے دسترخوان پر محسوس ہونے لگی۔اور اب یہ عالم ہے کہ شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے اور اس کے نزدیک مخالفین کی صف میں شامل ہر فرد واجب القتل ہے۔ اسلام آباد کے پنج تارہ ہوٹل میں دورانِ افطار جو افسوسناک واقعہ پیش آیا، وہ تو محض ٹریلر ہے، جب فلم ریلیز ہوگی تو معلوم ہوگا کہ حقیر سیاسی مفادات کے پیش نظر اس معاشرے کو کیسے تقسیم درتقسیم کیا گیا ہے۔صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کے مقد س ترین مقام حرم شریف میں بھی سیاسی نعرے بازی ہوتی ہے، ویڈیوز بنا کر شیئر کی جاتی ہیں۔ بھلے چنگے پڑھے لکھے لوگ مکالمہ اور مباحثہ کرنے سے قاصر ہیں، چند منٹ بعد ہی دلائل ختم ہوجاتے ہیں تو لب و لہجہ اور انداز واطوار بدل جاتے ہیں، وہی چور ڈاکو، غدار کی گردان شروع ہوجاتی ہے۔

عمران خان کا قصور یہ ہے کہ اس نے سیاست کو بے توقیر کیا۔مروت، وضعدار ی، لحاظ، شرم، حیا، رکھ رکھائو اور ظرف جیسی اقدار و روایات کو تبدیلی کے کوڑادان میں پھینک دیا۔ان قابل قدر اطوار کی جگہ خود ستائشی و خودپسندی، تکبر و نخوت،الزام و دشنام اورتذلیل و تحقیرنے لے لی۔ انحطاط کا یہ عالم ہے کہ سیاست جو کبھی اصولوں کا پیشہ ہوا کرتی تھی، اب ابوالفضولوں کا مشغلہ بن چکی ہے۔سیاست جو کسی دور میں نظریئے، سوچ اور کردار سے عبارت تھی، اب تکرار،ماردھاڑ اور مخالفین پریلغار کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے۔سیاست جو ماضی میںشعوری پختگی کی موثر تدبیر گردانی جاتی تھی اب طفلانہ پن اور ناپختگی کی سفیر سمجھی جاتی ہے۔آپ شایدسوچ رہے ہوں گے کہ پرانے زمانے کے سیاستدان بھی دودھ کے دھلے نہیں تھے۔ سرتسلیمِ خم، وہ رجالان سیاست بھی یکسر بے داغ نہیں تھے، ان کے ہاں بھی سیاسی چالیں چلنے اور مخالفین کو مات دینے کا رجحان تھامگر بصد احترام عرض کروں کہ ان کی کچھ حدود وقیود تھیں، اصول و ضوابط تھے، اقدار وروایات تھیں۔وہ کسی حادثے کی پیداوار نہیں تھے۔ وہ محض دشنام طراز،گردن فراز اور گفتار کے غازی نہیں تھے۔ سیاسی انحطاط و زوال کا عالم دیکھیں کسی دور میں مولوی تمیز الدین جیسے دیدہ ور دستور ساز اسمبلی کے صدر مجلس رہے اور پھر یہ منصب اسد قیصر اور قاسم سوری جیسے لوگوں کے ہاتھ آگیا جنہیں فلک کج رفتار نے خواجگی تو بخشی مگر آداب بندہ پروری نہ سکھائے۔کبھی حسین شہید سہروردی جیسی نابغہ روزگار شخصیات وزارت دفاع کا قلمدان سنبھالے ہوئے تھیں جن کے دفتر کے باہر افواج پاکستان کا کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان ملاقات کا منتظر رہتا اور پھر چشم بددور پرویز خٹک جیسے لوگ وزیر دفاع بن گئے۔کبھی سردار عبدالرب نشتر گورنر پنجاب ہوا کرتے تھے، بھٹو جیسے شہ دماغ وزیر خارجہ کے طور پر اقوام عالم میں پاکستان کی نمائندگی کیا کرتے تھے، اکبر بگٹی جیسے باصلاحیت افراد وزیر داخلہ ہوا کرتے، سردار شیر باز خان مزاری، نواب زادہ نصراللہ خان اور بینظیر بھٹو جیسی قابل احترام شخصیات سیاست کی پہچان ہوا کرتی تھیں مگر پھر کس قماش اور کس کردار کے حامل افراد مسلط کردیئے گئے، آپ بہت اچھی طرح سے واقف ہیں۔میرا مقصد ان شخصیات کے نام گنوانا نہیں سیاسی انحطاط کا احساس دلاناہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک چل رہی تھی تو وہ اپنے بدترین سیاسی مخالف مولانا مودودی سے ملنے اور مشورہ لینے کے لیے لاہور کے علاقے اچھرہ میں ان کی رہائشگاہ تشریف لائے، کیا کسی نے ان پر جملے بازی کی؟مگر اب یہ رواداری کیوں دکھائی نہیں دیتی ؟

اس ملک کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا؟ایک منتخب وزیراعظم کو ناحق پھانسی دیدی گئی، بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں تو کراچی میں دن دہاڑے ان کے بھائی مرتضٰی بھٹو کو نام نہاد پولیس مقابلے میں ماردیا گیا،اکبر بگٹی کو نہایت سفاکانہ انداز میں قتل کردیا گیا،بینظیر بھٹو کا راولپنڈی کے لیاقت باغ میں قتل تو کل کی بات ہے، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے ایک خط نہ لکھنے کی پاداش میں کھڑے کھڑے گھر بھیج دیا،نوازشریف وزیراعظم تھے مگر جے آئی ٹی بنا کر انہیں نااہل قرار دے دیا گیا۔لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود کیا کسی سیاسی جماعت کے کارکنوں نے پاسپورٹ جلائے ؟کیا کسی کے جیالوں یا متوالوں نے یہ کہا کہ یہ ملک جائے بھاڑ میں ؟کیا کبھی یہ بات سننے کو ملی کہ ہمارا قائد نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں، ہم ترسیلاتِ زر پاکستان نہیں بھیجیں گے؟کیا کبھی یوں اداروں کو گالیوں اور غلیظ ترین مہم کا سامنا کرنا پڑا؟یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ نرگسیت کا شکار عمران خان کے چاہنے والے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے اس غرور پارسائی میں مبتلا ہوچکے ہیں جو ان کے ہاں سرے سے موجود ہی نہیں۔گویا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ وہ غلط جگہ کھجا رہے ہیں بلکہ درحقیقت انہیں خارش کا واہمہ لاحق ہے۔اگر ان کی یہ تخیلاتی خارش ختم نہ کی گئی تو مرض وبا کی شکل اختیار کرلے گا اور پھر اس کا علاج کرنا دشوار ہوجائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین